گورنری کی عمر میں پہنچ کر کچھ پتہ چلا کہ اصل جمہوریت امریکہ کی ہوتی ہے۔ یوں تو امریکی عوام نے 45 سے زیادہ صدور کوووٹ دیئے اور صدارت کے سینکڑوں امیدوارو ں نے اپنی انتخابی مہمات چلائیں‘لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مثال آپ ہیں۔ انہوں نے کہنہ مشق امریکی رائے دہندگان کو بیوقوف سمجھ کر ‘اپنی انتخابی مہم چلائی اور ثابت ہوا کہ وہ صحیح سمجھ رہے تھے۔ اگر امریکہ کے تمام صدور کا جائزہ لے کر دیکھا جائے‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے بہت ہی ناپختہ اور گنوار نظر آتے ہیں۔ امریکہ کی تمام اشرافیہ‘ دانشور ‘ صحافی اور سیاسی تجزیہ کار‘ جناب ٹرمپ کو کسی گنتی میں نہیں رکھ رہے تھے۔ اکثریت کا خیال یہ تھا کہ وہ یونہی فلمی کامیڈین کی طرح صدارتی دنگل میں کود پڑے ہیں۔ کچھ دن لاکھوں حاضرین اور سامعین کو ہنسائیں گے‘ اس کے بعد حسینوں کے میلے لگا کر‘ اپنا اور تماشائیوں کا رانجھا راضی کرتے ‘ کشتیوں میں مصروف ہو جائیں گے۔ مگر انتخابی نتائج کے بعد معلوم ہوا کہ سارے جمہوری ماہرین غلط تھے اور جسے سب کامیڈین سمجھ رہے تھے‘ وہ سب سے سمجھدار ثابت ہوا۔ موصوف اب آنے والے چاربرس اور قسمت نے یاوری کی تو آٹھ سال ‘ امریکہ کے ایوان صدر میں گزاریں گے۔ شاید پہلی مرتبہ وائٹ ہائوس سے فیشن شو اور کشتیاں بھی دکھائی جایا کریں۔ فیشن شو اور مقابلہ حسن وہ شوقیہ نہیںکراتے تھے‘ یہ ان کی وسیع تجارتی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہے اور اس میں انہوں نے دونوں ہاتھوں سے دولت کمائی اور اب تو صدارتی فیشن شو میں وہ دونوں ہاتھوں سے دولت کمایا کریں گے۔ ان کی اپنی دونوں بیٹیاں بھی ماڈل ہیں اور زمانے کے رواج کے مطابق اپنے عزت مآب والد کے نام کی وجہ سے کروڑوں ڈالر کمایا کریں گی۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے پہلوان والد محترم ‘ اپنی دختران کو پسند نہ کرنے والے تماشائیوں کو ان کے جبڑے ادھیڑ کے سمجھایا کریں گے کہ خوش ذوقی کیا ہوتی ہے؟
مجھے لاہور کے ایک شاعر یاد آ گئے۔ حلقہ ارباب ذوق کے ہفتہ وار اجلاس ہوا کرتے تھے‘ جہاں افسانے اور تنقیدی مضامین یا نظمیں اور غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ جو اہل قلم ایک نشست میں اپنی تحریریں تنقید کے لئے پیش کرتے‘ صاحبان ذوق ان پر غور و فکر کے بعد اپنی رائے دیا کرتے کہ زیرنظر تحریر کا معیار کیا ہے؟ عموماً اہل ادب وضعدار لوگ ہوتے ہیں‘ لیکن عظیم چغتائی ایک منچلے شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی تجرباتی نظم محفل میں تنقیدی مطالعہ کے لئے پیش کی۔ روایت کے مطابق اس کی نقول حاضرین میں تقسیم کیں۔ سردی کا موسم تھا۔ نظم ختم کر کے چغتائی صاحب کھڑے ہوئے۔ دونوں ہاتھوں سے اپنے کوٹ کو کمر پہ رکھا اور حاضرین پر ایک فلسفیانہ نگاہ دوڑاتے ہوئے بولے ''دیکھتا ہوں‘ کون الو کا پٹھا تنقید کرتا ہے؟‘‘ بطور صدارتی امیدوار جناب ٹرمپ خوب جانتے تھے کہ عوام انہیں کیا سمجھ رہے ہیں؟ ٹرمپ صاحب کو خوب اچھی طرح پتہ تھا کہ لوگ انہیں بیوقوف سمجھیں گے۔ ان کا اندازہ درست نکلا۔ لوگوں نے انہیں بیوقوف سمجھا اور دھڑادھڑ ووٹ ڈال دیئے۔ دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں‘ صاحبان علم اورخصوصاً خواتین کے ووٹ ‘ ٹوٹ کر ان پر برسے۔ ٹرمپ صاحب نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے بارے میں ان گنت کہانیاں پھیلائیں کہ وہ تقریبات اور محفلوں میں خواتین کے ساتھ بڑی خوش سلوکیاں کیا کرتے تھے۔ شاید ہی کوئی حسین خاتون ان کے قریب سے گزری ہو‘ جس کا خوبصورت بدن ان کی دست درازی سے محفوظ رہا ہو؟ امریکہ کی محفلوں میں معروف خواتین جان بوجھ کر مسٹر ٹرمپ کے نزدیک سے ہو کر گزرتیں تاکہ دست عنایت سے محروم نہ رہ جائیں۔ بطور صدارتی امیدوار‘ امریکہ کی کہنہ مشق سیاستدان ہیلری کلنٹن ‘ ٹرمپ صاحب کے مدمقابل تھیں۔سیاسی مقابلوں کے کہنہ مشق ناظرین‘ اس سیاسی مقابلے کوایک مزاحیہ شو سمجھ کر دیکھنے آئے تھے۔ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ سیاسی مقابلوں کا طویل تجربہ رکھنے والی ہیلری کے سامنے ‘ایک تاجر اور پہلوان کیا دائو پیچ دکھا پائے گا؟ ہیلری تجربہ کار اور ماہر سیاستدان کی طرح‘ پورے اعتماد کے ساتھ سٹیج پر آئیں۔ تمسخر آمیز فاتحانہ نگاہوں سے اپنے اناڑی حریف کو دیکھا اور پھر بھرپور اعتماد کے ساتھ ناظرین کے سامنے آئیں۔ ان کی مشہور اور دلکش ہنسی‘ ہر کسی کا دل لبھا لیتی ہے۔ حاضرین اور کیمروں کے سامنے ان کا پراعتماد طرزتکلم دیکھ کر‘ ہر کوئی تسخیر ہو چکا تھا۔ تقریری مقابلے کے ہر دور میں ہیلری کے انداز فاتحانہ تھے اور سچی بات ہے‘ سیاست کے جتنے بھی گھاگ ماہرین تھے‘ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ اناڑی پہلوان‘ تجربہ کار سیاستدان کے سامنے قدم نہیں جما پائے گا۔ سینکڑوں ٹیلی ویژن سٹیشنز پر ‘ہزاروں مبصرین اور اینکرز‘ اپنی اپنی خاص ادائوں کے ساتھ بول رہے تھے۔ کوئی مسٹر ٹرمپ کو خاطر میں لانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ جس طرح پاکستانی ٹیلی وی چینلز کے اینکرز ایک خاص سیاسی پارٹی کا ذکر کرتے ہوئے‘ اس کے قائد پر ''میں تاں ہو ہو جاواں قربان وے‘‘ کے انداز میں اچانک مہربان ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح سارے ٹی وی اینکرز بھی ہیلری پر مہربان ہو رہے تھے۔ سامعین اور ناظرین میں گنتی کے لوگ ہوں گے‘ جو ٹرمپ صاحب کی کسی بات یا ادا سے متاثر ہوں۔ البتہ جیسے ہی ہیلری کے بولنے کا وقت آتا‘ تو جتنے لوگ ٹرمپ کی اول فول سے بیزار بیٹھے ہوتے تھے‘ ایک دم چوکنا ہو جاتے اور امریکہ کی کلاسیکل سیاسی گفتگو سے لطف اندوز ہونے لگتے۔صدارتی امیدواروں کے ان مباحثوں کا وہ حصہ ‘جس میں مسٹر ٹرمپ فن تقریر کا مظاہرہ کرتے‘ اس سے ناظرین میں سے شاید ہی کوئی لطف اندوز ہوتا ہو۔ لیکن جیسے ہی ہیلری کلنٹن کی باری آتی‘ سب ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ ایک مباحثے کے دوران تو ٹرمپ کو ہیلری پر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تمسخر اڑانے کا موقع بھی ملا۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو سیاست کا ماہر سمجھتے ہوئے ہیلری پر طنز کیا''بی بی! آپ ذرا سوچ بچار کر کے بات کیا کریں۔ یونہی بغیر تیاری کے مباحثے کے لئے نہ آ جایا کریں۔‘‘ ہیلری نے یہ بھونڈا طنز سن کرشریفانہ سا قہقہہ لگایا اور جواب دیا ''میں پڑھتی رہتی ہوں۔‘‘ ہیلری نے ایک ماہر مقرر کی طرح جوابی طنز کیا تھا۔ لیکن ٹرمپ اسے بھی اپنی ماہرانہ برجستگی سمجھ کر فاتحانہ نگاہوں سے حاضرین اور ناظرین کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ امریکہ کا کوئی بھی صدارتی مباحثہ اتنا بیزار کن نہیں تھا‘ جتنا کہ موجودہ مباحثہ رہا۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ انتخابی نتائج ایسے رہیں گے اور ٹرمپ صاحب حیرت انگیز کامیابی حاصل کریں گے۔ ایسی کامیابیاں ہمارے قومی سیاستدان جناب نوازشریف کو حاصل ہوتی ہیں۔ وہ ایک طویل مدت سے برسراقتدار ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ صاحب بھی امریکی سیاست پر نوازشریف کی طرح برسوں چھائے رہیں گے۔ ان کی کامیابی کے خلاف جو عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں‘ ان میں شریک ہونے والے بھی ہمارے گلوبٹ کی طرح ہوں گے۔ مسٹر ٹر مپ کے حامیوں نے مخالفانہ مظاہرے کرنے والوں پر طنز کیا ہے کہ یہ لوگ پیسے لے کر مظاہرے کرتے ہیں۔ یہ راز ٹرمپ صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے ۔ جو کام کسی نے خود کیا ہو‘ وہ اس سے بے خبر کیسے رہ سکتا ہے؟