پاکستان میں تاجر حکمرانوں کا دور آنے کے بعد‘ یہ واضح ہو گیا کہ اب مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مجھے معلوم ہے مظلوم کشمیری عوام کی جنگ آزادی کے لئے پاکستانی حکومتیں اور ان کے متعدد ادارے‘ کسی نہ کسی صورت امداد پہنچا دیا کرتے تھے‘ مگر جب سے سیاست میں برانڈرتھ روڈ کی مداخلت شروع ہوئی‘ پاکستان میں سیاسی نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ لاہور سے لے کر گوجرانوالہ اور سیالکوٹ تک‘ پاکستان کی سٹیل انڈسٹری کا سکریپ کہاں جاتا ہے۔ ہمارے عام لوگ شاید ہی جانتے ہوں کہ اس سکریپ کا بھارت سے کیا تعلق ہے۔ تو عرض ہے کہ بھارت میں سٹیل کی شیٹ کی درآمد پر جو ٹیکس عائد ہے‘ وہ بہت زیادہ ہے اور یہی شیٹ اگر بھارت‘ پاکستان سے براہ راست درآمد کرکے برتن بنائے اور ہمارے گوجرانوالہ کے تاجر برتن بنا کر اپنا جو سکریپ فروخت کرتے ہیں‘ بنیا اسے خریدے تو کتنا نفع کماتا ہے؟ یہ سب کچھ کیسے چل رہا ہے؟ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی صنعتی طاقت کیا ہے؟ ن لیگ سے اس کا رشتہ کیا ہے؟ اس کا پس منظر کبھی آپ کے سامنے نہیں آئے گا‘ کیونکہ موجودہ حکومت جی ٹی روڈ کے مذکورہ علاقوں پر انحصار کرتی ہے اور سکریپ کے پردے میں جو مالیاتی لین دین ہوتا ہے‘ اسے نہ ہم جانتے ہیں اور نہ عام ووٹر۔ لیکن ایک بات سوچنے والی ہے کہ جی ٹی روڈ کا تاجر نواز شریف کی ہمدردی میں سیاسی عمل کا حصہ کیوں بنتا ہے؟ جی ٹی روڈ کے گرد و نواح میں رہنے والے میڈیا ورکرز اگر یہ راز جان لیں‘ تو انہیں پاکستان میں سٹیل انڈسٹری کے تاجروں کی حکمرانی کی ساری وجوہ سمجھ میں آجائیں گی۔
آج جب پاکستان میں جی ٹی روڈ کے تاجرو ں کی حکومت ہے۔ پاک بھارت پالیسی پر عمل درآمد کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ سٹیل فیملی کی حکمرانی کے اثرات سے کیسے بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ معاشی اعتبار سے پنجاب کی معیشت باقی سارے صوبوں پر حاوی ہو چکی ہے۔ خصوصاً وزارتِ خزانہ پر حکمران خاندان کے سمدھی نے جس طرح غلبہ حاصل کیا ہے‘ اس کا اعتراف پاکستان کے بڑے سے بڑے مالیاتی گروپ کر چکے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کے سامنے مزاحمت کرنا اب ان کے اختیار میں نہیں رہ گیا ہے‘جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جو اپوزیشن پارٹی کسی بھی دائرے پر سر اٹھاتی ہے‘ اسے بلا تاخیر ریاستی طاقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخرکار اسے مجبور ہو کر واپس حکمران ٹولے کے سائے میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ آج جب میں سنتا ہوں کہ عمران خان بھرپور عوامی حمایت و تائید کے باوجود‘ حکمرانوں کو پسپائی پر مجبور نہیں کر سکے تو یہ میرے لئے نئی بات نہیں۔ آپ روز ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہوں گے کہ ''سکریپ حکومت‘‘ پاکستان کی ناقابل شکست سیاسی طاقت کو پسپا کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔ سیالکوٹ کا عثمان ڈار‘ میرے مرحوم دوست‘ امتیاز ڈار کا بیٹا ہے۔ دونوں بھائیوں‘ عمر اور عثمان ڈار نے اپنے مرحوم والد کے سیاسی اثاثوں کو یوں سنبھالا کہ شہر میں ایک نیا سیاسی گروپ بنا کر سامنے آئے۔ مقابلے میں خواجہ آصف کھڑے تھے۔ سیالکوٹ میں بہت کم صاحب حیثیت لوگوں کو یاد ہو گا کہ خواجہ صفدر گزر اوقات کے لئے کس طرح اپنی سیاست چلایا کرتے تھے۔ لیکن آج خواجہ آصف کا رہن سہن اور ان کے ناز و انداز‘ عام شہریوں کے لئے قابل برداشت نہیں رہ گئے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حقیقت وہ خود بھی سمجھ چکے ہیں اور اپنا مستقبل بیرون ملک کسی صورت میں تلاش کر رہے ہیں۔ ان کا شمار نواز شریف کے انتہائی وفاداروں میں کیا جاتا ہے‘ لیکن حقیقت خود نواز شریف جانتے ہیں۔ جب نواز شریف کو قید میں ڈالا گیا تو بیگم کلثوم نواز نے خود سڑکوں پر آ کر آمریت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ بات جم خانہ کلب کے اکثر اراکین کے علم میں ہے کہ جب وہاں کلثوم بی بی کا پیغام بھیجا گیا کہ وہ اپنے لیڈر کے لئے میدان میں اتریں تو خواجہ آصف کا مشہور زمانہ جواب کیا تھا۔ میں یہاں خواجہ صاحب کے اس تبصرے کو نہیں دہرائوں گا کیونکہ مجھ میں کچھ شرم و حیا باقی ہے۔
