''ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ صحافی فیض اللہ خان کی تصنیف ہے۔ وہ طالبان کا انٹرویو لینے افغانستان گئے تھے۔ دوران گفتگو وہ اپنے میزبانوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ڈیورنڈ لائن پار کر گئے۔ وہیں دبوچ لئے گئے۔ ایسا واقعہ میرے بیٹے انیق ناجی کے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔ وہ غالباً ''دنیا نیوز‘‘ کے کسی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے طورخم کی سرحد پر گیا تھا۔ بالکل فیض اللہ خان کی طرح وہ بھی افغان طالبان کے ساتھ گپ شپ کرتا ہوا بین الاقوامی سرحد پار کر گیا۔ میں پاکستان کی سمت کھڑا تھا۔ بے حد پریشان ہوا کہ اگر یہ افغان یا امریکی سپاہیوں کے ہاتھ لگ گیا‘ تو پھر خدا جانے کتنی قید کاٹنا پڑے؟ اور قسمت میں واپسی بھی لکھی ہے یا نہیں؟ لیکن انیق کی قسمت اچھی تھی‘ وہ افغان بارڈر فورس کے جوانوں کے ساتھ گپ شپ کرتا ہوا واپس پاکستانی سرحد میں آ گیا۔ جیسے ہی وہ واپس آیا‘ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر تیزی کے ساتھ کار میں بٹھا لیا اور اس طرح بخیر و عافیت وہ گھر آ گیا‘ ورنہ ہو سکتا ہے میں ابھی تک اسے افغانستان کے قید خانوں یا عقوبت گاہوں میں تلاش کرتا پھر رہا ہوتا۔ قسمت نے یاوری کی اور انیق گھر آ گیا‘ لیکن صحافی فیض اللہ خان اتنے خوش نصیب نہیں تھے۔ وہ جب طالبان قیادت کے انٹرویو کے دوران افغانستان میں داخل ہوئے تو سکیورٹی کے اداروں نے انہیں تحویل میں لے لیا۔ وہ اپریل 2014ء میں پکڑے گئے اور ستمبر میں رہائی نصیب ہوئی۔ فیض اللہ خان نے اپنی قید کے دنوں کا قصہ لکھا ہے۔ آج میں وہی پیش خدمت کر رہا ہوں۔ یہ واقعہ ریاض سہیل نے بی بی سی کے لئے تحریر کیا۔
''افغانستان کی جیلوں میں بھی طالبان عدالتیں لگاتے ہیں اور لوگ ان کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے ہیں۔ یہ عدالتیں ملاقات کے دن لگائی جاتی تھیں۔ اس طرح نہ لوگوں کے زیادہ پیسے خرچ ہوتے اور نہ ہی مخالف فریق فیصلے سے انحراف کرتا۔ ان جرگوں یا طالبان کی عدالت سے جیل حکام بخوبی آگاہ تھے‘ لیکن وہ اس معاملے میں زیادہ مداخلت نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا اولین مقصد صرف جیل کا امن و امان بحال رکھنا تھا۔ جیل کے ایّام کے دوران فیض اللہ کی القاعدہ اور افغان طالبان کے علاوہ تحریک طالبان کے بعض رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، جن کی تفصیلات بھی ''ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ میں فراہم کی گئی ہیں۔ القاعدہ کے رہنما شیخ جعفر سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ جیل میں ان کی بڑی عزت کی جاتی تھی۔ ان کا تعلق افعان سرحد پر موجود مہمند قبیلے سے تھا۔ کتاب کے مطابق شیخ جعفر نے بتایا کہ وزیرستان میں موجود تحریک طالبان، حافظ گل بہادر، ملا نذیر اور ازبک جنگجوؤں سے ان کے تنظیم کے روابط تھے اور بعض اوقات ان تنظیموں کے باہمی اختلافات القاعدہ نے دور کرائے۔ اس سلسلے میں القاعدہ کا اپنا عدالتی نظام ہے، جسے''لجنہ‘‘ کہتے ہیں۔ وہاں مقدمہ جانے کے بعد تمام فریق اس کا فیصلہ مانتے ہیں۔ جلال آباد میں قید مولوی عبدالرحمان کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا۔ انہیں جلال آباد ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ فیض اللہ نے لکھا ہے کہ مولوی عبدالرحمان نے انہیں بتایا کہ حملے میں استعمال ہونے والی گاڑیوں میں سے ایک پھٹ نہیں سکی اور اس پر موجود انگلیوں کے نشانات کی وجہ سے کافی عرصے کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ''یہ ہی وجہ تھی بیشتر طالبان اپنی انگلیوں کی پوروں کو زخمی کر دیتے تاکہ پکڑے جانے والے اسلحے یا گاڑیوں سے انگلیوں کے نشانات نہ مل سکیں‘‘۔
جلال آباد جیل میں اس وقت فیض اللہ خان کے ساتھ دیگر درجنوں پاکستانی قیدی بھی موجود تھے۔ فیض اللہ خان لکھتے ہیں کہ اکثر ایسے پاکستانی تھے، جو تحریکِ طالبان پاکستان کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے کچھ وہ بھی تھے‘ جنہوں نے پاکستان میں جاری آپریشن کے بعد افغانستان میں اہلِ خانے کے ہمراہ سیاسی پناہ حاصل کر رکھی تھی‘ لیکن انہیں بھی انٹیلی جنس حکام نے گرفتار کرکے یہاں منتقل کر رکھا تھا۔ ''کئی وہ پاکستانی تھے جنہیں افغان طالبان اپنے ہمراہ لڑنے کے لئے یہاں لائے تھے اور وہ گرفتار ہو گئے۔ تیسرا درجہ ان پاکستانیوں کا تھا، جو محنت مزدوری یا کاروبارہ کرنے کے لئے باقاعدہ ویزہ لے کر آئے‘ لیکن دستاویزات میں کوئی نہ کوئی سقم رہ جانے کی وجہ سے انہیں قید کر لیا گیا‘‘۔ فیض اللہ خان کو جیل میں ایسے درجنوں قیدی ملے جن کے پاس دونوں ممالک کی شہریت تھی۔ انہوں نے انہیں بتایا کہ جیسے ہی وہ لوگ سرحد عبور کرتے افغانی تذکرہ یعنی شناختی کارڈ طورخم بارڈر پر اپنے کسی عزیز کے حوالے کر دیتے اور نادرا کا قومی شناختی کارڈ‘ جو انہوں نے پیسے دے کر بنوایا ہوتا ہے، دکھا کر پاکستانی شہری بن جاتے ہیں۔ فیض اللہ خان جلال آباد جیل کے جس بلاک میں رہے اس کو سختیوں کے باعث مقامی طور پر گوانتانامو بے بلاک کہا جاتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ بلاک میں آمد کے ساتھ ہی ایک ملازم انہیں نائی خانہ لے گیا کیونکہ وہاں اصول یہ تھا کہ ہر آنے والے قیدی کو گنجا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس دوران اہلکار نے انہیں پیشکش کی کہ اگر میں ایک ہزار روپے دوں تو وہ مجھے گنجا ہونے سے بچا سکتا ہے۔ ''نائی خانے تک پہنچتے پہنچتے میں اس سے پانچ سو روپے میں ڈیل کر چکا تھا؛ البتہ اہلکار نے مشورہ دیا کہ کینٹین سے ایک رومال خریدنا پڑے گا تاکہ میں اسے مستقل اپنے سر پر رکھ سکوں جیسا کہ ہر نیا آنے والا قیدی کرتا ہے۔ یوں کسی کو اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ میں رشوت کے عوض اپنے بال بچا چکا ہوں‘‘۔
فیض اللہ نے ''ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ میں افغانستان کے جیلوں کی ابتر صورتحال پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جس بلاک میں انہیں رکھا گیا وہاں ڈھائی سو قیدی موجود تھے، جن کے استعمال کے لیے 4 بیت الخلا اور چار غسل خانے تھے۔ ان میں سے ایک بیت الخلا ہمیشہ ہی خراب رہتا‘ باقی تین بھی انتہائی درجہ غلیظ تھے۔ اس پر بھی بیک وقت پندرہ سے بھی بیس افراد لائن میں رہتے۔ فیض اللہ خان نے لکھا ہے کہ دوپہر یا شام کے وقت کھانا بنتا تو پورے بلاک میں انگیٹھیاں جلنے کے باعث پاگل کرنے والی گرمی ہو جاتی۔ دروازہ بند ہونے اور اکثر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے قیدیوں میں لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ تھے۔ بلاک انچارج جھگڑنے والے قیدیوں کو دیوار سے ہتھکڑیوں کی مدد سے ٹانگ دیتا اور وہ کئی کئی گھنٹے اسی کیفیت میں لٹکے رہتے۔ جیل میں کھانے کا ذکر کرتے ہوئے فیض اللہ خان لکھتے ہیں کہ کھانے انتہائی بدبودار ہوتے، اس لئے وہ بلاک انچارج کی نجی کینیٹن سے انڈے، بھنڈی یا آلو لے کر ان کو پکاتے تھے جبکہ گوشت یا مرغی کا کوئی تصور نہ تھا۔ جیل حکام ناشتہ نہیں دیتے تھے؛ البتہ صبح کے وقت آدھی روٹی اور دوپہر میں ایک روٹی دی جاتی۔ قیدی اپنی اپنی روٹیاں چھپا کر رکھتے تاکہ کوئی کھا نہ جائے کیونکہ اس معاملے پر بھی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ جیل کے اندر قیدیوں کی محفلیں بھی ہوتی تھیں۔ ایک محفل کا ذکر کرتے ہوئے فیض اللہ خان نے لکھا ہے کہ ایک افغان قیدی نے مجھ سے پوچھا کہ ہم نے سنا ہے پاکستان میں ایسے ہوٹل بھی ہیں جہاں پانچ افغانی یعنی ایک ہزار پاکستانی روپے دے کر‘ جتنا دل کرے آپ کھانا کھا سکتے ہیں اور وہاں مختلف اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں؟ ''اس کا اشارہ بوفے کی طرف تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔ یہ بات ان کے لئے کافی دلچسپ اور حیرت کا باعث تھی‘‘۔
فیض اللہ خان کی جیل ڈائری میں کئی مقامات پر جیل کے اندر کرپشن اور قیدیوں سے سہولیات کے لیے رقومات کی وصولی کے واقعات موجود ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ گوانتانامو بلاک میں ٹی وی کی اجازت نہیں تھی‘ لیکن عبدالسمیع نامی قیدی نے بھاری رشوت دے کر اس کا انتظام کیا ہوا تھا۔ ''ان دنوں بھارت میں آئی پی ایل کے چرچے تھے اور قیدی بڑے شوق سے شاہ رخ خان اور پریٹی زنٹا کی ٹیموں کے مابین کرکٹ میچ دیکھتے۔ اس کے علاوہ ہر جمعرات کو فارسی اور پشتو چینلز سے ہندی فلمیں دکھائی جاتیں، جو پشتو اور فارسی میں ڈبنگ کے ساتھ پیش کی جاتیں۔ اسی طرح قیدی ٹاک شوز بھی شوق سے دیکھتے‘ جن میں پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا‘‘۔