آخر کار حکومت پاکستان نے کرپشن کے خاتمے کی قابل عمل ترکیب ڈھونڈ نکالی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی کو 40 ارب روپے کی مبینہ خردبرد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا‘ تو وہاں سے 75 کروڑ روپے مالیت کی پاکستانی اور بیرونی کرنسی برآمد کی گئی تھی۔ ابتدائی خبروں میں برآمد شدہ رقم میں‘ دوچار کروڑ کا فرق ضرور آتا رہا۔ لیکن یہ رقم ایک دم 60 کروڑ روپے تک کیسے جا پہنچی؟ اس سوال کا جواب ‘ ہماری ریت رواج کے مطابق‘ آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ لیکن تولے رتی کا حساب لگانے والوں کو مشکل پیش آئے گی۔پاکستانی رواج کے مطابق کسی بھی جرم میں برآمد کیا گیا مال‘ وقت کے ساتھ ساتھ گھٹتا رہتا ہے۔ جیسے پولیس ہاتھی برآمد کرے‘ تو چند برسوں کے بعد وہ مرغا بن کے رہ جاتا ہے۔ قانون اجازت دیتا ہو کہ خردبرد کی گئی رقم برآمد کرنے والے اہلکاروں کوحاصل شدہ مال پر منافع حاصل کرنے کا اختیار دے دیا جائے‘ تو اس میں ''ملک وقوم‘‘ کو کئی گنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ خردبرد کیا گیا مال بھی سرکاری خزانے میں داخل ہو جائے گا اور اس سے حاصل کیا گیا نفع بھی کام میں لایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اصل برآمد شدہ مال کے ساتھ ساتھ‘ کمایا گیا نفع بھی مل جایا کرے گا۔ سب فائدے میں رہیں گے۔ مثلاً اگر 40 ارب روپیہ تین چار سال پہلے برآمد کیا جائے اور اسی دن برآمد کرنے والے اہلکاروں کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ بلاتاخیر اس رقم سے سرمایہ کاری شروع کر سکیں‘ تو تین یا چار سال کے بعد ‘یہی رقم کئی گنا ہو سکتی ہے۔ اس میں سے نفع کا ایک بڑا حصہ حکومت کو دے کر‘خود اہلکار بھی بھاری سرمایہ بطور انعام حاصل کر سکتے ہیں اور حکومت کوملنے والی رقم میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ پاکستان میں کرپشن کو ختم کر کے‘ سرکاری مشینری بھی مالامال ہو سکتی ہے۔ ''خزانے کے مالکان‘‘ بھی اپنی کرپشن کے ثمرات کئی گنا کر کے‘ اپنی امارت میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں اور ملک و قوم کے اثاثوں میں بھاری اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان کی قومی دولت بھی اصل سے کہیں زیادہ بنائی جا سکتی ہے۔
میں کوئی انوکھی تجویز نہیں دے رہا۔ دنیا میں بے شمار چھوٹے چھوٹے ملک اور جزیرے ایسے ہیں‘ جو صرف ناجائز دولت سمیٹ کر ‘اس میں اندھادھند اضافہ کر دیتے ہیں‘ جو اصل مالکان نہیں کر سکتے۔ مثلاً ہمارے شاہی خاندان کے بچے اپنے بزرگوں کے مقابلے میں‘کہیں زیادہ سمجھدار ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک بچہ جس کی تعلیم کے اخراجات چند سال پہلے والدین‘ پاکستان سے باہر بھیجا کرتے تھے۔ آج اس بچے کی مالی حیثیت ‘ بزرگوں سے بڑھ چکی ہے۔ حالانکہ اس کے بزرگ بھی کم دولت مند نہیں تھے۔ اللہ کا دیا بہت کچھ تھا، بلکہ بہت ہی زیادہ تھا۔ دولت دن دوگنی‘ رات چوگنی ہوتی رہتی تھی‘ پھر بھی خاندان کی مالی حیثیت ‘چند ارب تک محدود رہی۔ لیکن جب بچوں کی باری آئی‘ تو انہوں نے خود کو‘ اپنے والد گرامی کی حکمرانی کے علاقے سے الگ تھلگ کر لیا اور پھر خدانے ایسے بھاگ لگائے کہ یہ بچہ دیکھتے ہی دیکھتے‘ ان جزیروں کی طرف جا نکلا‘ جہاں دنیا بھر کے حکمران‘ سمگلر‘ ناجائز کاروبار اور نہ جانے کس کس شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ قسمت آزمائی کرتے ہیں؟ ''ہمارا بچہ‘‘ مقابلے میں اترا‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں‘ اس کی دولت کے چرچے شروع ہو گئے۔ آج پورا خاندان‘ اس بچے کی ذہانت اور دولت کمانے کی صلاحیتوں پر فخر کر رہا ہے۔ آج میاں صاحب بھرے جلسوں میں فخر سے چیلنج کرتے ہیں کہ ''پاکستان میں کسی شخص میں ہمت نہیں کہ وہ میری ذات پر کرپشن کا الزام لگا سکے۔‘‘ ویسے بھی جو لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں‘ ان کی اولاد اتنی لائق اور ''کمائو‘‘ نکلتی ہے کہ چند برسوں میں ‘اپنی دو نسلوں کی مجموعی آمدنی سے آگے نکل جاتی ہے۔ اب ہمارے وزیراعظم ‘حکمرانی کے ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں‘ جہاں انہیں ادھر ادھر کی کمائی کی ضرورت ہی نہیں رہ گئی۔ اللہ نے ان کے بچوں کو اتنی ذہانت اور دولت کمانے کی ایسی شاندار ہنرمندی سے فیض یاب کر رکھا ہے کہ آج ان کے والدین‘ ان کی اہلیت پر ناز کرتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم اپنی تقریروں میں ‘اپنے بچوں کی خوش نصیبی اور دولت کمانے کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے‘ فخر سے سربلند کر لیتے ہیں۔ شاہی خاندان کے حاسدین‘ بچوں کی دولت پربات کرتے ہوئے‘ اپنا منہ رال سے بھر لیتے ہیں۔
ہمارے وزیراعظم کے مصاحبین بھی‘ دولت کمانے میں کسی سے کم نہیں۔ لیکن لیڈر نے‘ ان کے راستے بند کر رکھے ہیں۔ کیسی کیسی شاندار وزارتیں ‘ ان مصاحبین کے پاس ہیں؟ ہمارے خواجہ سعد رفیق ہی چاہیں‘ تو کھرب پتی ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ چند ارب روپے کی حقیر سی رقم پر گزراوقات کرلیتے ہیں۔ ادھر ادھر ہاتھ مارکے ناجائز دولت کو چھوتے بھی ہیں ‘تو بڑی حقارت کے ساتھ۔ وہ ایک درویش منش شہید کارکن کے فرزند ارجمند ہیں۔ قدرت نے انہیں صبر اور قناعت کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ ان کے پاس قیمتی لباسوں اور ہیرے جواہرات کی کمی تو نہیں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نمود و نمائش سے گریز کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کچھ ہے بھی‘ تو گھر کی چاردیواری کے اندر ہی قیمتی لباسوں اور ہیرے جواہرات کا استعمال کر کے‘ خوش ہو جاتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے؟ جو نمودونمائش کی طرف توجہ دیتے ہوں۔ خدا نے جو کچھ دیا ہے‘ اسی پر صبر کرتے ہیں۔وہ چاہیں‘ تو اپنے دوستوں اور رشتہ داروں پر خوش نصیبی اور دولت مندی کے دروازے کھول سکتے ہیں۔ اگر کوئی ضرورت مند دوست یا رشتہ دار ‘کہیں درخواست کر بیٹھتا ہے کہ خواجہ صاحب اس کے دن پھیرنے میں کچھ مدد کر دیں‘ تو وہ ہمدردی اور محبت سے مشورہ دیتے ہیں ''آپ اس کام میں نہ پڑیں۔‘‘
کوئٹہ کے تجربے سے ظاہر ہو گیا کہ ہماری حکومت اور اس کے اہلکار اگر چاہیں‘ تو حکومت اور قوم کے وارے نیارے ہو سکتے ہیں۔ یہ بتانے کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے کہ ہمارے ملک میں اگر
کرپشن سے پورا فائدہ اٹھایا جائے‘ تو دنیا کی کوئی قوم‘ ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتی۔ یہ تصور کر کے بھی ہوش اڑ جاتے ہیں کہ 40ارب روپے کی خردبرد ہونے والی دولت میں صرف 60 کروڑ مالیت سے زائد کی کرنسی برآمد کر کے‘ جب نیب سے سودا کیا جاتا ہے‘ تو اس میں منافعے کا تناسب ‘ہوش اڑا کے رکھ دیتا ہے۔ یعنی حکومت نے سودا صرف 2 ارب روپے میں کیا۔ جبکہ 38 ارب روپے حکومت پر جائز اور واجب ہو گئے۔ اگر انہی اہلکاروں کو اختیارات مل جائیں‘ تو خدا جانے وہ اس شرح سے کتنی بھاری رقوم کما کر خود بھی عیش و عشرت کریں اور حکومت کے بھی موج میلے ہو جائیں؟ ذرا تصور کیجئے اس سرکاری افسر کا‘ جس کے گھر سے 60 کروڑ روپے نقد برآمد ہوتے ہوں اور 60 کروڑ کی خفیہ دولت بچانے کے لئے و ہ حکومت کو 2 ارب روپے نقد دینے پر تیار ہو جائے۔ ایسا کھلا کاروبار کس جزیرے میں ہوتا ہے؟ اگر حکومت کے مخالف سیاستدان ‘ذرا بھی حوصلے اور برداشت سے کام لینا جانتے ہوں‘ تو کسی کو بھی دوسرے کی دولت مندی پر حسد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کی زندہ مثال جناب آصف زرداری اور محترم و مکرم وزیراعظم جناب نوازشریف ہیں۔ ان دونوں کو خدا نے فراخد لی سے نواز رکھا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی دولت پر ذرا بھی حسد نہیںکرتے۔ بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ موقع ملے‘ تودوسرے کو زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کے مواقع فراہم کرتے ہیںاور کہنے والے تو کہتے ہیں کہ یہ کرپشن کے پیسے کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ وزیراعظم صاحب کو تو‘ان کی اولاد نے ہی بے نیاز کر رکھا ہے۔ آصف زرداری صاحب نے اپنے فرزند کو‘ سیاست میں داخل کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے‘ جلد ہی اپنے بچے کو بھی وہ فرزندان وزیراعظم کی راہ پر ڈال دیںگے۔ بچہ بھی انشاء اللہ وزیراعظم کے فرزندوں کی راہ پر چلے گا۔ آف شور کمپنیوں سے سمندر کی طوفانی موجوںکی طرح دولت امڈ امڈ کر آئے گی۔ زرداری صاحب بھی بے نیازی سے حکمرانی کی ''عبادت‘‘ کرتے ہوئے‘ خلق کی خدمت کریں گے۔ خدا نے چاہا‘ تو ان کا ایک ہی بچہ‘ وزیراعظم کے تینوں بچوں سے بہتر کمائوپوت ثابت ہو گا۔ پاکستان ایسا خوش نصیب ملک بن جائے گا‘ جس میں حکومت اور حزب اختلاف کے سربراہوں کو روپے پیسے کی نہ ضرورت رہے گی اور نہ لالچ۔ اولاد پیسے کمائے گی۔ دونوں لیڈر‘ خلق خدا کی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے۔جس طرف سے بھی گزریں گے‘ ہر دیہی اور شہری خاندان کی جھولیاں بھر دیں گے اور ان بھری ہوئی جھولیوں سے کچھ رقم نکال کر‘ اپنی گزراوقات کیا کریں گے۔بلاول کو اپنے نام کے ساتھ نانا کا نام لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ صرف بلاول زرداری کہلانے پر فخر کیا کریںگے ۔سنا ہے‘ بعض اینکر بھی سوچ رہے ہیں کہ دوچار آف شور کمپنیاں خرید کرسکھ چین کے مزے اڑائیں۔ بعض اینکروں کی اینکرنیاں‘ اپنے ملبوسات اور زیورات کی الماریوں کواسی طرح قیمتی جوتوں اور ان سے قدرے زیادہ قیمتی زیورات اور ملبوسات سے ‘لبالب بھر بھر کے رکھیں گی ۔یہاں تک کہ ان کے تابوت کا وزن‘ ان جمع شدہ ذخیروں کے سامنے ایک تنکے کی مانند حقیر ہو کر کے رہ جائے۔