گزشتہ روز 5 فروری کو عالمی یوم کشمیر منایا گیا۔ اس موقع پر نہتے اور کرفیو کے مارے ہوئے کشمیریوں پر‘ بھارتی فوج کے ہٹے کٹے جوانوں نے جی بھر کے مظالم ڈھائے۔ آج 70 سال کے بعد بھی یہ تنازعہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوا۔پاکستان اور بھارت اب دونوں ایٹمی قوتیں بن چکے ہیں۔ آج تک ایسا کوئی سانحہ نہیںہوا کہ دو ایٹمی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں۔ تمام ایٹمی قوتوں نے اپنے اپنے تجزیوں کی روشنی میں امن کے راستے پر کاربند رہناسیکھ لیا ہے۔ لیکن بھارت باہمی تصادم کو روکنے کی کوئی تدبیر اختیار نہیں کر رہا بلکہ قدم قدم پر اشتعال انگیزی کر کے ایٹمی تباہ کاری کے حالات پیدا کر رہا ہے۔بھارتی حکمران طبقوں کوسمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ موت اور تباہی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے‘ امن اور صلح جوئی کی طرف پیش قدمی کریں۔ طاقت کے جس زعم میں بھارت ایٹمی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے‘ اس میں بڑی تباہی کا عظیم المیہ بھارتی سرزمین پر رونما ہو گا۔ کیا بھارت کی موجودہ سیاسی قیادت خودکشی کی طرف بڑھنے سے رک کر امن اور آسودگی کی طرف رخ نہیں کرے گی؟
کشمیر کا ذکر آتے ہی جنت ارضی کی حسین وادیوں‘ مترنم جھرنوں‘ خوبصورت پہاڑوں‘ ہرے بھرے جنگلوں‘ جھلملاتی ندیوں‘ لہراتے شکارے اور نرم نرم روئی کے گالوں جیسی برف باری کی یادیں آتی ہیں۔ ذہن میں تازگی‘ نغمگی‘ شگفتگی اور دلفریبی کا شدید احساس ان لوگوں کے دلوں میں مچلنے لگتا ہے‘ جن لوگوں نے اب سے دس بیس برس قبل ان حسین وادیوں کی سیر کی ہے۔ جن لوگوں کو جنت ارضی کی ان خوبصورت وادیوں کی سیر میسر نہیں ہوئی ''کشمیر کی کلی‘‘ ''جب جب پھول کھلے‘‘ اور ''آرزو‘‘ وغیرہ جیسی کشمیر کی حسین وادیوں پر بنی فلمیں دیکھنے کے بعد ان کے دلوں میں ہمیشہ یہ آرزوئیں انگڑائیاں لیتی رہتی ہوں گی کہ کاش انہیںبھی ایک بار ان خوبصورت وادیوں کی سیر کرنے کا موقع مل جائے۔ یہاں کے حسین نظاروں اور دلفریب مناظر سے حسن و عشق کی کرنیں بھی پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ جن پر درجنوں ناول‘ سینکڑوں افسانے اور نہ جانے کتنی نظموں اور غزلوں کا وجود سامنے آ چکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کشمیر کی وادیوں میں عشق و محبت پر مبنی بے شمار فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ کشمیر کی ان خوبصورت وادیوں اور حسین مناظر کی دلفریبیوں کی قدر نہیں کی گئی اور اس جنت ارضی کو عاقبت نااندیشوں نے اپنے اپنے مفادات میں جہنم کا نمونہ بنا دیا ہے۔ کشمیر کے حسن کو شعلوں کی نذر کر دیا گیا ہے۔
کشمیر کی اپنی ایک شاندار تاریخ رہی ہے‘ جس پر سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اس وقت یہ موقع نہیں ہے کہ اس کی پرانی تاریخ دہرائی جائے لیکن یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ جن تنازعات کے باعث کشمیر تباہیوں کے دہانے پر ہے‘ اس کے ذمہ دار وہ انگریز ہی ہیں جو ہندوستان پر قبضہ جما کر اس کا سودا کرتے رہے اور اس کی شاندار روایات اور حسن کو مسخ کرتے رہے۔ کشمیر ایک ایسا خوبصورت اور حسین علاقہ رہا ہے کہ ہر ایک کے دل کی دھڑکن بنا رہا ہے۔ ہر ایک کی یہ خواہش رہی ہے کہ ان حسین وادیوں پر اس کی ہی حکمرانی رہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا‘ تب ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ نے بھی یہ خواب دیکھا کہ کشمیر پر ان کی حکمرانی رہے۔ چنانچہ اس راجہ نے انگریزوں سے کشمیر کا سودا کیا اور 1846ء میں 75 لاکھ روپے میں اس پورے خطہ کو خرید لیا اور اپنی حکمرانی قائم کر دی۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کشمیر میں ہمیشہ سے اسلام کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ رہی ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ یہاں اسلام ‘بابا نورالدین رشی اور شاہ علی ہمدانی کی تعلیمات اور روحانی قوتوں اور ان کے حسن اخلاق سے فروغ پایا۔ جن کی روحانی تعلیمات کے ہر مذہب کے لوگ اسیر رہے۔ بابا نورالدین رشی کشمیر کے لوگوں میں محبت‘ پیار‘ یکجہتی‘ اتحاد و اتفاق کی مثال رہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کے مجموعہ کلام ''نور نامہ‘‘ اور ''رشی نامہ‘‘ کشمیریوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہیں اور آج بھی انہیں‘ لوگ عقیدت و احترام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح بلھے شاہ کو بھی عقیدت و احترام کے ساتھ لوگ اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ شاہ علی ہمدانی کی روحانی تعلیم کا ہی یہ فیض تھا کہ اس سے متاثر ہو کر ایک زمانے میں یہاں کے بدھ راجہ رنچن نے مذہب اسلام قبول کیا تھا اور یہی راجہ رنچن‘ سلطان صدرالدین بن کر کشمیر کا پہلا مسلم حکمران بنا تھا۔
یہاں تک کہ 1948ء میںپاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی نوبت آ گئی۔ لیکن یکم جنوری 1949ء کو سلامتی کونسل نے اس معاملے میں مداخلت کی اور منظور شدہ قرارداد کے تحت ہندوستان کو کشمیر سے افواج کے اخراج کے ساتھ ساتھ جلد رائے شماری کی تجویز دی۔ اس وقت ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے رائے شماری کا وعدہ کر لیا تھا جو کہ پورا نہیں ہوا اور ادھر پاکستان نے ہندوستان سے آزاد کرائے گئے علاقوں میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کر دی۔ اس دوران 1960ء میں یہ بھی ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ستلج‘ بیاس اور راوی دریائوں سے پاکستان دستبردار ہو گیا۔ پھر بھی کشمیر کا تنازعہ بڑھتا ہی گیا۔ یہاں تک کہ 1965ء میں دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ گئی جس میں بہت ساری انسانی جانیں تلف ہوئیں پھر بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکا۔
مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر جیسی خوبصورت سرزمین کے کسی بھی علاقے سے کوئی بھی فریق دستبردار نہیں ہونا چاہتا‘ جس کے باعث یہ وادی کشمیر جنت کے نظارہ کی بجائے جہنم کا نمونہ بنتی جا رہی ہے۔ یہاں کے سیاسی عدم استحکام‘ آئے دن فوجی مداخلت اور ان کی آمریت نے امن و امان قائم کرنے کی بجائے دہشت گردی کو بڑھا دیا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے ساتھ ظلم و تشدد سے بھرا سلوک خاص طور پر یہاں کے نوجوانوں کو بات بات پر گولیوں سے ہلاک کرنا اوران کے ساتھ نازیبا سلوک نے لوگوں کو زیادہ مشتعل کیا ہے۔ ان کی بنیادی ضرورتوں اور حقوق کو سلب کیا جانا‘ غربت‘ بیروزگاری‘ ناخواندگی‘ بجلی کے بحران وغیرہ سے مقبوضہ کشمیر کے لوگ پریشان ہیں اور ان مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ ان کے دکھ درد‘ کرب اور گھٹن سے بے پروا سیاسی رہنما اپنی اپنی سیاست کی بساط پر شہ اور مات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ گزشتہ سال ایک نوجوان برہان الدین وانی کو سکیورٹی فورس کے ذریعہ گولی مارنے جانے کے بعد کشمیر سلگ اٹھا اور مہینوں کرفیو لگانے کی نوبت آئی اور نہ جانے پرتشدد واقعات میں کتنے معصوم اور بے گناہ شہید ہو گئے؟ لیکن مقبوضہ کشمیر کی موجودہ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہاں کے لوگوں پر جس طرح ظلم و بربریت کا مظاہرہ ہو رہا ہے‘ اس سے یقینی طور پر حیوانیت بھی پناہ مانگ رہی ہے۔ اسی طرح کا ایک سانحہ2010ء میں بھی سامنے آیا تھا کہ ایک مقامی نوجوان کو جعلی مقابلے میں سیکورٹی فورسز نے گولی کا نشانہ بنایا تھا اور جس کی شہادت کے بعد احتجاج میں ہزاروں نوجوان سڑکوں پر اتر آئے اور پرتشدد مظاہرہ کرتے ہوئے کئی سرکاری دفاتر اور ریلوے اسٹیشنوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے واقعات نہ دہرائے جائیں۔ کشمیر کے مسئلہ کو کشمیریوں کے ساتھ مل کر‘ انہیں اعتماد میں لے کر مناسب اور باوقار طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی کشمیری نوجوانوں کے ساتھ مخلصانہ اور ہمدردانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ آئے دن ہونے والے ان ہنگاموں میں ان کا مستقبل جس طرح تباہ و برباد ہو رہا ہے‘ وہ وقت گزر جانے کے بعد واپس نہیں آئے گا۔ان کی بنیادی ضرورتوں کو ہر ممکن طریقے سے پورا کرنے کی عملی کوشش ہو۔ اس لئے کہ ان کی زندگی کے کچھ خواب ہوں گے۔ انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے نہ چھوڑا جائے۔ کسی بھی قوم کو یہ بات کیسے گوارا ہو سکتی ہے کہ ان کا بھائی‘ ان کی بہنیں ‘ملک کے طول و عرض میں پھیل کر مختلف گھروں کے دروازے پر پہنچ کر‘ انصاف اور امن کے مطالبات کریں۔ ہر حساس شخص کی نظر اس وقت شرم سے جھک جاتی ہے‘ جب کشمیر کے جوان کام کی تلاش میں بھٹکتے نظر آتے ہیں۔