یہ اس کتاب کا نام ہے‘ جسے عالمان دین ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ مگر خود وہاں کبھی نہیں جاتے۔ شاید چوری چھپے چلے جاتے ہوں۔ یہ میرا اندازہ ہے۔ مگر عموماً حقیقت ہوتی ہے۔ آپ نے ایک دیرینہ لطیفہ سنا ہو گا۔
''ابو آپ ایسے ہیں جیسے آپ مجھے ''اس بازار‘‘ کا راستہ دکھا رہے ہوں؟‘‘
''شیطان! تم نہیں جانتے اس بازار کا راستہ کیا ہے؟‘‘
''ابو! آپ نے سینیٹرمولانا حمد اللہ کا تازہ بیان پڑھا ہو گا۔ جس میں وہ باقاعدہ ہدایت فرماتے ہیں کہ پریانکا چوپڑہ یا کترینہ کیف کو ملنے کے لئے‘ بھارت جائیں۔ ویزا مل گیا۔ اب مولانا فضل الرحمن اعتراض نہیں کر سکیں گے اور حکومت پاکستان کی طرف سے ویزے کی درخواست مسترد کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔ ‘‘
مولانا حمد اللہ سے جو ہدایت ملی ہے‘ مجھ جیسے تمام گناہگاروں کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ مولانا کی ہدایت ہے کہ پریانکا چوپڑہ یا کترینہ کیف سے ملنے کا شوق ہے‘ تو بھارت جا کر ملیں۔ مجھ جیسے بڈھوں کاآخری راستہ یہی ہے۔ سرحد کے دوسری طرف مودی صاحب تیراور تلواریں ہاتھوں میں لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اپنی طرف سے ہماری طرف نہیں آنے دیتے۔ ان کے پاس ہے ہی کیا؟ کچھ دریا ہیں۔ جنہیں روکنے کی ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ان معاملات کو میں نہیں جانتا۔ مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ مودی جی‘ ہمارا پانی روکنے کی دھمکیاں‘ ہمیں دیتے رہتے ہیں۔ وہ پانی کیسے روکیں گے؟ میں نہیں جانتا۔ وہ خود بھی نہیں جانتے۔ شاید مودی صاحب کو معلوم نہیں کہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے اترنے والا پانی ‘ خدا نے صرف بھارت کے لئے نہیں رکھا تھا۔ ان علاقوں میں بنگلہ دیش بھی شامل تھا۔ پاکستان بھی تھا۔ جس کا نام آتے ہی‘ مودی صاحب کی سفید داڑھی میں سے ‘ بالوں کی خالی جگہ جھلکنے لگتی ہے۔
پاک بھارت تعلقات میں بہت سی مشکلیں ہیں۔ سب سے بڑی مشکل چین ہے۔ اگر بھارت کے سیاستدان اور مدبرین‘ تاریخ پر نظردوڑاتے‘ تو انہیں معلوم ہوتا کہ ہمالیہ کے پہاڑوں کا مالک صرف بھارت نہیں۔ حقیقت میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے آنے والے پانیوںکو ریسیو کرنے والے ان گنت علاقے ہیں۔ ان میں بنگلہ دیش بھی ہے۔ پاکستان بھی ہے۔بھارت کے ان گنت صوبے بھی ہیں اور ہم سب ہمالیہ کے پانیوں پر انحصار بھی کرتے ہیں۔ برہم پترا ‘ہمالیہ کی وہ دین ہے‘ جو برصغیر کو پانیوں سے سیراب کرتی ہے۔ یہ سیرابی ‘ ان پہاڑوں سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادیوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔ ہمالیہ نہیں پوچھتا‘ اس کے پانی کس کے لئے ہیں؟ اس کے دریا کس کے لئے ہیں؟ اس کی ندیاں کس کے لئے ہیں؟ ان بدمست ندیوں کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ انہیں کس طرف نکلنا ہے؟ کہاںکے کھیتوں کو سیراب کرنا ہے؟ کہاں کے کھیتوں کو خشک کرنا ہے؟ کن صحرائوں کو آباد اور کن صحرائوں کو سیراب کرنا ہے؟ خدا نے برصغیر میں پانیوں کی تقسیم ‘ انسانی بنیادوں پر کی ہے۔ خدا نے کسی کو پیاس نہیں دی۔ پانی بھی نہیں دیا۔ صرف انصاف دیا ہے۔ ہم برصغیر کے لوگ کتنے بدنصیب ہیں کہ ہمیں انصاف نہیں ملا؟
ہمیں ہندو مہاسبھا ملی۔ ہمیں راشٹریہ سیوک سنگھ ملی۔ مجھے تو ان انسانی بھیڑیوں کے خونیں عزائم کی جھلک بھی کہیں نظر نہیں آئی۔تمنا ہے کہ یہ لوگ انسانی زندگی گزارنا سیکھ لیں۔میں یہاں پاکستان میں رہ کر ملائوں کے تعصب کے سائے میں ‘ مودی کی سیاسی بصیرت کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مودی صاحب ایسا کیوں نہیں کرتے؟ مودی صاحب کو عجیب و غریب کاغذات آتے ہیں۔پاکستان کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ نہ بھارتی لیڈروں کو پتہ ہے کہ وہ ہمارا پانی روک سکتے ہیں۔ نہ بدقسمت پاکستان کی قیادت کو یہ خبر ہے کہ وہ ناجائز دولت سے برصغیر کا سیاسی مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوا کرتا۔ ایسا نہیں ہو گا۔ میرے دوست عطا الحق قاسمی‘ اپنی لفظی قلعہ بندیوںسے حیرت انگیز حفاظتی انتظامات کرتے ہیں۔میری دعا ہے کہ وہ کامیاب ہوں۔ وہ مجھے بہت پیارے ہیں۔ لیکن میں کیا کروں؟ جو اجازتیں ملا حمد اللہ نے‘ بھارتی حسینائوں کے پرستاروں کو دی ہیں‘ انہیں پڑھ کر تو میں خود‘ ملاحمداللہ کا پرستار بن گیا ہوں۔ اصولی طور پر جو بھارتی حسینائیں‘ حافظ حمداللہ صاحب نے ہم پاکستانیوں پر جائز قرار دی ہیں‘ مجھے اس پر اختلاف کی وجہ نظر نہیں آتی۔ صرف سینیٹر مولانا حمد اللہ ہی نہیں‘ مولانا فضل الرحمن بھی اس فتوے سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مولانا فضل الرحمن‘ ہندو حسینائوں کے ساتھ میل جول کا راز کھولیں‘ میں انہیں مشورہ دوں گا کہ از راہ کرم''شرعی‘‘ حجتوں کی مزاحمت کریں۔ انہیں پورا علم حاصل کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اگر شرعی مسائل کا لنگوٹ باندھ کر مولانا دنگل میں اتریں‘ تو ایک بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنگل ختم ہونے پر وہ ''انوکی‘‘ نہیں ہوں گے۔
بات ''اس بازارمیں‘‘ سے شروع ہوئی تھی۔ یہ وہ کتاب ہے‘ جسے پڑھنے سے میرے بزرگ روکا کرتے تھے۔ مگر مجھ میں کہاں عقل تھی؟ میرے دور کا کوئی بھی نوجوان ہو(میں اب نوجوان نہیں ہوں) ''اس بازار میں‘‘ جانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ کیسی قیامت ہے؟ میں نوجوانوں کو ان کی اس عمر میں فطرت کے خلاف قول و عمل کا راستہ دکھائوں۔ وجہ صاف ہے کہ میرا بڑھاپا‘ نوجوانوں کو راستہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ سچی بات ہے‘ مجھے راستہ معلوم ہو‘ تو خود میں اس پر کیوں نہ چلوں؟