سیہون شریف میں لال شہباز قلندر کی درگاہ نہ کسی ایک مذہب کے لئے مقدس مقام ہے‘ نہ کسی فرقے کا مرکز عقیدت اور نہ ہی کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی عبادت گاہ۔یہ ہر مذہب اور ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی درگاہ ہے۔ یہاں اظہار عقیدت کے لئے آنے والوں میں کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ یہاں ہندو بھی اتنی ہی عقیدت اور احترام کے ساتھ حاضری دیتے ہیں‘ جتنا کہ مسلمان اور مسلمانوں میں بھی ہر فرقے اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند مزار پر پہنچتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملکوں بھارت اور افغانستان کے شہری بھی ایک جیسی عقیدت اور احترام کے ساتھ یہاں کے سالانہ عرس میں شریک ہوتے ہیں۔ جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے‘ وہ لال شہبازقلندر کی درگاہ پر نچھاور کر دیتا ہے۔ یہاں پر مردوزن کی تمیز بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی آرزو اور تمنا لے کر یہاں حاضری دیتا ہے اور سکون قلب و جاں حاصل کر کے‘ گھر واپس لوٹ جاتا ہے۔ ہر کوئی حیران ہے کہ تمام مذاہب کا مرکز عقیدت‘ کن درندوں کی دہشت و بربریت کا نشانہ بن گیا؟ بدبخت قاتلوں نے دردِ دل رکھنے والے انسانوں کا مذبح بنانے کے لئے کیسے روح پرور مقامات کا انتخاب کیا؟ یہ وہ مقامات ہیں جہاں مذاہب اور فرقوں کی تقسیم ختم ہو جاتی ہے۔ محبت اور عقیدت کا ایک لافانی رشتہ ہے‘ جو مختلف ملکوں سے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹتا ہے اور ان کی روحیں ‘ نور عقیدت میں غسل کر کے واپس اپنی اپنی بستیوں میں چلی جاتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان‘ دہشت گردوں کا نشانہ کیوں بن گیا ہے؟ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں اس عتاب الٰہی کا ذمہ دار صرف ایک شخص کو قرار دیتا ہوں‘ جس کا نام جنرل ضیاالحق ہے۔ یہی وہ شخص تھا‘ جس نے افغانستان کے پھڈے میں ٹانگ اڑائی۔ وہاں پر مقامی لوگ‘ حکومتی تبدیلیاں لا رہے تھے۔ یہ
عوام کا حق ہوتا کہ وہ اپنے ملک میں جیسی تبدیلی چاہیں‘ لے آئیں۔ پاکستان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن وہاں تو کھیل ہی دوسرا چل رہا تھا۔ امریکی‘ افغانستان میں روسیوں کو گھسیٹ لانے کے خواہش مند تھے۔ ان کی یہ خواہش پوری کرنے کے لئے ضیاالحق نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ دنیا بھر اور پاکستان کے دہشت گردوں کو متحرک کر کے‘ امریکی پیسے اور ہتھیاروں سے لادا گیا۔ انہیں افغان حکومتوں کو زک پہنچانے پر مامور کیا گیا۔ ظاہر ہے‘ نہتے سیاسی کارکن‘ مسلح گوریلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی مدد کے لئے روسی فوجوں کو بھیجا گیا۔ جبکہ امریکہ نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ بے پناہ اسلحے اور پیسوں سے ‘ دہشت گردوں کی جھولیاں بھر دیں۔ افغان حریت پسندوں اور بیرونی دہشت گردوں نے یکجا ہو کر روسی افواج کو زک پہنچانا شروع کی اور یہ جنگ پھیلتی چلی گئی۔ روس محض مقامی دوستوں کی مدد کے لئے آیا تھا۔ لیکن امریکیوں نے اسے حملہ آور کا نام دے کر‘ بیرونی جارحیت کا شور مچا دیا۔ غیرتربیت یافتہ سیاسی کارکن‘ بیرونی افواج کے کندھوں سے کندھا ملا کر لڑنے کے اہل نہیں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روسی افواج‘ امریکہ کے تربیت یافتہ گوریلوں سے لڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ جب گورباچوف برسراقتدار آئے‘ تو انہوں نے یکطرفہ طور پر اپنی افواج کو اس بے معنی جنگ سے نکال لے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ روسی افواج تیز رفتاری سے واپس چلی گئیں اور گوریلا فورسز آپس میں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو گئیں۔ روسی افواج سے حساب چکانے کے لئے آئی ہوئی امریکہ اور اس کے حواریوں کی فوجیں‘ افغان خانہ جنگی میں شریک ہو گئیں۔ یہ جنگ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ امریکی فوجیں آج بھی افغانستان میں سرگرم عمل ہیں۔ ادھر بھارت اپنے دیرینہ مذموم عزائم کے ساتھ‘ افغانستان کے میدان جنگ میں آ کودا۔ اس نے اپنے فوجی دستے تو نہیں بھیجے۔ لیکن تخریب کار بڑی تعداد میں اس بدنصیب ملک کے اندر داخل کر دیئے۔ ظاہر ہے‘ بھارتیوں کا نشانہ پاکستان تھا۔ جسے وہ نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پاکستان کے ساتھ طویل سرحدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت ‘افغانستان کے راستے اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کوپاکستان میں داخل کرنے لگا۔ ہمارا دیرینہ دشمن اور عیار پڑوسی‘ مستقل طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ ہندو مہاسبھا کے انتقامی روپ میں بی جے پی مختلف بہانوں سے پاکستان اور بھارت کے تمام شہریوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ متعصب ہندو لیڈروں اور کارکنوں نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ پاکستان ابھی تک اپنی طاقت کے مطابق جوابی کارروائی سے گریز کر رہا ہے۔ جبکہ بھارت جارحانہ عزائم پورے کرنے کے لئے ہر بہانے سے موقع پیدا کرتا ہے۔ بھارت کے اندر محصور کشمیری مسلمان اپنی آزادی کے لئے مسلسل خون بہا رہے ہیں۔ لیکن بے رحم بھارتی فوجیں ‘ ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھا رہی ہیں۔ بھارتی فوجی کسی جنگی اصول کی پابندی نہیں کرتے۔ نہتے بچوں اور عورتوں پر وحشیانہ حملے کرنا‘ بھارتی فوجیوں کا معمول بنتا جا رہاہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے پیلٹ گن کا استعمال کر کے‘ انسانوں کو اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ وہ گن ہے‘ جس کے ذریعے تپتے ہوئے لوہے کے ٹکڑے انسانی جسموں میں داخل کر دیئے جاتے ہیں۔ زیادہ نشانہ انسانی چہروں اور آنکھوں کو بنایا جاتا ہے۔ مگر نوعمر لڑکے اور عورتیںاس عذاب ناک زندگی کا مقابلہ کرتے ہوئے جہاد کے عزم و ارادے پر قائم ہیں اور جو‘ جس حالت میں بھی ہے‘ بھارتی فوجیوں کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آتا۔ ہمت و حوصلے کے اس دلیرانہ رویئے نے بھارتی فوجیوں کے حوصلے توڑ رکھے ہیں۔ حافظ سعید نے آج تک نہ تو پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی کارروائی کی اور نہ ہی بھارت کے سوا کسی دوسرے ملک کا رخ کیا۔ لیکن بھارت کی ہمدردی میں امریکہ بھی حافظ سعید کا دشمن بنا ہوا ہے۔ امریکی دبائو پر اقوام متحدہ نے بھی حافظ سعید کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے رکھا ہے اور بھارت اور امریکہ کے مشترکہ دبائو میں آ کر‘ پاکستان کی حکومت نے حافظ سعید کے خلاف اقدام کرتے ہوئے انہیں نظربند کر دیا ہے۔ حالانکہ حافظ صاحب‘ مظلوموں اور بھارتی ظلم و جبر کے شکار نہتے مسلمانوں کے لئے ہر ممکن امداد کرتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے بھارت بے حد تکلیف میں ہے۔ مگر اس کا بس نہیں چلتا کہ پاکستانی عوام کی ہمدردیوں کے سہارے سرگرم‘ حافظ سعید کے مجاہدوں کو کیسے شکست دے؟ حافظ سعید کی گرفتاری پر پاکستانی اور خصوصاً کشمیری عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر حافظ سعید کی تنظیم ایک فلاحی ادارہ ہے‘ جو نہ صرف آفت زدگان کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے بلکہ بھارت کے مقبوضہ علاقوں میں ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے ہرممکن طریقے سے حوصلے بڑھاتا ہے۔ حافظ سعید کے رضاکاروں نے پاکستان میں گزشتہ زلزلہ زدگان کی جس طرح مدد کی‘ اسے متاثرین کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے۔
وائس آف جرمنی کاکہنا ہے کہ افغانستان میں محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے ہوئے دہشت گرد‘ پاکستان میں تباہ کن حملوں کی کارروائیاں منظم کرتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسند‘ افغانستان کے صوبوں کنڑ‘ ننگر ہار اور دوسرے علاقوں میں بیٹھ کر ‘پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ملا فضل اللہ اور جماعت الاحرار کے انتہاپسندوں کو جس نے پناہ دے رکھی ہے‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لاہور کے لئے بھی دہشت گرد افغانستان سے بھیجے گئے۔ افغانستان میں ''را‘‘ کی موجودگی اور افغان سراغ رساں اداروں کے مابین کلیدی روابط ہیں۔ پاکستان دشمن شدت پسند عناصر کی پشت پناہی وہ عوامل ہیں ‘جو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ کابل حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔ اگر ان عناصر کی اسی طرح مدد اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی‘ توپاکستانی عوام اپنی فیصلہ کن طاقت کا آخری اقدام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ مناسب یہ ہو گا کہ ہم ‘ بے گناہ پاکستانی عوام کے مسلسل قتل عام کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر جائیں اور اقوام عالم کو مطلع کریں کہ ہم پاکستان میں کروڑوں کی آبادی کامسلسل قتل عام برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ایک نہ ایک دن ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے گا ۔ہم خود تو مر ہی رہے ہیں‘ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو تباہ و برباد کرنے کی صلاحیتیںاستعمال کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ کوئی قوم خاموش رہ کر تباہ نہیں ہو سکتی۔ مسلسل زخم لگنے کا نتیجہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔بھارت کوایٹمی قوت کا استعمال امن کے استحکام کے لئے سیکھنا ہو گا۔ روس اور امریکہ کے مابین کتنے برسوں تک کشیدگی برقرار رہی؟ لیکن دونوں نے صبر سے کام لیتے ہوئے اپنے عوام کو تباہ کاریوں سے بچائے رکھا اور اب توان دونوں ملکوں کے عوام ایٹمی خطرات سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ کیا بھارت اور پاکستان کے عوام امن سے فیض یاب نہیں ہو سکتے؟