بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے خلاف جو مہم چلائی گئی ‘ حسب سابق توقع تھی کہ یہ ابال جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس مرتبہ فرق تھا۔ ماضی میں جب بھی انتہاپسندوں نے پاکستانی فنکاروں کے خلاف مہم چلائی‘ اس وقت سیکولرکانگرس یا اس کی ہم خیال پارٹیوں کی حکومت تھی۔ انتہاپسند گروپ نفرت کی جو مہم شروع کرتے‘ اس کا جھاگ جلد ہی بیٹھ جاتا اور حالات معمول پر آ جاتے۔ مگر اس مرتبہ یوں نہ ہو سکا۔ نفرت کی اس مہم میں اتنی تیزی آئی کہ بھارت کا ایک سینئر اداکار اوم پوری‘ انتہاپسندوں کا نشانہ بن کرجان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اسے کیسی اذیت ناک موت مارا گیا؟ اس کا ذکر میں چند روز پہلے اپنے ایک کالم میں کر چکا ہوں۔ اوم پوری مذہبی اور فرقہ ورانہ نفرت سے ہمیشہ پہلو بچا لیا کرتا تھا۔ جب بھی ان لوگوںکو وقت ملتا‘ تو یہ کسی نہ کسی آزادخیال فنکار کو گھیرلیتے۔ انہوں نے سلمان خان پر یلغارکی۔ شاہ رخ خان کو گھیر کے ایک لائبریری میں لے گئے اور وہاں اس کی خوب تذلیل کی۔ ایسا ہی سلوک کرن جوہر کے ساتھ بھی کیا گیا۔ شیوسینا کا ایک مخصوص انداز ہے۔ وہ ظلم و تشدد اور درندگی سے ذرا پرہیز نہیںکرتے۔ جب کسی شخص کو ان کے ہیڈکوارٹر سے ذلیل و رسوا کرنے کا حکم ملتا‘ ان کی بے رحمی دیدنی ہوتی۔ اوم پوری ساٹھ سال سے اوپر کی عمر کا آدمی تھا۔ شیوسینا کے غنڈے عموماً بیس اور تیس برس کے درمیان ہوتے ہیں۔ انہوں نے شروع میں اوم پوری کے ساتھ بحث مباحثہ شروع کیا۔ یہ ان کا مخصوص طریقہ کار ہے۔ اوم پوری کو گھیرے میں لے کر اس کے خیالات پر حملے کئے جاتے اور جب وہ کوئی جواب دیتا‘ تو یہ گالی گلوچ پر بھی اتر آتے۔ انہی دنوں شیوسینا کا ایک کارندہ جو کہ فوج میں بھرتی ہو چکا تھا‘ اس کی ڈیوٹی مقبوضہ کشمیر میں لگائی گئی۔ وہاں جا کر اس نے نہتے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سفاک اور درندہ صفت انسان کے بے رحمانہ حملے ‘ مقبوضہ کشمیر میں زیربحث آ گئے۔ شیوسینا کے غنڈوں کے ساتھ بحث کے دوران جب فوج میں بھرتی ہونے والے شیوسینا کے اس رکن کی کشمیریوں کے ہاتھوں موت کا ذکر آیا‘ تو اوم پوری نے کہہ دیا کہ اگر اسے موت کا اتنا ہی ڈر تھا‘ تو وہ فوج میں بھرتی ہو کر کشمیرکیوں گیا؟ ان تنگ نظر اور غضب ناک افراد کے لئے اتنی سی بات ناقابل برداشت تھی۔ انہوں نے اوم پوری کو مجبور کیا کہ اس کے گائوں جا کر مرنے والے کے خاندان کی حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور پھر بتائیں کہ ان کے ساتھی کو قتل کرنے والے مسلمان کس سلوک کے مستحق ہیں؟ اوم پوری کو گھیرے میں لے کر یہ ٹولہ شیوسینا کے مرنے والے کارکن کے گائوں گیا۔ وہاں اس کے اہل خانہ سے باتیں کرتے ہوئے اوم پوری کو بری طرح سے غصے کا نشانہ بنا لیا گیا۔ یہیں سے بحث کو جاری رکھتے ہوئے اوم پوری کو یہ لوگ دھکے دیتے ہوئے اس کے گھر لے گئے اور وہاںکس سنگدلی اور درندگی کامظاہرہ کرتے ہوئے اوم پوری کو قتل کیا گیا؟ اس کی دردناک کہانی میں گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں۔ آج میں آر ایس ایس کی دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی شدت اور پھیلائو کی چند مثالیں پیش کر رہا ہوں۔ اس کا پس منظر اور تفصیل بھارت کے بزرگ صحافی کلدیب نیئر نے لکھی ہے۔ ذیل میں یہ تحریر پیش خدمت کر رہا ہوں۔
