"NNC" (space) message & send to 7575

اب اور نہیں

ہم کیڑے مکوڑوں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ ایک ان پڑھ اور جاہل انسان‘ جسے انسان کہنابھی انسانیت کی توہین ہے‘ اپنے جسم کو بارود میں لپیٹ کر کسی اجتماع میں داخل ہوتا ہے۔ جسم پر بندھے ہوئے بارود کودھماکے سے اڑاتا ہے اور ان گنت جیتے جاگتے انسانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے زخمی اور بے جان لاشوں میں بدل ڈالتا ہے۔ سارے تحفظات ارباب اقتدار کے لئے ہیں اور تمام عدم تحفظ عام شہریوں کے لئے ۔ دونوں میں فرق واضح ہے۔ حکمرانوں کے ایک فرد کی حفاظت پر 5ہزار سے زیادہ محافظ مامور ہیں۔ جبکہ 5ہزار شہریوں کے لئے ایک بھی سپاہی دستیاب نہیں۔ لال شہبازقلندر کی درگاہ میں 100 کے قریب زائرین کی شہادت کے بعد‘ پاک فوج کو فوری طور پر میدان میں اتارا گیا۔ کیا اس سے پہلے ہونے والی شہادتیں کم تھیں؟ پہلے والوں کی شہادتوں پر اتنے فیصلہ کن حملے کیوں نہیں کئے گئے؟ افغانستان کی دیدہ دلیریوں اور گستاخیوں میں کسی بھی لمحے کمی نہیں آئی۔ وہاں کی حکومت کی سرپرستی میں پاکستانیوں پر وقفے وقفے سے حملے کئے جا رہے ہیں۔ آج پہلا موقع نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو ایسے قاتلانہ حملوں کی خبر ہوئی۔ یہ مدتوں سے ہو رہا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار اچھی طرح جانتے ہیں۔ فرق یہ تھا کہ حکمران‘ بڑی طاقتوں سے خوفزدہ تھے۔ خصوصاً امریکہ اور بھارت کے ساتھ پنجہ آزمائی سے ڈرتے رہے۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں‘ مودی کی نازبرداری کے لئے کیا کچھ کیا جاتا رہا؟ بھارت کا ایک اعلیٰ افسر پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے لئے برسوں سرگرم رہا۔ جب پاکستان کے فرض شناس اہلکاروں نے اس شخص کو گرفتار کیا‘ تو ہماری حکومت نے آج تک باضابطہ طور پر اس کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ واضح ہے کہ ہمارے حکمران ‘بھارت سے خائف رہے اور ابھی تک ہیں۔ ورنہ اس ادنیٰ بھارتی کارندے کی کیا مجال تھی کہ وہ ہمارے ملک اور ایران میں بیٹھ کر‘ ہمارے خلاف سازشیں کرتا رہا اور اسے گرفت میں لانے کے بعد ‘ہم چپ سادھ کے بیٹھ گئے‘جیسے کچھ ہوا ہی نہیں؟ ہمارا طرز عمل یہی رہا‘ تو دشمن نڈر ہو کر ہمارے شہریوں اور محافظوں کا خون بہاتا رہے گا اور ہم بھارت اور افغانستان کی یکطرفہ کارروائیوں کو خاموشی سے برداشت کرتے رہیں گے۔ دشمن ہمارے شہریوں اور مجاہدوں کا خون بہاتا رہے اور ہم ان کے جنازے اٹھاتے رہیں۔ 
جماعت الاحرار نے سب سے پہلے اسلام آباد کی کچہری میں واردات کی تھی۔ اس کے بعد اس گروہ کے حوصلے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی واردات کر کے یہ گروہ کبھی خاموشی سے نہیں بیٹھا۔ہماری فوج اور عوام کے خلاف قاتلانہ وارداتیں کرتا رہا۔ تازہ وارداتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی خونخواری میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 
بی بی سی کے ایک تازہ ڈسپیچ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں شدت پسندی کی نئی لہر نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور عوام ایک بار پھر سے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ماہرین کے مطابق دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کی سنگینی اور عوام کے دباؤ کی وجہ سے‘ ملک کی فوجی قیادت کو غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے افغان حکام کو جی ایچ کیو طلب کرنا پڑا۔ افغانستان سے متعلق فوج کو معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لینے پر تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا ہے کہ حالیہ واقعات کی وجہ سے ملکی اسٹیبلشمنٹ پر خاصی تنقید شروع ہو گئی تھی اور اس وجہ سے پالیسی مرتب کرنے والوں کی رائے پر افغان حکام کو طلب کیا گیا۔