نریندر مودی جس طرح پاکستانی عوام کو للکار رہا ہے‘ اسے دیکھ کر ساری قوم اپنے حکمرانوں کے ردعمل پر کان لگائے بیٹھی ہے کہ ان کی طرف سے کیا جواب آتا ہے۔ حتیٰ کہ اکثر باخبر لوگ اور تجربہ کار و سیاست دان‘ عوام کی اس حیرت میں شریک ہوتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حکمران مودی کے دھمکی آمیز بیانات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ گزشتہ روز جب مودی نے بھارتی پنجاب میں ایک جلسہء عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ''ہم پانی کی ایک ایک بوند روک کر‘ پاکستان کو اجاڑ دیں گے‘‘ تو ساری قوم نے منہ اٹھا کر اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھا کہ وہاں سے کیا جواب آتا ہے۔ جب بھی پاکستانی عوام‘ حکمرانوں سے ایسی توقعات وابستہ کرتے ہیں تو میرے ذہن میں ایک پرانی ندامت سر اٹھا لیتی ہے‘ جسے میں مسلسل برداشت کرتا آ رہا ہوں۔ حکمرانوں کے جوابی دعوے سن کر‘ میرا سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ یہ المناک واقعہ اس دور کا ہے‘ جب ہم نے مشرقی پاکستان میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال کر‘ شملہ معاہدہ کیا تھا۔ بھارت کو سفارت کاری کے محاذ پر زیر کرنے کے لئے ہمارے پاس آج بھی کچھ نہیں۔ جب مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے موجودہ ظلم و ستم اور مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے‘ حکومت پر زور ڈالا جاتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق‘ دنیا کو باور کرائے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کا راستہ نہ روکا جائے۔ جب بھارت کی اشتعال انگیزی دیکھ کر ہمارے نوجوان‘ جوش و خروش میں نعرے بازی کرنے لگتے ہیں‘ تو میں اپنے بوڑھے جذبات کو سینے میں سنبھالتے ہوئے بے اختیاری سے دیکھتا رہتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں نے ہمارے ہاتھ میں چھوڑا ہی کیا ہے؟ کوئی ایسا معاہدہ اور کوئی ایسی جنگ نہیں‘ جس میں ہم نے بھارت سے اپنی شرائط منوائی ہوں۔ لائن آف کنٹرول پر حالیہ جھڑپوں کے نتیجے میں جب جوش و خروش کے مناظر دیکھتا ہوں تو میرے پاس شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جن موجودہ حکمرانوں سے بھارت کا سامنا کرنے کے مطالبے کئے جاتے ہیں‘ کوئی انہیں کھلے عوامی اجتماعات میں پوچھے کہ تمہارے ہونٹ کیوں سلے ہوئے ہیں؟ تم مودی کی للکاروں کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟ جب مودی‘ پانی کی بوند بوند روک کر ہمارے علاقوں کو ویران کرنے کے دعوے کرتا ہے تو اس کا جواب دیتے ہوئے‘ ہمارے حکمرانوں کی زبانیں کیوں بند ہو جاتی ہیں؟ پاکستان‘ بھارت کے ساتھ جتنی جنگیں لڑسکتا تھا‘ لڑ چکا ہے۔ ہمیں جتنا ویران ہونا تھا‘ ہو چکے۔ ہمارے عوام ابھی تک ہمت نہیں ہارے۔ آخر میں اس موڑ پر آ کر مجھے امریتا پریتم کی ایک مشہو نظم یاد آئی‘ جو قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لِکھ لِکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا اٹھ تَک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتی زہر رلا
تے اونہاں پانیاں دھرتی نوں دتا پانی لا
اس زرخیز زمین دے لُوں لُوں پھٹیا زہر
گٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں پُھٹ پُھٹ چڑھیا قہر
ویہو ولسّی وا فیر وَن وَن وگی جا
اوہنے ہر اک وانس دی ونجلی دتی ناگ بنا
ناگاں کِیلے لوک مونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ
پلو پلی پنجاب دے نیلے پے گئے انگ
وے گلیوں ٹٹے گیت‘ فیر ترکلیوں ٹُٹی تند
ترنجنوں ٹُٹیاں سہیلیاں چرخے کُوکر بند
سنے سیج دے بیڑیاں لُڈن دتیاں روڑھ
سنے ڈالیاں پینگ اج پپلاں دِتی توڑ
جتھے وجدی سی پُھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ
رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اودھی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا قبراں پیاں چوون
پریت دیاں شاہزادیاں اج وچ مزاراں روون
اج سبھے کیدو بن گئے ایتھے حْسن عشق دے چور
اج کتھوں لیاواں لبھ کے میں وارث شاہ اک ہور
اج آکھاں وراث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول