اگر آپ پانامالیکس کے مقدمے کی سماعت اور اس میں ظاہر ہونے والے حکمران خاندان کے عیش و عشرت کے معیار کا جائزہ لیں تو پھر ایک ہی جواب ملتا ہے‘ وہ ہے پاکستانی قوم‘ جس کے بل بوتے پر حکمرانوں کی عیاشیاں چلتی ہیں۔ باپ‘ بیٹی کو کبھی پانچ کروڑ اور کبھی تین کروڑ کا تحفہ دیتا ہے۔تو کبھی بیٹے صاحبان‘ لندن میں کروڑوں کے رہائشی فلیٹس خریدتے ہیں۔ یہاں میں ایک تحریر پیش خدمت کرر ہا ہوں کہ پاکستان میں کوئی بالغ شخص ‘ماہانہ تین ہزار روپے سے کم کماتا ہے تو اسے خطِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
''وفاقی وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی طرف سے‘ قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 29.5 فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن ‘نفیسہ خٹک کے ایک سوال کے جواب میں‘ منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت نے‘ ایک تحریری بیان جمع کروایا‘ جس کے مطابق قریباًساڑھے پانچ کروڑ لوگ‘ خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔تحریری بیان کے مطابق اگر کوئی بالغ شخص ماہانہ 3030 روپے سے کم کماتا ہے تو اْسے خطِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ایک غیر سرکاری تنظیم‘ پاپولیشن کونسل کی پاکستان میں سربراہ‘ زبیا ستار کہتی ہیں کہ یہ اعداد و شمار یقیناً باعث تشویش ہیں اور اْن کے بقول کسی بھی پیچیدہ بیماری کی صورت میں غریب خاندانوں کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔''غریب لوگوں کا سب سے بڑا جو خرچ ہوتا ہے وہ تب ہوتا ہے‘ جب غیر متوقع پر طور پر کوئی شدید بیمار ہو جائے۔ اگر کوئی خطِ غربت کے قریب زندگی گزار رہا ہے تو بھی مہنگے علاج کے سبب وہ بھی غربت میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘‘زیبا مزید بتاتی ہیں کہ غریب خاندانوں کے بچوں کی تعلیم اور خوراک کی ضروریات بھی متاثر ہوتی ہیں۔''اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے آپ اتنا پیسہ نہیں خرچ کر پاتے۔ بچے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور خرچے بھی زیادہ ہوتے ہیں‘ تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ (غریب خاندان) کے بچے ‘سکول سے باہر ہوں گے اور آئندہ نسل میں غربت مزید بڑھ جائے گی۔‘‘زیبا ستار کا کہنا ہے کہ غربت کے پاکستان میں اثرات کی غمازی‘ ایک حالیہ رپورٹ میں بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ملک میں بچوں کی ایک بڑی تعداد غذائی قلت کا شکار ہے‘ جس سے پاکستان کی اقتصادی شرح نمو بھی متاثر ہو رہی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے کئی خصوصی پروگرام جاری ہیں‘ جن میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریب خاندانوں کو نقد رقم دینے کے علاوہ حال ہی میں‘ مالی طور پر کمزور افراد کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے ہیلتھ کارڈ کا اجرا بھی شامل ہے‘‘۔
لیکن یہ کارڈ کن''لیڈروں‘‘ کے ہاتھ لگے ہیں؟ اس کا جواب ہر ذی شعور شخص جانتا ہے۔یہ کارڈ کس طرح تقسیم ہوتے ہیں؟ اور ''حقداروں‘‘ تک کیسے پہنچتے ہیں؟ اس کی تفصیل کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بعض ''لیڈروں‘‘ کی جو کہانیاں سامنے آئی ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ میرے پڑوس میں‘ ٹیک سوسائٹی میں پیپلز پارٹی کے ایک ''لیڈر‘‘ رہائش پذیر ہیں۔ وہ جب باربر شاپ پر آتے ہیں تو مختلف قرض خواہوں کو جمع کر کے‘ بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کے چیک فراخ دلی سے تقسیم کرتے ہیں۔
آئیے ایک دوسری کہانی میں جھانک کر دیکھتے ہیں۔