انہوںنے کہا کہ اس کا پس منظر یہ بھی ہے کہ حالیہ واقعات میں ملوث تنظیم کے بارے میں عوام کو بتایا گیا تھا کہ ان کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں۔تاہم ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق فوج نے یہ قدم اس وجہ سے بھی اٹھایا کیونکہ ''میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بالخصوص انڈیا، کشمیر، شدت پسندی اور افغانستان کے معاملات پر فیصلہ سول حکومت نہیں کرتی بلکہ یہ فوج کے ہاتھ میں ہیں۔‘‘اس رائے سے کسی حد تک تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی روایت پہلے بھی موجود ہے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے جب افغان صدر بھی پاکستان آئے تو پہلے جی ایچ کیو گئے۔ انہوںنے مزید کہا کہ اس کے علاوہ فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف بھی افغان حکام کے ساتھ براہ راست رابطوں میں تھے جبکہ موجودہ آرمی چیف کی بھی افغان صدر سے بات ہوئی ہے۔''ایک سطح پر جہاں دفتر خارجہ کے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم ہیں تو جی ایچ کیو کے ذریعے بھی افغانستان سے روابط ہیں جبکہ افغان طالبان کے ساتھ بات چیت میں بھی جی ایچ کیو کا کردار رہا ہے۔‘‘افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند کے مطابق حالیہ واقعات میں بڑا جانی نقصان ہونے کے بعد صورتحال سنگین ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اداروں کی پریشانیوں میں اضافہ اور ان پر دباؤ پڑا ہے۔انہوںنے کہا ہے کہ اسی وجہ سے افغان حکام کو جی ایچ کیو طلب کرنا پڑا تاکہ ان کو بتایا جائے کہ ان کی سرزمین پر موجود شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا وقت آ گیا ہے جو پاکستان کے اندر کارروائیاں کرتے ہیں۔رستم شاہ کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاقے میں در پردہ جنگ میں شدت آ رہی ہے لیکن اس کے ساتھ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں حکام کو پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا جس میں اداروں کو بہتر کرنا، شدت پسندی کے خلاف زیادہ بہتر مصنوبہ بندی اور اس کے ساتھ ذمہ دار حکام کو جواب دہ بنانا ہو گا۔پاکستان پر اچھے اور برے طالبان میں تمیز کرنے کے الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ' 'اب پاکستان میں اس بیانیئے کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ اچھے اور برے طالبان کا دور ختم ہو چکا ہے۔''اب ہر وہ شخص جو ریاست کے خلاف بندوق اٹھائے اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے اور اس میں چاہیے اگر کوئی افغانستان میں یا پاکستان میں دہشت گرد ہے تو اسے دہشت گرد ہی سمجھا جائے اور وہ ہمارا دوست نہیں ہو سکتا کیونکہ ریاستوں کے دوست دہشت گرد بننا شروع ہو جائیں تو وہ ریاستیں بھی اقوام متحدہ کے مطابق دہشت گرد تصور کی جاتی ہیں۔‘‘انہوںنے اس بارے میں مزید کہا کہ' 'چونکہ افغانستان مستحکم ملک نہیں اور پاکستان مستحکم ملک ہے تو اس وجہ سے پاکستان کو ہی قدم اٹھانا ہو گا اور ہمیں دہشت گردی کے معاملے میں مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا اور اس پر افغانستان سے معاملات طے کرنے ہوں گے۔‘‘
پاکستان کے صوبے سندھ کے شہر سیہون میں لال شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد سرکاری رد عمل سے ابہام کاایک انتہائی اہم پہلو سامنے آیا ہے۔اس جان لیوا حملے کی ذمہ داری خود کو دولتِ اسلامیہ کہلوانے والی شدت پسند تنظیم نے قبول کی ہے لیکن افغانستان سے سرکاری سطح پر کارروائی کا مطالبہ صرف جماعت الاحرار کے بارے میں کیا گیا ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سرکاری مشینری ‘شدت پسندوں کی جانب سے اتنے شدید حملوں کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ ان کے خیال میں آپریشن ضرب عضب نے شدت پسندوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور وہ پچھلے برس کی طرح ِاکا دکا حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔حکام سمجھتے ہیں کہ انہیںبھی غیرمعمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جی ایچ کیو میں افغان حکام کی طلبی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔جماعت الاحرار نے یقیناً لال شہباز قلندر کی درگاہ پر ہونے والے خود کش دھماکے سے قبل کئی حملوں جیسے کہ لاہور کی مال روڈ پر، بلوچستان میں آواران کے فوجیوں، پشاور میں ججوں کی وین پر اور تین فوجیوں کی بارودی سرنگ کے دھماکے کی
ذمہ داریاں اپنے سر لی ہیں۔تاہم اس ہفتے کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے اپنی نئی خبر رساں ایجنسی ''عماق ‘‘کے ذریعے جاری کی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا جماعت الاحراراس حملے پر خاموش ہیں۔ادھر پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے افغانستان میں قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے ساتھ فون پر گفتگو میں انہیںبتایا کہ تشدد کے حالیہ واقعات میں جماعت الاحرار ملوث ہے اور افغانستان سے مسلسل کارروائیاں کر رہی ہے۔اس گفتگو کے حوالے سے جاری کئے جانے والے بیان میں نہ تو کالعدم تحریک طالبان اور نہ ہی دولت اسلامیہ کا ذکر شامل ہے۔ اس کی وجہ یا تو حکومت پاکستان‘ دولت اسلامیہ کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتی یا پھر سرتاج عزیز نے اس فون کال کی تیاری سیہون کے واقعے سے قبل کی تھی۔سرتاج عزیز کو اگر بات کرنی تھی تو مجموعی بات کرنے چاہیے تھی۔ ایک گروپ سے افغانستان میں نمٹنے سے کیا یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟جماعت الاحرارنے اپنی کارروائی سے متعلق جو ویڈیو جاری کی اس میں تنظیم کے امیر خالد خراسانی دیگر شدت پسند تنظیموں سے اتحاد اور اتفاق کی اپیل کرتے ہیں۔ ان کے بقول 'اگر کوئی بچہ بھی اس نئے اتحاد کی قیادت سنبھالتا ہے تو وہ اس کے زیر انتظام کام کرنے کو تیار ہیں‘۔اس اپیل پر دیگر تنظیموں کا تو ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن ماضی میں یہ تنظیمیں ایک دوسرے کا حصہ رہی ہیں۔ نظریاتی طور پر سب تقریباً ایک ہیں لیکن آپریشن کی حد تک الگ الگ ہیں۔ دولت اسلامیہ میں بھی تحریک طالبان کے ناراض لوگ چلے گئے تھے اور جماعت الاحرار بھی اتحاد کے بعد الگ ہوئی۔مبصرین کے خیال میں پاکستان میں دولت اسلامیہ کے دیگر تنظیموں کے ساتھ اتحاد کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستانی شدت پسندوں کے لیے اتحاد ضرب عضب سے نمٹنے میں مدد دے سکتا ہے۔جماعت الاحرارنے اپنے بیان میں عوامی مقامات پر حملے نہ کرنے کی بات کی ہے لہٰذا ایسے مقامات پر حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ باآسانی اپنے سر لے سکتی ہے۔ تاہم اب سب سے بڑا سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اب ایسا کیا ہوا کہ یہ تنظیمیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ تشدد کا سلسلہ کم یا زیادہ تو چلا آ رہا ہے لیکن اس میں تیزی کی بڑی وجہ یہی سمجھ میں آ رہی ہے کہ شاید شدت پسند پاکستان فوجی کی کمان میں تبدیلی کے بعد نئی قیادت کو ٹیسٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔
انگریزی میں لکھنے والے اردو کے مقبول ترین کالم نویس ‘ایا ز امیر کی ''دنیا‘‘ میں آمد پر‘ ان کا دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کرتا ہوں۔ امید ہے وہ ''دنیا ‘‘میں دنیا لے آئیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں