جب جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو بیشتر قارئین کو میرا تبصرہ مختلف لگا۔ ہمارا معاشرہ ان گنت منفی تبدیلیوں کی لپیٹ میں آکر ‘خواب دیکھنا بھول چکا ہے۔ لوگ صرف تعبیریں چاہتے ہیں۔ جیسے اچھی زندگی کا خواہش مند کوئی شخص چوری‘ فریب کاری‘ ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کے راستے اختیار کرکے‘ طاقت کے مرکز میں داخل ہونے کے لئے‘ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے‘ جہاں نہ عزت کی پروا‘ نہ ذلت کا خوف اور نہ خوفِ خدا۔ ان کا صرف ایک ہی ہدف ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دوستوں‘ ساتھیوں اور ہمدردوں کی لاشوں کو سیڑھیاں بنا کر اوپر چڑھتے جائو۔ اگر ہم پاکستان میں اقتدار کے مناظر کو یاد کریں تو پتا چلے گا کہ کتنی لاشیں‘ اور ان لاشوں پر قدم رکھ کر اوپر جانے کی کتنی منزلیں‘ کس کس نے طے کیں۔ ہم گننا شروع کر دیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں کوئی خیر کا راستہ بھی ہے؟ سب سے زیادہ تعجب مجھے موجودہ وزیر اعظم‘ نواز شریف کی ذات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر ہوتا ہے۔ جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو وہ بے لوث اور اپنی قوم کو ترقی و خوشحالی کی طرف لے جانے کے عزائم لے کر آئے تھے۔ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ مجھے ان کے خوابوں‘ امنگوں اور عزائم میں جھانکنے کے مواقع ملتے رہے ہیں‘ لیکن قومی سیاست میں پوزیشن حاصل کرنے کے جتنے بھی مواقع تھے‘ وہ سازش‘ ریاکاری اور بے وفائی کی پگڈنڈیوں سے ہو کر نکلتے تھے‘ اور اس زمانے میں اس پر جنرل ضیا الحق کا قبضہ تھا۔ جب ضیاالحق انسانی اور اخلاقی راستو ں کو پامال کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا‘ اس وقت نواز شر یف‘ پاکستان کے سیاسی منظر میں اپنا مقام پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ اس دور میں فوجیوں کو غلبہ حاصل تھا۔ ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر قیوم تھے‘ جو نواز شریف کو اقتدار کی راہداریوں میں‘ منزل کی جانب تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کے طریقے بتا رہے تھے۔ پھر ایک جنرل تشریف لائے۔ انہوں نے نواز شریف کے سر پر ہاتھ رکھ کر‘ اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو نواز شریف اسی وقت جنرل صاحب کے عزائم کو بھانپ گئے اور خاموشی سے اپنا راستہ خود چننے کا فیصلہ کر لیا۔ وقت آیا جب بریگیڈیئر قیوم اور طاقتور جنرل کے سائے سے نکل کر نواز شریف نے اپنی راہیں اختیار کرنا شروع کر دیں۔ یہ ایسا وقت تھا جب نواز شریف کے بچے ابھی چھوٹے تھے اور ان کے بھائی‘ شہباز شریف اندھی دولت کے پجاری نہیں بنے تھے۔
یہ دونوں بھائی‘ عزت و آبرو کے ساتھ سیاست اورکاروبار کرنے کے حامی تھے۔ میں نے ایک بار شہباز شریف سے پوچھا کہ ''پاکستان میں ڈبل کھاتہ بنائے بغیر‘ کامیاب تاجر کون بن سکتا ہے‘‘؟ اس پر شہباز شریف کا صاف جواب تھا کہ ''کوئی نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا: ''آپ بھی نہیں‘‘؟ شہباز شریف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا‘ اور جواب دیا کہ ''ہم بھی یہ نہ کرتے تو کیا کرتے‘‘؟ جواب مل گیا اور میں سمجھ گیا کہ آگے چل کر یہ دونوں بھائی اقتدار کی بلندیاں تسخیر کرنا شروع کر دیں گے۔ ریٹائرڈ بریگیڈئر‘ ریٹائرڈ جنرل اور بہت سے ناکام سیاست دانوں نے‘ ان دونوں بھائیوں کو سیاسی بلندیوں کو تسخیر کرتے دیکھ کر‘ ان کے گرد گھیرا ڈالنا شروع کر دیا اور پھر آگے وسعتیں ہی وسعتیں‘ بلندیاں ہی بلندیاں اور اقتدار ہی اقتدار۔
میرا اندازہ ہے کہ نواز شریف کی زندگی میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے وزیر اعظم ہائوس میں اچانک جدید اسلحہ کے ساتھ فاتحانہ انداز میں فوجی افسر داخل ہوتے ہوئے دیکھے۔ فوجی افسروں نے نواز شریف کے سامنے چند کاغذ رکھے اور پھر پستولوں کے سائے میں کہا کہ وہ‘ ان پر دستخط کر دیں۔ نواز شریف نے اپنے دونوں ہاتھ صوفے کی پشت پر دراز کرتے ہوئے بے فکری سے کہا کہ ''ان کاغذات پر تو میں دستخط نہیں کروں گا‘‘۔ ساتھ ہی باوردی فوجی افسروں کا بناوٹی اخلاق زمین بوس ہو گیا اور گفتگو روایتی تحکم کے دائرے میں داخل ہو گئی۔ انہیں مری میں لے جا کر قید کر دیا گیا۔ ان کا بیٹا‘ حسین نواز وزیر اعظم ہائوس میں ہمارے ساتھ رہ گیا تھا۔ ایک یا دو دن کے بعد‘ اسے بھی نامعلوم مقام کی طرف لے جایا گیا۔ بعد کی خبریں یہ تھیں کہ مری کے ریسٹ ہائوس اور ملازمین کے کمروں میں‘ دونوں باپ بیٹے کو بند کر دیا گیا تھا۔ روشن دان اور کھڑکیو ں پر سیاہ کاغذ لگا دئیے گئے تھے۔ دن کے وقت سخت تاریکی رہتی اور نوجوان حسین نواز یہ سب سمجھنے سے قاصر تھا کہ قدرت انہیں کیا سبق دے رہی ہے۔ جب حسین نواز ہمارے ساتھ تھے تو وہ پانچوں نمازوں کی امامت خود کراتے تھے۔ قید تنہائی میں گئے تو انہوں نے اپنی مسحور کن لحن میں تلاوت قرآن کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ قید تنہائی کا سارا عرصہ اسی طرح گزارا۔ نواز شریف کے خلاف مقدمات تیار کئے گئے۔ انہیں اٹک جیل میں رکھا گیا۔ یہ پاکستان میں خطرناک قیدیوں کو بدترین سزا دینے کی ایک مخصوص جگہ تھی۔ یہیں سے مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔ نواز اور شہباز‘ دونوں کو کراچی لے جایا گیا۔ انہیں بکتربند گاڑیوں میں خصوصی عدالت لے جایا جاتا۔ وہاں پر جن لوگوں کے بس میں ہوتا‘ وہ اپنے لیڈر کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے پہنچ جاتے اور جن لوگوں کے اختیار میں نہ ہوتا‘ وہ اس خصوصی عدالت تک پہنچنے میں ناکام رہتے۔ غالباً یہیں وہ دن تھے جب نواز شریف نے یہ کہا کہ ''جب میں اقتدار میں تھا تو لوگ‘ جوق در جوق میرے پیچھے چلتے ہوئے یہ نعرے لگاتے تھے ''قدم بڑھائو نواز شریف‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ لیکن جب میں نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے کوئی بھی نہیں تھا‘‘۔ یہیں پر نواز شریف کو پوری طرح اپنا سبق مل گیا۔ بے بسی کے یہی وہ دن تھے‘ جب ان کے اپنوں نے یہ بات ذہن میں ڈالنا شروع کر دی کہ سب خود غرض ہوتے ہیں۔ نعرے صرف دکھاوے کی چیزیں ہیں۔ یہاں سے ایک نئی طرح کی سوچ نے جنم لیا۔ جو کچھ آج ہم دیکھ رہے ہیں‘ یہ اسی نئی سوچ کا نتیجہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف میں پیدا ہونے والی اچانک اور یک لخت تبدیلی کے تجربے کے بعد‘ نواز شریف کا اعتبار اٹھ گیا‘ خصوصاً فوجی افسروں پر۔ وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہیں جنرل راحیل شریف جیسا اصلی اور نسلی فوجی‘ چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت میں ملا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد جلد ہی مخالفین کی احتجاجی تحریک سامنے آ گئی۔ جنرل راحیل نے تصادم کی فضا سے بچنے کے لئے دونوں فریقوں سے رابطے قائم کرکے‘ صورت حال معمول پر لانے کی کوشش کی لیکن ''دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ یہی کیفیت نواز شریف کی تھی۔ وہ پرویز مشرف سے دغا کھانے کے بعد‘ جنرلوں سے بہت بچ بچ کے رہنے لگے تھے۔ جنرل جہانگیر کرامت‘ دانشور طرز کے آدمی تھے لیکن جب ایک دعوت میں‘ نواز شریف نے مجھے‘ جنرل جہانگیر کرامت سے بات چیت کرتے دیکھا تو پارٹی ختم ہونے کے بعد انہوں نے جو پہلی بات مجھ سے کی وہ یہ تھی ''جنرل کے ساتھ کیا بات ہو رہی تھی؟‘‘۔ میں نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا ''آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ اس پر میاں صاحب کھل کر مسکرائے اور ہال کے اندر کھڑے دیگر لوگوں کی طرف چل دیئے۔ جب طرح طرح کی بدگمانیوں کے بعد جنرل راحیل شریف ایک کھرے فوجی کی طرح اپنا کیریئر مکمل کرکے‘ آبرومندی سے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں‘ تو سبھی جانتے ہیں کہ میاں صاحب کے ذہن میں‘ جو جنرلوں کے بارے میں خدشات پیدا ہو چکے‘ جنرل راحیل شریف کے ساتھ باہمی تعلقات میں بھی انہی کا سایہ رہا۔ وقت نے میاں صاحب کو اور طرح کا آدمی بنا دیا جبکہ جنرل راحیل شریف کو اپنے خاندان سے شہادت کا جو ورثہ ملا‘ وہ اسی کی حفاظت میں لگے رہے۔ اپنے اسی ورثے کو محفوظ رکھتے ہوئے وہ اپنے گھر لوٹ رہے ہیں۔ میاں صاحب جب سیاست میں داخل ہوئے تو ان کے پاس دولت اور عزت‘ سب کچھ تھا۔ میاں صاحب کے والد مرحوم نے دونوں چیزیں‘ محنت اور مشقت کرکے کمائی تھیں۔ ورثے میں ان کی اولاد کو یہ سب کچھ مل گیا۔ وہ ایک چیز کو محفوظ نہیں رکھ پائے۔ دولت بہت جمع ہو گئی۔ ہوتی جا رہی ہے لیکن عزت؟