''طاہرہ شاہ اپنے سسرال کے کچن میں برتن دھو رہی ہے‘ جیٹھانی کے ساتھ اچھی دوستی ہے اور دونوں کی گپ شپ چل رہی ہے۔ نئے گھر میں انہیں‘ سسرال کا پیار اور بہو کی عزت تو ملتی ہے لیکن اس کی ازدواجی زندگی ادھوری ہے کیونکہ اس کے شوہر‘ کامران لاڑک اب اس دنیا میں نہیں۔طاہرہ کے والد اور چچاؤں نے نوبیاہتا جوڑے کو مرضی کی شادی کرنے پر ''کارو کاری‘‘ قرار دیا تھا۔ طاہرہ کے والد نے طاہرہ اور کامران کو بہلا پھسلا کر گھر واپس بلایا کہ وہ اپنی بیٹی کی ''عزت سے رخصتی‘‘ کرنا چاہتے ہیں اور پھر دونوں کو بندوق کے زور پر زہر پلا دیا۔17 سالہ طاہرہ زہر پینے کے باوجود بچ گئیں اور وہ کبھی نہیں بھول سکے گی کہ ان کے والد نے ‘اپنے ہاتھوں سے اسے زہر کا پیالہ پلایا۔''میں اپنے بابا کی آنکھوں میں دیکھتی رہی کہ شاید انہیں رحم آ جائے مگر ان پر جیسے نشہ طاری تھا۔ پھر کامران میرے سامنے گر کر تڑپنے لگا۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ بس اب وہ ختم ہے اور اس کے ساتھ میں بھی ختم۔‘‘طاہرہ اب کبھی گھر نہیں جا سکتیں کیونکہ وہ ''کاری‘‘ ہو چکی ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ان کے اپنے ان کو کبھی بھی مار سکتے ہیں۔ وہ اپنے جنہوں نے 17 سال کی عمر میں ان کا سہاگ اجاڑ دیا۔''کاش ہم دونوں ہی بچ جاتے تو شاید میں انہیںمعاف کر دیتی لیکن میں کیسے بھولوں کہ انہوں نے کامران کو صرف اس لیے مار دیا کیونکہ وہ ان ہی کی بیٹی سے پیار کرتا تھا۔ کیا قصور تھا اس کا؟‘‘کامران کے والدین اب بھی خیرپور کے اسی گاؤں میں رہتے ہیں جہاں ان کے بیٹے کا قتل ہوا۔اسے قتل کرنے والے ‘ان کے پڑوسی ہیں اور علاقے کے بااثر وڈیرے ہیں۔ اب کامران کے والد پر شدید دباؤ ہے کہ وہ ملزموں کے خلاف مقدمہ واپس لے لیں۔
کامران کی والدہ سسکیوں کے علاوہ کچھ بتا نہیں پاتیں۔ ان کی 16 سالہ بیٹی‘ عائشہ سہمی سہمی نظروں سے کھڑکی سے باہر اس عالی شان گھر کی طرف بار بار دیکھ رہی ہے جہاں سے اس کے بھائی کبھی واپس نہ آ پائے۔کامران کے والد غلام رسول لاڑک کے بال سفید اور آنکھیں غم اور غصے سے لال ہیں۔ بات کرتے ہوئے وہ اپنے جبڑے بھینچتے رہے‘ جیسے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوں۔''ہم بھی بچوں کے ساتھ گئے تھے تاکہ کچھ صلح صفائی کروا سکیں ‘ لیکن ان ظالموں نے ہماری ایک نہ سنی ۔ میرا بیٹا اور بہو میرے سامنے ہی تڑپتے رہے اور میں ان کی بندوقوں کے آگے بے بس تھا۔‘‘ا نہوں نے بتایا کہ بیٹے اور بہو کو واپس لانا ان کی مجبوری تھی۔
''انہوں نے کہا ہم تمہارے گھر پر بلڈوزر پھروا دیں گے۔ تمہاری عورتیں اٹھا کر لے جائیں گے۔ اب بھی بڑے بڑے لوگ ہمارے پاس آ رہے ہیں‘ کہہ رہے ہیں معاف کر دو۔ وہ طاقتور ہیں لیکن ہمیں اللہ پر بھروسہ ہے اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں۔‘‘پولیس کو مخبری ہونے پر اہلکاروں نے موقعے پر ہی چھاپہ مار کر‘ طاہرہ کے والد اور چچاؤں کو گرفتار کر لیا تھا تاہم اب تک اس کیس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔سندھ میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تعداد بڑھ رہی ہے اور بظاہر تو یہ خاندان کی عزت کی بحالی کے لیے کیے جاتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق ‘کاروکاری کی آڑ میں قبائلی اور جائیداد کے تنازعات بھی حل کیے جاتے ہیں۔
پولیس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ایک ایسے علاقے میں جہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کا راج ہو‘ وہاں سیاسی دباؤ انصاف کے عمل میں رکاوٹ بنتا ہے۔خیرپور کے ڈی پی او‘ مظفر مہیسر نے بتایا ''دباؤ کا عنصر ہمیشہ رہتا ہے‘ جہاں پر بھی اہلکار کچھ حد تک سیاسی طور پر کمزور ہوں۔ ہمیں پروسیکیوشن کے نظام کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ''گو کہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی تو ہو چکی ہے لیکن زمینی حقائق اور تفتیشی فریم ورک پر بھی کام کی ضرورت ہے تاکہ ان قوانین پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد بھی ہو سکے۔‘‘خیرپور میں کامران لاڑک کے قتل کی جگہ سے کچھ قدم دور‘ ان کی آخری آرام گاہ بھی ہے ۔ان کے بوڑھے والد جو ہمیں ہمت سے انٹرویو دیتے رہے ‘ یہاں پہنچ کر زاروقطار رونے لگے۔کاروکاری کی جڑیں قبائلی رسم و روایات میں بڑی گہری ہیں اور جب تک روایات کی آڑ میں قتل جاری رہے گا‘ غلام رسول لاڑک جیسے کئی باپ‘ اپنے بڑھاپے کے سہاروں کی قبروں پر یوں ہی نوحہ کناں رہیں گے‘‘۔