''سال کے خاتمے کے قریب سب سے بڑی خبر آنے تک ملک کے ایک اہم صنعت کار گھرانے نے‘ طاقتورترین بنیاد پرست تنظیم کی اہمیت کا اعتراف سرعام کیا۔ رتن ٹاٹا اپنے ذاتی ہوائی جہاز سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ ‘موہن بھاگوت سے ملنے ناگپور گئے۔ یہ ملاقات تھی تو 20 منٹ کی ہی لیکن اس سے عوام تک یہ پیغام گیا ہے کہ پارسیوں کے اقلیتی فرقے کی سربراہی میں‘ چلنے والے ایک سیکولر صنعتی ادارے نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تعصب کی اس ہوا نے ہندو توا کے مماثل تنظیم کے علاوہ ‘عوام کے لئے کوئی اور متبادل چھوڑا ہی نہیں ہے۔یہ ہماری سیکولراسناد پر ایک افسوسناک تبصرہ ہے۔ ملک کی آزادی سے پہلے‘ جس قومی تحریک نے تکثیریت کے تصور سے تحریک حاصل کی تھی‘ اس میں مولانا ابوالکلام آزاد‘ خان عبدالغفار خان اور رفیع احمد قدوائی جیسے رہنما شامل تھے۔ جنہوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے ہی مذہب کے نام پر مسلم لیگ کی طرف سے بنائے گئے دبائو کا مقابلہ کیا اور ان رہنمائوں کو حقارت سے ہندو تماشہ گر کا نام دیا گیا تھا۔
مجھے مہاتما گاندھی کی پرارتھنا سبھائوں کا ایک واقعہ یاد ہے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے اور اپنی جان انہوں نے اصولوں پر قربان کر دی۔ ایک ہندو جنونی ناتھورام گوڈسے نے‘ سرعام مسلم نوازی کے لئے انہیں اپنی گولی کا نشانہ بنایا۔ ان کی پرارتھنا سبھا میں بائبل‘ قرآن اور گیتا ترتیب وار پڑھے جاتے تھے۔ ایک دن پاکستان سے آئے‘ پناہ گزیں نے قرآن پڑھے جانے پر اعتراض کیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ قرآن کی تلاوت‘ پرارتھنا کا لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر کوئی سبھا نہیں ہو گی۔ معترض کو اس پر قائل کرنے میں پندرہ دن لگ گئے کہ وہ دوسروں کی راہ میں حارج ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اس نے گاندھی جی سے مل کر اپنا اعتراض واپس لیا اور پرارتھنا سبھا کا سلسلہ بحال ہوا۔
گاندھی جی کے معاملے میں سیکولراقدار‘ عقیدے سے مربوط تھیں۔ آج کے ہندوستان میں ان کی موجودگی‘ نرم ہندو توا پر ناگوار گزرتی ہے‘ جس نے خاموشی سے ملک کو آغوش میں لے لیا ہے۔ ہندوستان کی آبادی کا پانچواں حصہ 20 کروڑ مسلمان‘ ملک کے امور میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ انتخابات کے موقع پر ہی ان کی معنویت کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ مشترک حلقہ رائے دہندگان میں ان کے ووٹوں کی کلیدی اہمیت ہوتی ہے۔
مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم انتقام و عداوت کو ہوا دیتی رہی ہے۔ خواہ کمتر ہی سہی۔ میں پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھانے کی ہر کوشش کی تعریف کرتا ہوں۔ نئے سال کے پہلے دن نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ‘انڈیا گیٹ پر جمع ہوئے۔ جہاں سے انہوں نے واہگہ بارڈر تک کا سفر کیا تاکہ اسلام آباد کے تئیں اپنے دوستانہ احساسات کا اظہار کر سکیں۔ 1965ء کی جنگ سے پہلے‘ ایک وقت تھا جب سرحد نرم تھی اور لڑکے اور لڑکیاں ‘دہلی سے براہ راست لاہور جاتے تھے۔
نوجوانوں نے فخر سے ایک بینر لگایا تھا جس پر لکھا تھا "Bus to Pakistan"۔ 50 لڑکے اور لڑکیاں بس میں تھے اور مزید 50 سائیکلوں پر تھے۔ سرحد پر پہنچنے سے پہلے وہ ہر 10کلومیٹر پر جگہیں بدل لیتے تھے اور بعض مقامات پر رکتے تھے۔ مقامی افراد ‘ان کے استقبال میں شریک ہوئے۔ ان کی آئو بھگت‘ برات کے دولہا کی طرح ہوتی۔ میں نہیں جانتا کہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتے منجمد کیوں ہو گئے؟ ملک کی تقسیم تو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی مرضی سے ہوئی تھی۔ اگرچہ کانگریس اس سے خوش نہیں تھی۔ آزادی کے بعد سے 70 سال کا عرصہ ایک دوسرے کو قبول کرنے اور دوست نہیں تو بااخلاق ہمسائیوں کی طرح پیش آنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان ایک ڈیموکریٹک ملک ہے۔ لیکن کسی وقت حاکم رہنے والی فوج‘ حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں فوج بغاوت کے بعد بیرکوں میں واپس چلی جاتی ہے۔ لیکن اس امر کو یقینی بنا لیتی ہے کہ اقتدار اس کے ہاتھ میں ہی ہے۔ بنگلہ دیش اس کی خاص مثال ہے‘ جہاں فوج حکومت کرنا نہیں چاہتی۔ اس ملک کے ایک سابق فوجی سربراہ نے مجھے بتایا کہ ان کے مداخلت کرتے ہی معاملہ عوام بمقابل فوج کا ہو جائے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ عوام خود ہی اپنی پیدا کی ہوئی ابتری سے نمٹیں۔
ہندوستان خوش قسمت ہے کہ تینوں سروسز‘ پوری طرح غیر سیاسی اور پیشہ ورانہ نوعیت کی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کا کام حکم کی تعمیل کرنا ہے‘ جو وہ حتی الامکان کرتی ہیں۔ کسی بھی حالت میں سیکولرتربیت پائی ہوئی مسلح افواج‘ اس میدان میں قدم نہیں رکھنا چاہتیں‘ جہاں تعصب کا گزر ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بنگلہ دیش کی مسلح افواج ‘ گزشتہ برسوں میں مذہب کی طرف مائل ہوئی ہیں اور ان کا مذہب اسلام ہے۔ فوج اور مسجد کے درمیان کا فاصلہ کم ہو رہا ہے اور جمہوری اصول دھندلے پڑ رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے‘ جسے وزیراعظم نوازشریف اور شیخ حسینہ کو سختی سے دبا دینا چاہیے۔ لیکن وہ دونوں ایک ہی وقت میں دو کشتیوں میں سوار ہونا چاہتے ہیں۔
ان دونوں ملکوں کے عوام ہندوستان کی مستحکم جمہوری اقدار کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستانی عدلیہ‘ ان کے لئے قابل تقلید مثال بن گئی ہے۔ دونوں ملکوں میں ججوں کا وہ کالجیم بھی نہیں جو ہندوستان میں ہے۔ مجھے اس پر اکثر حیرت ہوئی ہے کہ ججوں کی تقرری حکومت کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود‘ بہترین ججوں کی تقرری کیسے عمل میں آئی؟سپریم کورٹ نے حال ہی میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ مذہب‘ نسل‘ ذات‘ فرقہ پرستی کو انتخابی عمل میں کسی فائدے کا ذریعہ نہیں بنایا جائے گا اور اس امیدوار کا انتخاب کالعدم قرار دے دیا جائے گا‘ جس نے ان بنیادوں پر ووٹ حاصل کئے ہوں گے۔ اس سے جمہوریت ایک بار پھر مضبوط اور فرقہ ورانہ عناصر کی شکست ہوئی ہے۔تاہم عوامی معاملات کو جوں کا توں رہنے نہیں دے سکتے۔ کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی علی الاعلان بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے اپنی ترجیح کا اظہار کرتے ہیں۔ پارٹی کے نظریہ ساز ‘ ناگپور میں رہتے ہیں اور انہوں نے یہ پیغام بھی پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان ہی سے تحریک حاصل کرتے ہیں۔
اس لئے رتن ٹاٹا اور بھاگوت کی ملاقات باعث حیرت نہیں۔ کبھی ٹاٹا گروپ سے وابستہ سائرس مستری کو شاید اس گھرانے کے طریق کار کا علم رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ رتن ٹاٹا نہیں چاہیں گے کہ بھاگوت‘ مستری کی باتوں کا اثر قبول کریں۔ شاید یہ کہانی کا دوسرا رخ ہے‘ جس کی پردہ پوشی‘ رتن ٹاٹا کرنا چاہیں گے۔ لیکن یہ ہے جاننے کے قابل۔‘‘