وزیراعظم میاں نوازشریف موسیقی کے بہت شوقین ہیں۔ لیکن اس سے تنہائی میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار ان کے واحد مصاحب سجادشاہ‘ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ لیکن سجادشاہ کی رفاقت تنہائی سے کچھ بڑھ کے ہوتی ہے۔ سجاد شاہ واحد شخص ہیں جو زیادہ سے زیادہ وقت میاں صاحب کے ساتھ گزار کے بھی ان کی تنہائی میں مخل نہیں ہوتے۔ مجھے میاں صاحب کے ساتھ بیٹھے 16سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں جلاوطنی کے 8 سال بھی شامل ہیں۔ ان 8 سالوں میں‘ میاں صاحب نے اپنی زندہ دلی اور حس ظرافت کا جی بھر کے لطف اٹھایا۔ مجھے اس لطف میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا، کیونکہ میرے پاس سعودی عرب جانے کے اخراجات ہی نہیں تھے۔ لیکن جن دوستوں اور واقف کاروں کو سعودی عرب میں‘ میاں صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا‘ سب کا ایک ہی بیان ہوتا تھا۔ میاں صاحب حسب عادت جلاوطنی کا عرصہ خوش دلی کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ پڑھنے کا روگ انہوں نے خود کو کبھی لگایا ہی نہیں۔ زندگی بے فکری سے گزارتے ہیں۔ زندگی بھی ان کے بارے میں خاص فکر نہیں کرتی۔ نتیجتاً پاناما لیکس کے ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جس میں نہ جرم ہے‘ نہ سزا ہے، صرف ذہنی اذیت ہے۔ کم و بیش 8 ماہ سے میں انہیں مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے ٹی وی پر دیکھ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ حقیقت ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری نظر میں ہی خامی ہو۔ کیونکہ وہ مجھے ہر محفل میں انتہائی سنجیدگی سے کارروائی میں حصہ لیتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ کل چوہدری نثار علی خان کو میز کے دوسری طرف بٹھا کر‘ جتنی بوجھل سنجیدگی ان کے چہرے پر دکھائی دے رہی تھی‘ اس سے یوں لگتا ہے کہ حالات کا سارا بوجھ ہی میاں صاحب کے سر پہ ہے۔ نثار علی خان‘ وزیراعظم کے سامنے بیٹھے اپنی سنجیدگی پر ‘مرجھائی سی مسکراہٹ کا پردہ ڈال رہے تھے۔ لیکن ان کے اندر کی فکرمندی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ اگریہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ فکرمندی کا پرندہ ‘ سنجیدگی کی تیلیوں سے ٹکرا کر‘ باہر نکلنے کی کوشش کرتا نظر آ رہا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ‘ حکومت کو ہلا دینے کے لئے کافی ہے یا بقول کامران خان‘ اپوزیشن کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا ہتھیار آ گیا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ نے پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں تہلکہ مچا دیا ہے۔
گزشتہ روز نثار علی خان نے تہلکے کا زور توڑنے کے لئے ایک پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن صرف چند ہی گھنٹے پہلے‘ اس کے التوا کا اعلان آ گیا اور بتایا گیا کہ وہ اگلے روز یعنی آج اس پریس کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔ ابھی پریس کانفرنس شروع ہونے میں کافی دیر باقی ہے‘ اس لئے میں انتظار کے بغیر ہی قیاس کر لیتا ہوں کہ چوہدری صاحب کیا کہیں گے؟ مثلاً میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ چوہدری صاحب اپنے کسی جرم کا اعتراف نہیں کریں گے۔ وہ کریں بھی کیوں؟ ان کی عادت ہے کہ بڑی بڑی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اور تھوڑی دیر میں کاندھے تھوڑے سے ٹیڑھے کر کے‘ ذمہ داریوں کو اتار پھینکتے ہیں۔ میں نے نہیں سنا‘ انہوں نے کسی بھی ذمہ داری میں کی گئی غلطی کا اعتراف کیا ہو۔ وہ سرے سے مانتے ہی نہیں کہ ان سے بھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے۔ اگر انہیں غلطی کرنے کی عادت ہوتی‘ تو اتنی طویل مدت تک وزارت کو ساتھ لئے پھرتے دکھائی نہ دیتے۔ سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں ‘سانحہ کوئٹہ کے بارے میں تفصیلی تحقیقات کے بعد معزز جج صاحبان نے بڑے خطرناک قسم کے ریمارکس دیے ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن نے تو اپنی قانونی مہارت کی روشنی میں صاف کہہ دیا ہے کہ یہ
تحقیقاتی رپورٹ‘ چوہدری نثار علی خان کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ ان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں۔ لیکن میاں صاحب کی کابینہ میں کسی کا جرم ثابت ہو نہ ہو، اگر اس کی قسمت میں کہیں سے بھی پرندے کے پر کی طرح اڑتا ہوا کوئی الزام کندھے سے چپک جائے ‘ تو پھر اس کے لئے سزا لازم ہو جاتی ہے۔ مجھے بالکل یاد نہیں کہ مشاہد اللہ پر کیا الزام تھا۔ وہ ٹاک شوز میں جتنی بے نیازی یا بد لحاظی سے دوسروں کا مضحکہ اڑاتے ہیں ‘ اس سے تو لگتا ہے وہ ایسے کسی الزام کی پروا نہیں کرتے۔ لیکن ان کے اپنے ساتھ جو ہو گیا‘ وہ کسی دردناک لطیفے سے کم نہیں۔ وہ جو ہلکی پھلکی وزارت اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے تھے‘ اچانک ان سے چھین لی گئی۔ اب وہ وزارت سے فراق کے دن‘ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا شوق پورا کرتے ہوئے گزار رہے ہیں۔ وہ دن گزار رہے ہیں یا دن انہیں گزار رہے ہیں؟ اس کی خبر بھی کسی دن وہ جوش خطابت میں خود ہی دے دیں گے۔ نواز شریف کے سابق وزیر اطلاعات و نشریات پر ایک خبر کی لیک کا الزام لگا تھا۔ نہ تو حکومت نے اس الزام کو تسلیم کیا‘ نہ وزیر موصوف نے، لیکن وزیراعظم کے مخالفین پرتنقید کی چھریاں چلانے کا شوق انہوں نے قائم رکھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ انہیں شاباش کی توقع تھی۔ لیکن یہی کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دنوں وزیراعظم خود بھی پاناما لیکس کے دبائو میں ہیں۔ کسی کو مخالفین کو تکلیف پہنچانے پر شاباش تو دی جا سکتی ہے لیکن دوبارہ وزارت سے نہیں نوازا جاتا۔ میرے خیال میں جب پاناما پیپرز کا دبائو‘ میاں صاحب کے کندھوں سے اتر جائے گا‘ تو ہو سکتا ہے انہیں مشاہد اللہ اور سابق وزیراطلاعات و نشریات کے ہجروزارت کے صدمے یاد آ جائیں اور وہ ان کا دکھ درد بانٹنے کے لئے‘ انہیں اپنے ''غریب خانے‘‘ پر طلب فرمائیں اور وزارتوں کے فراق میں ڈوبے ہوئے ساتھیوں کو عوام کے تھپیڑوں سے بچا کر نکال لیں۔ میاں صاحب کبھی اتنے کمزور حکمران نہیں رہے کہ چھوٹے چھوٹے لوگوں کے احسان اٹھاتے پھریں۔ لیکن پاناما والوں نے‘ ہمارے وزیراعظم کو ان کا نام لکھے بغیر اتنے دبائو میں
ڈال دیا ہے کہ وہ کسی قسم کا دوسرا دبائو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ایک جلسے میں تو میاں صاحب نے حاضرین سے براہ راست پوچھ لیا کہ ''کیا میںکبھی کسی کو گھبرایا ہوا نظر آتا ہوں؟‘‘ حاضرین نے حسب روایت بلند آوازوں سے جواب دیا کہ ''بالکل نہیں، بالکل نہیں‘‘۔ کابینہ کے ایک رکن خواجہ آصف نے میاں صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''میاں صاحب! آپ الزامات کو خاطر میں نہ لائیں۔ معاملے کو طول دیتے رہیں۔ ایک دن لوگ خود ہی سب کچھ بھول جائیں گے‘‘۔ اس واقعے کو بھی سات ماہ گزر چکے ہیں۔ لوگ ہیں کہ بھولنے میں نہیں آ رہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پاناما پیپرز کا وزن بڑھتا جا رہا ہے۔ میڈیا ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا، قومی اسمبلی‘ وزیراعظم پر کوئی بوجھ نہ ڈال سکی۔ مقدمات ‘ ان کے لئے پریشانی کا سبب نہ بن سکے۔ لیکن پاناما پیپرز ہیں کہ پیچھا چھوڑنے میں نہیں آ رہے۔ یہ تو ہم نے دیکھا ہے کہ دولت جس کے ہاتھ لگ جائے‘ وہ اسے آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ لیکن دولت کے ہاتھ اگر کوئی حکمران لگ جائے‘ تو وہ بھی اسے آسانی سے نہیں چھوڑتی۔ ہمارے ہاں تو کمال یہ ہے کہ وزیراعظم نے دولت کو کبھی اپنایا ہی نہیں۔ ہمیشہ یہی کہا کہ یہ میرے بچوں کا مال ہے، وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔ میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ لیکن مخالفین ہیں کہ ضد پر اڑے بیٹھے ہیں کہ خفیہ دولت ہمارے وزیراعظم کی ہے۔ لوگ اولاد کے لئے دولت چھوڑ دیتے ہیں، لیکن ہمارے وزیراعظم ہیں کہ اولاد سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں اور لوگ ان کی بات نہیں مان رہے۔ ہٹ دھرمی سے ایک ہی بات کہتے ہیں کہ یہ وزیراعظم کی دولت ہے۔ وزیراعظم نے ایک بھرے جلسے میں للکارتے ہوئے کہا کہ'' ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے‘‘ بلکہ حاضرین سے کئی بار سوال کیا کہ ''کیا مجھ پر کرپشن کا کوئی الزام ہے؟‘‘ حاضرین نے جواب دیا ''نہیں! نہیں!‘‘ اس کے باوجود سیاسی مخالفین ہیں کہ یہ الزام دہرائے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم پر کبھی یہ وقت نہیں آیا کہ چھوٹے چھوٹے اراکین اسمبلی انہیں بلیک میل کر جائیں۔ لیکن اب ایسا وقت آیا ہے کہ جن اراکین اسمبلی کو وزیراعظم کبھی خاطر میں ہی نہیں لایا کرتے تھے، انہیں باقاعدہ مدعو کر کے پیش کش کی گئی کہ وہ اپنی پسند کے ملکوں کا نام چن لیں اور انہیں مسئلہ کشمیر کی نزاکت کا احساس دلا کر‘ آمادہ کریں کہ وہ بھارت کی مذمت پر تیار ہو جائیں۔ یہ اراکین دوروں پر گئے۔ کشمیریوں کے ''دکھ درد ‘‘ کے پروں پر بیٹھ کر سیر کی۔ چورن کھایا۔ آرام گاہوں میں عیش فرمائی۔ ابھی تک ایسی کوئی رپورٹ کسی کی نظر سے نہیں گزری‘ جس میں فاضل ممبران نے اپنے اپنے دورے کی تفصیل لکھ کر وزیراعظم کی خدمت میں پیش کی ہو۔ دھڑلے کا کام طارق فاطمی صاحب نے کیا ہے۔ انہوں نے دورہ امریکہ کے بعد فرمایا کہ ''میں نئے منتخب صدر کی وزارتی ٹیم سے ملاقاتیں کرنے آیا تھا۔ وہ ٹیم بنی ہی نہیں تھی، میں کس سے ملتا؟‘‘ شاید فاطمی صاحب کو کسی نے سچ بتایا ہی نہیں تھا کہ نامزد صدر نے اپنی کابینہ کے کئی اراکین کا باقاعدہ انتخاب کر لیا تھا۔ اب اس کے لئے رسومات ادا ہونا باقی ہیں۔ لیکن فاطمی صاحب ہیں کہ پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہے۔ وہ پاکستان اور امریکہ کی نئی حکومت کے خوشگوار تعلقات کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ مگر حکومت کہاں ہے؟ وہ تو آئندہ مہینے کی 20 تاریخ کے بعد معرض وجود میں آنا شروع ہوگی۔ جو حکومت بنی ہی نہیں‘ فاطمی صاحب اس کے ساتھ مذاکرات میں 15دن امریکہ کے اندر گزار چکے ہیں۔ ایسے دنوں میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