امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا پہلا دن بہت ہی مصروف ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ صدر بننے کے بعد پہلے چند گھنٹوں میں ہی متعدد اہم اقدامات کرنے والے ہیں۔نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک جائزے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور پھر صدارتی انتخابات میں اپنی کامیابی کے بعد جن عزائم کا اظہار کیا ہے، اْن کی روشنی میں دیکھا جائے تو اْن کے دورِ صدارت کا پہلا دن انتہائی مصروف گزرے گا۔اس جائزے کے مطابق توقع یہ کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ اپنے پیش رو بارک اوباما کے آٹھ سالہ دور میں کئے گئے متعدد اقدامات کو منسوخ کرنے کا عمل شروع کر دیں گے۔ اوباما کے کئی ایک اقدامات کو وہ بیک جنبشِ قلم منسوخ کر سکتے ہیں جبکہ دیگر کو منسوخ کرنے میں کئی مہینے یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ ستّر سالہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورِ صدارت کے پہلے چند گھنٹوں کے اندر اندر درجنوں اقدامات کرنے کا خاکہ تیار کر چکے ہیں، جن میں ممکنہ طور پر صحت کے شعبے میں ''اوباما کیئر‘‘ کہلانے والی اصلاحات کی منسوخی کے ساتھ ساتھ غیر قانونی تارکینِ وطن کی اْن کے آبائی ملکوں کو جبری واپسی، متعدد تجارتی معاہدوں کی منسوخی اور میکسیکو کے ساتھ ملنے والی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا اعلان شامل ہو سکتے ہیں۔تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ پہلے روز کی مصروفیات کے حوالے سے ٹرمپ کے عزائم جو بھی ہوں، اْنہیں عملی جامہ پہنانے کی گنجائش بہرحال محدود ہو گی۔ امیگریشن اٹارنی ڈیوڈ لیوپولڈ نے اے ایف پی کو بتایا''یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئیں اور پہلے ہی روز ہر وہ اقدام کر ڈالیں، جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت میں کوئی چیف ایگزیکٹیو آفیسر نہیں ہوتا۔‘‘اس کے باوجود توقع یہ کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ ''اوباما کیئر‘‘ کو ختم کرنے اور اْس کی جگہ متبادل اصلاحات لانے کے احکامات پر فوری طور پر دستخط کر دیں گے۔ اس کے فوراً بعد وہ کانگریس پر ان اصلاحات کا متبادل تیار کرنے کے لئے زور دیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی ری پبلکن پارٹی کی طرف سے ان اصلاحات کے متبادل کے طور پر کوئی تجویز سامنے نہیں لائی گئی۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اْن سزا یافتہ مجرموں کو ڈی پورٹ کرنا چاہیں گے، جو غیر قانونی طور پر امریکا میں قیام پذیر ہیں اور جن کی تعداد اْن کے بقول دو ملین سے بھی زیادہ ہے۔ اگست میں ایریزونا میں ٹرمپ نے کہا تھا''صدر کے طور پر پہلے روز، پہلے گھنٹے ہی میں، سمجھ لیں کہ یہ لوگ تو گئے۔‘‘ تاہم امیگریشن اٹارنی ڈیوڈ لیوپولڈ کے مطابق صدر کے پاس کسی شخص کو جبراً وطن واپس بھیجنے کے اختیارات ہی نہیں ہیں۔ ٹرمپ اپنی صدارت کے پہلے روز غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد کو روکنے کے لیے میکسیکو کے ساتھ ملنے والی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا ڈول ڈال سکتے ہیں اور شامی مہاجرین کے لیے متعارف کروائے گئے پروگرام کی معطلی کے احکامات جاری کر سکتے ہیں۔ٹرمپ نے یہ بات بھی راز نہیں رہنے دی کہ وہ نہ صرف امریکی انڈسٹری میں ماحولیاتی تحفظ کی امریکی ایجنسی EPA کی مداخلت کو ختم کر دیں گے بلکہ اوباما کے اْس ''کلین پاور پلان‘‘ کو بھی منسوخ کر دیں گے، جس میں بجلی گھروں سے کاربن گیسوں کے اخراج کو کم یا ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔
سی آئی اے کے موجودہ سربراہ جان برینن نے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ صدر بن کر انہیں اپنی ''بے ساختگی‘‘ پر قابو پانا ہوگا۔ جان برینن نے جن کی مدت ملازمت جلد ختم ہو رہی ہے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جب بات کرتے ہیں یا ٹوئٹر پر کوئی پیغام دیتے ہیں تو انہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس سے ملکی مفادات متاثر نہ ہوں۔''یہ معاملہ اب صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ جب ٹرمپ صدر کے عہدے کا حلف لے لیں گے تو پھر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا مفاد اولین ہوگا۔ جان برنین نے کہا کہ ''بے ساختگی‘‘ قومی مفادات کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ تواتر کے ساتھ قومی اہمیت کے حامل معاملات پر ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے اعلانات کر رہے ہیں۔جان برینن نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روس کی ''اہلیت اور نیتوں‘‘ کے بارے میں زیادہ ادراک نہیں رکھتے اور روس کو ہرمعاملے میں بری الذمہ قرار دینے میں احتیاط کا مظاہرہ کریں۔جان برینین کا یہ بیان امریکی انٹیلی جنس کی اس رپورٹ کے ایک ہفتے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ روس نے امریکہ کے صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ بارہا انٹیلی جنس کی رپورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہارکر چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے کمپیوٹر ہیک ہونے کی وجہ ان کی اپنی نااہلی کا نتیجہ ہے کیونکہ ڈیموکریٹ پارٹی نے ہیکنگ سے بچنے کے لئے مناسب تدابیر اختیار نہیں کی تھیں۔ مزید برآں ڈونلڈ ٹرمپ اور کریملن نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کی اس رپورٹ کو غلط قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ صدر پیوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین آئس لینڈ کے دارالحکومت ریکوک میں ملاقات کے لیے تیاریاں ہو رہی ہے۔ریکوک ہی وہ مقام تھا جہاں عشروں سے جاری سرد جنگ کے خاتمے سے پہلے 1986ء میں امریکی صدر رونلڈ ریگن اور میخائل گورباچوف کے مابین ملاقات ہوئی تھی۔جان برینن نے فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کا صدر ٹوئٹر پر پیغامات کے ذریعے ملکی اہمیت کے اعلان نہیں کر سکتا۔جان برینن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اداروں پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ٹرمپ کی نجی زندگی کے بارے میں خبر ذرائع ابلاغ کو مہیا کی تھی۔جان برینن نے کہا کہ مجھے جس بات سے سخت تکلیف ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے انٹیلی جنس اداروں کا نازی جرمنی سے موازنہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسی معلومات جو پہلے ہی میڈیا کے پاس تھیں اس پر امریکی انٹیلی جنس اداروں کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20جنوری کو امریکہ کے 45ویں صدر کے طور پر حلف لیں گے۔ اس سے ایک روز بعد امریکہ کی تاریخ میں خواتین کے حقوق کے لئے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے کی تیاری ہو رہی ہے، جس میں دو سو سے زیادہ ترقی پسند تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں۔مظاہرے کا اہتمام سوشل میڈیا پر ایک تجویز سے شروع ہوا اور اب یہ مظاہرہ امریکی تاریخ میں عورتوں کے حقوق کے لیے سب سے بڑے مظاہرے میں تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔یہ مظاہرہ واشنگٹن کے علاقے لنکن میموریل سے شروع ہو کر وائٹ ہاؤس کے باہر ختم ہوگا، جہاں چوبیس گھنٹے پہلے ہی امریکہ کا نیا کمانڈر ان چیف براجمان ہو چکا ہوگا۔اس مظاہرے سے صرف چوبیس گھنٹے پہلے ایک فیس بک پیچ ظاہر ہوا۔ مظاہرے کے منتظمین اب ہر ریاست میں اسی نوعیت کے مظاہرے کے لیے فیس بک پیچ تیار کر رہے ہیں اور ابھی تک سولہ ریاستوں میں احتجاج کے لیے فیس بک پیچ سامنے آچکے ہیں۔ مظاہرے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ لنکن میموریل سے وائٹ ہاؤس تک پرامن مارچ کے ذریعے وہ نئے امریکی صدر سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں گے۔مظاہرے میں تمام خواتین، ٹرانسجینڈر اور حقوق نسواں کے حامیوں کو مظاہرے میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
مظاہرے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ اس مظاہرے کے ذریعے ایسے وقت عورتوں کے حقوق کی بات کرنا چاہتے ہیں جب ملک میں جنسی حملوں کے مرتکب افراد کو ''معاف‘‘ کرنے اور انہیں اعلیٰ عہدوں کے لیے قابل قبول بنایا جا رہا ہے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ ہر وہ شخص جو عورتوں کے حقوق کا حامی ہے اسے اس مظاہرے میں شرکت کی دعوتِ عام ہے۔مظاہرے کے منتظمین اپنے دوسرے شہروں سے آنے والے مظاہرین سے کہہ رہے ہیں کہ جلد از جلد ہوٹل میں بکنگ کروا لیں کیونکہ صدر کی حلف برداری تقریب کی وجہ سے واشنگٹن میں پہلے ہی ہوٹلوں میں بکنگ مشکل ہو چکی ہے۔سیاہ فام وکلا عورتوں کی تنظیم کی سربراہ کیلن وائٹنگہیم نے کہا ہے کہ امریکہ جیسے متنوع ملک میں کسی ایک مسئلے پر اتنا بڑا مظاہرہ پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ''ہمیں ایک طاقت کے طور پر اکٹھے ہونا ہے تاکہ کوئی ہمیں نظر انداز نہ کر سکے۔‘‘اس مظاہرے میں دوسو سے زیادہ ترقی پسند تنظیمیں شریک ہو رہی ہیں۔