"NNC" (space) message & send to 7575

رب والی اے وگڑیاں تگڑیاں دا

بھارتی وزیراعظم مودی نے مسلم آزاری اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر نئی حکومت قائم کر کے‘ کشیدگی کا جو نیا باب کھولا اور مقبوضہ کشمیر میں نہتی اور پرامن آبادی کے خلاف جو قاتلانہ مہم چلائی‘ اس کے بعد یہی ''موزوں‘‘ تھا کہ ہماری حکومت اپنی ٹیم کے سینئراور بزرگ ترین رہنما کو نام نہاد ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جھونک دیتی۔ سرتاج عزیز بھی برسوں سے‘ نوازشریف کے ساتھ چپکے ہوئے تھے اور شاید اسی دن کے انتظار میں تھے کہ انہیں بھڑکے ہوئے بھارت کے شعلوں میں دھکا دیتے اور پھر ان کے ساتھ وہی ہوتا‘ جو امرتسر میں کیا گیا۔ جس ہوٹل میں انہیں اپنی مختصر سی ٹیم کے ساتھ قیام کرنے کی اجازت دی گئی‘ وہاں داخل ہوتے ہی‘ انہیں اور ان کی مختصر سی ٹیم کو نظربند کر دیا گیا۔ سفارتی رکھ رکھائو کو سامنے رکھتے ہوئے‘ منہ دکھاوے کے لئے میزبان کی طرف سے کوئی معمولی سا سرکاری ملازم بھی استقبال اور مہمان نوازی کے لئے نہیں بھیجا گیا۔ مجھے امرتسر میں اپنے وفد کی یہ پذیرائی دیکھ کر ‘ لاہور ایئرپورٹ کے وہ مناظر یاد آ گئے‘ جب مسٹر مودی اور ان کی پارٹی قسط وار وہاں پر اتری اور پاکستانی پروٹوکو ل کے افسران ‘ دشمن ملک سے آئے ہوئے مہمانوں کی خوشنودی کی خاطر بچھے بچھے جا رہے تھے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اچانک وارد ہونے والے مہمانوں کی دیکھ بھال کے لئے انہیں کیا کچھ کرنا ہے؟ خاطر داری کے دوران‘ ان کی ''خدمت‘‘ میں کیا کچھ پیش کیا جائے؟ سب کچھ اللہ توکل ہوتا گیا۔ ایئرپورٹ پر ٹھیکیدار خورونوش کے لئے جو کچھ پیش کرتے ہیں‘ اندھا دھند ان کے سامنے لاکر رکھا گیا۔ جب یہ مہمان واپس 
چلے گئے‘ تو میزبانی کرنے والی ٹیم میں ہر کوئی مختلف بل ہاتھوں میں پکڑے ڈھونڈتا پھر رہا تھا کہ یہ ادا کون کرے گا؟ اور رقم کا بندوبست کہاں سے کیا جائے؟ کئی دن تک جاتی عمرہ کے شاہی محلات میں یہی تلاش ہوتی رہی کہ بل کون دے گا؟ آرڈر کس نے دیا تھا؟ چونکہ آنے والے ''معززین‘‘ ہمارے وزیراعظم کے ذاتی مہمان تھے‘ اس لئے جس کسی کے پاس بھی ان پیڈ بل لا کر رکھا گیا‘ اس نے فوراً ہی کانپتے ہاتھوں سے ادا کر کے‘ سکھ کا سانس لیا۔ کیونکہ ہمارے وزیراعظم کے ذاتی مہمانوں کا کوئی بل سرکاری کھاتے میں ادا کرنے کا بندوبست نہیں تھا۔ 
لیکن پاکستان دشمنی میں بدتمیزی کی حد سے گزر جانے والے بھارتی معززین اور افسران یہ سب کچھ بھول گئے تھے۔ خود مودی صاحب نے ہمارے وزیراعظم کی پرتعیش میزبانی‘ قیمتی تحائف کی چمک دمک‘ آموں کی پیٹیوں سے نکل کر چاروں طرف پھیلتی خوشبوئوں‘ بھارت سے سمگل شدہ قیمتی ساڑیوں اور ٹریفک کے خصوصی انتظامات کو فراموش کرتے ہوئے‘ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیں اور مہمانوں کے ہجوم میں‘ 
کندھے مار کے جگہ ڈھونڈتے سرتاج عزیز کو دیکھ کر بناوٹی حیرت کے ساتھ پوچھا '' آپ بھی؟‘‘ اور سرتاج عزیز نے اپنی روایتی کھسیانی ہنسی دکھاتے ہوئے تصدیق کی کہ وہی پاکستان کی نمائندگی کرنے آئے ہیں۔ مودی نے بناوٹی تکلف کا اظہار کرتے ہوئے ‘ ہمارے وزیراعظم کا حال چال پوچھا۔ جیسے انہیں میڈیا میں دی گئی اطلاعات کا کوئی علم ہی نہ ہو۔ ہمارے ساتھ یہی ہونا تھا۔ ایک طرف مودی صاحب کے یہ ٹھاٹ باٹ کہ وہ جب چاہیں‘ دندناتے ہوئے پاکستان میں داخل ہو کر‘ وزیراعظم کی ذاتی قیام گاہ کے اندر چلے جائیں اور دوسری طرف پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سرتاج عزیز کو ‘وہاںبن بلائے مہمانوں جیسے سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ 
مودی صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد‘ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ بدتمیزی پر مبنی جو طرزعمل اختیار کر رکھا ہے‘ اس کے بدلے میں جناب وزیراعظم نے‘ بھارتیوں کے سامنے خوش اخلاقی بلکہ عاجزی کا جو مظاہرہ کیا‘ وہ ایک شکست خوردہ قوم کو ہی زیب دیتا ہے۔ خدا کا شکر ہے‘ ہم نے بھارت سے کوئی شکست نہیں کھائی۔ مشرقی پاکستان میں جس ہزیمت کو 
ہماری شکست قرار دیا جاتا ہے‘ وہ حقیقت میں پاکستان کی اکثریتی آبادی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا۔ ہماری ایک غیرنمائندہ حکومت نے‘ اپنے ہی عوام پر فوج کشی کر کے جس طاقت کا مظاہرہ کیا‘ اس کا انجام یہی ہونا تھا۔ بھارتیوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘بنگال میں اپنی فوجیں اتار کے‘ پاکستانی فوجیوں کو بے بس کر دیا اور انہیں اپنی بزدل ہائی کمان کے احکامات پر ہتھیار پھینکنا پڑے اور ہمارے جنرلوں کے احمقانہ فیصلوں نے شکست کا داغ ‘ پاکستان کے ماتھے پر لگا دیا۔ بہرحال یہ ایک المیہ ہے‘ جو ہمیں برداشت کرنا پڑا اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اس جنگ میں بھارت کا کوئی کارنامہ نہیں تھا۔ ماسوا اس کے کہ بزدل برہمن نے حسب روایت موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک ایسی ناکامی لکھ دی‘ جو ہمارے حکمرانوں کی نالائقی کا صلہ تھا۔ لیکن امرتسر میں ہمارے مہمانوں کے ساتھ جو بدسلوکی کی گئی‘ اس کے وہ ہرگز حقدار نہیں تھے۔ یہ ہماری حکومت کا فیصلہ تھا۔ جس نے بلاوجہ اپنے عہدیداروں کو کسی قصور کے بغیر ‘ توہین کے لئے تیار بیٹھی بھارتی حکومت کے آگے دھکیل کر پھینک دیا۔ یہ صورتحال بداخلاق بھارتی حکومت کے لئے مودی کے چند احسان مندوں نے پیدا کی اور اس کی سزا ہمارے بے قصور سفارتکاروں‘ صحافیوں اور اہلکاروں کو بھگتنا پڑی۔ اہل وطن کی اس توہین کا سہرا‘ ہماری حکومت کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ 
بھارت کی چاپلوسی پر اترے ہوئے افغان صدر نے‘ لڑائی کے لئے تیار کئے گئے تیتر کی طرح‘ مودی کے ہاتھ پر بیٹھے ہوئے‘ اچھل اچھل کے پھرتیاں دکھائیں اور مودی نے بھی اشرف غنی کو پالتو تیتر کی طرح قدم قدم پر اپنے ساتھ رکھا۔ جہاں بھی اسے موقع ملا‘ اس نے اچھل اچھل کر‘ پاکستان کو چونچیں ماریں۔ لیکن آگے کوئی تھا ہی نہیں۔ کیونکہ سرکاری دعوتوں میںپاکستانیوں کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔ میڈیا کے جو چند حضرات و خواتین کو بن بلائے پاکستانی مہمانوں کے ساتھ بھیج دیا گیا تھا‘ انہیں بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی سے روک دیا گیا تھا۔ جن دوچار صحافیوں نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''بدتمیز‘‘ میزبانوں سے بات چیت کرنے کی کوشش کی‘ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا‘ جو تنگ نظر اور تہذیب و تمدن سے محروم میزبان کیا کرتے ہیں۔ کہنے کو پاکستان میں ایک منتخب پارلیمنٹ بھی ہے‘ جس کے دونوں ایوانوں میں ''غیرت مند‘‘ پاکستانی نمائندے براجمان ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ عین اس وقت جب کشمیریوں پر قیامت ڈھائی جا رہی ہے‘ ان کے بچے‘ بیمار اور خواتین‘ گھروں میں دوائوں اور پانی کو ترس رہے ہیں۔ روزانہ ان پر تشدد کیاجاتا ہے۔ گولیاں ماری جاتی ہیں۔ایسے ماحول میں پاکستانیوں کے ساتھ بدتمیزی کے مظاہرے کر کے‘ چھچھورے بھارتی حکمرانوں نے خدا جانے کیا ''سکون‘‘ حاصل کیا؟ ہو سکتا ہے‘ انہوں نے سرحدی جھڑپوں میں پاکستانیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بھارتی فوجیوں کا غصہ اتارا ہو۔ لیکن غصہ اتارنے کے یہ گھٹیا طریقے ‘ بھارتیوں کی عادات کا حصہ ہیں‘ جو گھر آئے ہوئے بیرونی مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے میں بھی اپنی برتری سمجھتے ہیں۔ یہ پاکستانی مہمان زبردستی بھارت میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ باقاعدہ ویزے پر‘ بھارتی حدود میں داخل ہوئے تھے اور اس اجازت نامے پر داخل ہونے کے بعد‘ بھارتی حکومت کے مہمان بن گئے تھے۔ لیکن گھر آئے مہمان کے ساتھ یہ سلوک ‘صرف بھارتیوں کو ہی زیب دیتا ہے۔ ورنہ مہمانداری کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر پاکستانی حکومت کو اپنے نمائندوں‘ صحافیوں اور ڈیوٹی پر گئے ہوئے اہلکاروں کے ساتھ کی گئی بدتمیزیوں پر باضابطہ احتجاج کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے سرتاج عزیز کانفرنس میں گئے تھے‘ جہاں بھارتیوں کا لڑاکا تیتر‘ بڑھ چڑھ کر پاکستان پر حملے کر رہا تھا۔ ان بیہودہ حرکات کو دیکھ کر‘ روس کے نمائندے کو بھی سفارتی حدود کے اندر رہتے ہوئے احتجاج کرنا پڑا۔ مودی نے تو پاکستانیوں کے ساتھ زیادتی کر کے‘ اپنا دل ٹھنڈا کر لیا۔ لیکن ہمیں روس جیسی بڑی طاقت کی غیبی حمایت حاصل ہو گئی‘ جو ہمارے لئے کسی تحفے سے کم نہیں ہے۔ اب چین کے ساتھ علاقے کی دوسری بڑی طاقت‘ ہمارے خیرخواہوں میں شامل ہو گئی ہے‘ جو کسی غیبی امداد سے کم نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں