"NNC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کا امریکہ

امریکی عوام نے جس انسانی جذبے اور اعلیٰ اقدار کے تحت مسلمانوں پر پابندیوں کے خلاف مزاحمت کی ہے‘ اس پر ان کی تعریف لازم ہو جاتی ہے۔ مستقبل قریب میں ہی مسٹر ٹرمپ کے جلد بازی میں کئے ہوئے فیصلے‘ امن و انصاف کی اعلیٰ تر اقدار کے مطابق ہو جائیں گے۔ امریکی قوم اپنی اس جدوجہد پر فخر کیا کرے گی‘ جس کی وہ بجا طور پر حق دار ہے۔
''جس دن سے مسٹر ٹرمپ نے امریکی عہدہ صدارت سنبھالا ہے‘ ان کے بدبختانہ احکامات‘ متکبرانہ فیصلوں‘ احمقانہ بیانات‘ خطرناک عزائم‘ پریشان کن ارادوں اور فسادی انداز نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ خود امریکی عوام بھی شدید خوف‘ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں یہ محسوس کر رہے ہیں کہ امریکہ فرسٹ‘ ہائر امریکن‘ بائی امریکن‘ میکسیکو دیوار‘ ایچ ون بی ویزا اصلاحات جیسے نعروں‘ ارادوں اور اظہار بیان کے ساتھ بظاہر امریکہ اور امریکیوں کے مفادات میں اس نادان دوست کے فیصلے‘ دنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ امریکہ کے رشتوں کو تباہ و برباد اور قریبی اتحادی ممالک کے ساتھ ملک کے دوستانہ تعلقات کو بدترین نوعیت کی دشمنی میں تبدیل کر دیں گے۔ اور صرف یہی نہیں‘ اس بات کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مسٹر ٹرمپ کے فیصلے امریکہ اور امریکیوں کو دہشت گردانہ خطرات سے بھی دوچار کر سکتے ہیں کیونکہ جب کوئی پوری دنیا کو اپنا دشمن بنانے پر آمادہ ہو تو خود چین سے بیٹھنے کی آرزو کیسے کر سکتا ہے؟ مسٹر ٹرمپ کے بارے میں اب تک جو حقائق میڈیا کے توسط سے سامنے آئے ہیں اور صدارتی مہم کے دوران ان کی جانب سے جس نوعیت کے عزائم کا اظہار کیا گیا‘ اور مسندِ صدارت پر جلوہ 
افروز ہونے کے بعد چند دنوں میں ہی جو فیصلے کئے ہیں‘ ان کے بیانات اور احکامات سے ان کی خارجہ پالیسی اور عالم اسلام کے بارے میں ان کی پالیسی کے جو خد و خال نمایاں ہوتے ہیں‘ ان کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ کے دل و دماغ میں کسی بھی ملک‘ شخصیت‘ فرقہ اور نسل کے لئے تعظیم کا کوئی جذبہ موجود ہی نہیں‘ قطع نظر اس کے کہ ذمہ دار کون ہے؟ چین سے امریکہ کے تعلقات پہلے ہی خوشگوار نہیں‘ بلکہ معاندانہ چلے آ رہے ہیں اور اب جبکہ مسٹر ٹرمپ چین سے آزادانہ تجارت کے مخالف ہیں‘ اور چین سے جنوبی کوریا کی حفاظت کرنے کا اظہار کر رہے ہیں‘ چین سے تبت کی آزادی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرنے کا اعلان کر رہے ہیں‘ بحیرہ جنوبی چین میں عملداری کا دعویٰ کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے ٹکرائو میں مزید اضافہ ہو گا‘ جس کے خطرناک مضمرات دنیا کے سامنے آ سکتے ہیں۔
آسٹریلیا روایتی طور سے امریکہ کا پرانا اور قریبی حلیف ہے لیکن حال ہی میں مسٹر ٹرمپ اور آسٹریلوی وزیر اعظم کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کے دوران‘ جب وزیر اعظم نے آسٹریلیا سے ساڑھے بارہ ہزار پناہ گزین لینے سے متعلق اوباما انتظامیہ کے ساتھ ہوئے سمجھوتے کا ذکر کیا تو مسٹر ٹرمپ غصے میں لال پیلے ہو گئے اور تلخ کلامی پر اتر آئے۔ اس تلخی کی وجہ سے ظاہر ہے دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں میں تنائو آ گیا‘ جسے دور کرنے کے لئے اب امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں کو کافی مشقت کرنا پڑ رہی ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے اسی طرح میکسیکو‘ ایران‘ شمالی کوریا اور عمومی طور پر تمام مسلم ممالک اور مسلمانوں سے امریکہ کے رشتوں کو دشمنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس صورت حال نے امریکی عوام کو اندیشوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک معروف امریکی سیاسی تجزیہ کار‘ رابرٹ رائش نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں جو کہا ہے‘ وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکہ اس وقت کس مقام پر کھڑا ہے۔ مسٹر ٹرمپ جو کچھ کر رہے ہیں‘ اس سے امریکی عوم بری طرح خوف زدہ اور مایوس ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ رائش نے مسٹر ٹرمپ کے کارناموں کے نتیجے میں پیش آنے والے حالیہ تباہ کن واقعات کے لئے معذرت کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ''آسٹریلیا‘ یورپ‘ کینیڈا‘ جنوبی کوریا‘ نیوزی لینڈ‘ جاپان اور دیگر تمام ممالک میں بسنے والے میرے دوستوں کو ایک مختصر پیغام: ہمیں معلوم ہے کہ ہم لوگ اس وقت اس مسئلہ سے دوچار ہیں اسے (مسٹر ٹرمپ کو) وائٹ ہائوس میں نہیں ہونا چاہئے۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں‘ انہیں اس کے لئے مینڈیٹ نہیں ملا ہے۔ ان کے نظریات‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کے نظریات کی عکاسی نہیں کرتے۔ وہ 30 لاکھ ووٹوں سے ہار گئے تھے‘ روس نے مسٹر ٹرمپ کو منتخب کرایا ہے۔ آپ آگاہ رہیں کہ ہم وہ سب کچھ کریں گے‘ جو ممکن ہو گا‘‘۔ رائش کا یہ پوسٹ وائرل ہو گیا۔ لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس پیغام سے اتفاق کیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت مسٹر ٹرمپ سے بری طرح مایوس ہے۔ وہ اپنے ملک کو بہتر زمانوں میں واپس لانے کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ تارکین وطن کا ملک ہے۔ اسی لئے عظیم اور مضبوط ہے کیونکہ وہ تمام تارکین وطن کا خیرمقدم کرتا ہے‘ خواہ وہ اس کے دشمن ملکوں کے ہی کیوں نہ ہوں‘ لیکن مسٹر ٹرمپ نے صدر بنتے ہی کئی مسلم ممالک بشمول ایران‘ سوڈان‘ لبیا‘ صومالیہ‘ یمن اور عراق کے شہریوں کے لئے امریکہ کے دروازے بند کردیے۔ مسٹر ٹرمپ نے ان ملکوں کے تمام شہریوں کو دہشت گرد قرار دیا اور اسی لئے اپنے ملک اور عوام کو کسی بھی خطرے سے محفوظ رکھنے کیلئے ان ملکوں کے پناہ گزینوں کا امریکہ میں داخلہ ممنوع کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اقدام کرکے‘ جس کی اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا نے مذمت کی اور عدالتوں نے مسٹر ٹرمپ کو ایسا کرنے سے منع کر دیا ہے‘ امریکہ کو محفوظ بنایا یا اسے مزید خطرے سے دوچار کیا؟ اطلاعات ہیں کہ داعش نے مسٹر ٹرمپ کے اس اقدام کا اپنے حق میں استعمال شروع کر دیا ہے اور خود کش بمباروں کی تنظیم نے نئی بھرتی میں مزید اضافہ کر دیا ہے‘ یعنی مسٹر ٹرمپ کے اس اقدام سے دہشت گردی میں اضافے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں‘ اس کے ردعمل میں امریکہ پر حملے کر سکتی ہیں۔ بیرونی ممالک میں بھی امریکی شہریوں پر حملے ہو سکتے ہیں۔ کئی غیر ملکوں میں امریکی افواج متعین ہیں‘ ان پر بھی حملے کے اندیشوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو مسٹر ٹرمپ نے مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنے کا فرمان جاری کرکے داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو حیات نو بخش دی ہے۔
مسٹر ٹرمپ کے اس حکم نامے کے خلاف بیشتر امریکی عوام سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور انہوں نے احتجاج بھی شروع کر دیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں بھی احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں پندرہ لاکھ سے زائد شہریوں نے مسٹر ٹرمپ کے دورہ برطانیہ کی مخالفت کرتے ہوئے دستخطی مہم میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور شدید الفاظ میں امریکی صدر کے دورے کی مذمت کرتے ہوئے‘ اسے غیر قانونی اور پُرخطر قرار دیا ہے۔ جرات مند خاتون افسر کو‘ جنہوں نے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے مسٹر ٹرمپ کے اس فرمان کو رو بہ عمل لانے سے انکار کیا تھا‘ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کئی اہم محکموں کے افسران نے مسٹر ٹرمپ کے فیصلے کو امریکی اقدار کے منافی قرار دے کر اپنے استعفے پیش کر دیے ہیں۔ مختلف شعبہ حیات کی متعدد اہم شخصیات نے اس فیصلے کی ان الفاظ میں مذمت کی ہے‘ ''میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے‘ جب دیکھتا ہوں کہ مسٹر ٹرمپ‘ میر ے عظیم ملک‘ امریکہ کا صدر ہے‘‘۔
یہ ایسا موقع تھا کہ تمام اسلامی ممالک متحد ہو کر مسٹر ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کرتے کیونکہ آج ایران‘ سوڈان‘ شام‘ یمن‘ لبیا وار عراق کے عوام کا امریکہ میں داخلہ بند ہوا ہے تو کل کسی دوسرے مسلم ملک کی باری بھی آسکتی ہے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ اس موقع پر بھی اہم مسلم ممالک‘ جن میں کئی عرب ممالک سمیت پاکستان بھی شامل ہیں اور جو مسٹر ٹرمپ کی پابندی والے ممالک میں شامل نہیں تھے‘ امکانی خوف اور مصلحت کی وجہ سے اس فیصلے کو درست اور حق بجانب قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف مبارک باد کے مستحق ہیں امریکی عوام اور عدالتیں‘ جنہوں نے مسلمانوں پر پابندی کے خلاف عملی جدوجہد کی اور آخرکار عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مسٹر ٹرمپ کے اس حکم نامہ پر پابندی لگ گئی جس کے تحت انہوں نے مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ ممنوع قرار دیا تھا‘‘۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں