پاناما لیکس کا مقدمہ اب اختتام کے قریب ہے۔ جیسے جیسے فیصلہ قریب آتا جا رہا ہے ‘ سارے فریقوں کی دھڑکنیں تیز اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ نظریں‘ عمران خان پر جا رہی ہیں کیونکہ اکثریت کا خیال یہ ہے کہ پانسہ انہی کے حق میں پلٹنے والا ہے۔ ابھی تک کسی نے یہ نہیں سوچا کہ وہ فیصلے کے قریب پہنچتے ہوئے‘ خطرے کے قریب بھی جا رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنی زندگی میں کبھی خطرات سے ڈرنا نہیں سیکھا۔ ا ب بھی جیسے جیسے سرکاری مشیروں کے لہجوں میں بڑھتی ہوئی تلخی میں شدت آرہی ہے ‘ ان کی امیدوں کی جھولیاں زیادہ پھیلنے لگی ہیں۔ ہر ایک کا خیال ہے کہ ا ن کی وفاداری زیادہ ثمرات لے کر آئے گی اور وہ دونوں ہاتھوں سے نوٹوں کے بنڈل سمیٹیں گے۔ میاں صاحب کی فیاضی او ر فراخ دلی کا ہر ایک کو تجربہ ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ سرکاری خزانہ ان کے کنٹرول میں ہو۔ عوامی دولت بانٹنا ہو تو میاں صاحب سے بڑھ کر کوئی فراخ دل اور سخی نہیں ہوتا۔ معاملہ اس وقت بگڑتا ہے‘ جب سرکاری خزانہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ جن لوگوں نے میاں صاحب کے ساتھ وفاداری بشرط استواری کا تعلق نبھایا ہے‘انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ مشکل کے دور میں جیسے بڑھ چڑھ کر وفاداریوں کے ثبوت دیں گے‘ ویسے ہی میاں صاحب کے دل میں ان کی قدرو قیمت بڑھتی رہے گی لیکن وصولی کا دور اس وقت آتا ہے جب سرکاری خزانہ میاں صاحب کے ہاتھ لگ جائے۔
اتفاق سے میں نے میاں صاحب کے مختلف ادوار دیکھ رکھے ہیں۔ان کے پرستاروں کی وفاداریوں کے انداز بھی پرکھے اور بے وفائی کے رنگ بھی دیکھے ہیں۔میاں صاحب جب آزمائش کے مراحل میں ہوں تو ان کے پرستار کوشش کرتے ہیں کہ دور دور رہ کر‘ رشتہ وفا قائم رکھا جائے۔ ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ فرصت کے اوقات میں میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر‘ ان کی مدح سرائی کرتے ہیں اور پھر اہل وفا کی استواری کا یقین دلاتے ہوئے بڑی محبت اور خلوص کے ساتھ رخصت ہو جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی میاں صاحب کا ہاتھ سرکاری خزانے کے قریب جاتا ہے‘ وہ اپنی قربتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور ان کی فراخ دلی سے فیض یاب ہونے کے لئے‘ اپنے گھر میں بڑے بڑے صندوق جمع کر کے رکھ لیتے ہیں۔ا نہیں خبر ہوتی ہے کہ جیسے ہی میاں صاحب کا ہاتھ سرکاری خزانے پر گیا‘ وارے نیارے ہو جائیں گے۔اور ہوتا بھی یہی ہے۔ادھر سرکاری خزانے پر میاں صاحب کے ہاتھ گیا اور ادھر اس کے گھر میں پڑے صندوق‘ دھڑا دھڑ بھرنے لگتے ہیں۔ ایسی فیاضی اور دریا دلی میں صرف آصف زرداری ہی میاں صاحب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے خوب رمز شناس ہیں۔ آصف زرداری دائو لگاتے ہیں تو میاں صاحب فوراً بھانپ لیتے ہیں کہ حریف نے کہاں استادی دکھائی؟ وہ اپنی باری زیادہ پھرتی اور کاری گری سے لیتے ہیں اور پلو بھی نہیں پکڑ ا تے ۔یہی حال آصف زرداری کا ہے۔ میاں صاحب کے دن بدلتے ہی زرداری صاحب بھی تاڑ لیتے ہیں کہ اب دھن دولت سمیٹنے کے راستے کدھر سے کھلیں گے ؟ دونوں کو اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ کس کی طرف کتنی دولت گئی ہے اور اس میں سے اپنا حصہ کیسے بٹورا جائے؟ پاکستان کی مختصر تاریخ میں کبھی ایسے دو حکمران ایک ساتھ میدان میں نہیں اترے ‘جیسے ان دونوں کی جوڑی ہے۔ایک اقتدار میں ہو تو دوسرا عیش کرتا ہے۔ اور دوسرا اقتدار میں ہو تو پہلے کی باری آجاتی ہے۔ایک زرداری تو دوسرے کی باری۔دونوں سیاسی طور پر ایک دوسرے کے مخالف اور مالی طور پر ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔میاں صاحب اپنے راز چھپا کے رکھتے ہیں جبکہ زرداری صاحب کھل کر بات کرتے ہیں۔بات ضرور کرتے ہیں مگر بھید نہیں کھولتے اور دائو بازی میں مات نہیں کھاتے۔
پاکستان پر اب تک جتنے بیرونی قرضے چڑھے ہیں‘ کوئی یہ راز نہیں بتا سکتا کہ کس کے حصے میں کیا کچھ گیا؟ لیکن ایک بات واضح ہے کہ زرداری صاحب نے کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی کہ وہ کتنے ''زردار‘‘ ہیں؟۔ جبکہ میاں صاحب نے سب کچھ چھپا کر رکھا لیکن راز نہیں رکھ پائے۔ایسی دولت کا کیا فائدہ ؟ جوہزاروں میل دور پڑی ہو۔ حسب
ضرورت قریب نہ آئے۔ لوگ میاں صاحب کو دولت سمیٹنے کا ماہر سمجھتے ہیں لیکن میں ان کے بچوں کوزیادہ سمجھدار قرار دیتا ہوں۔اس دولت کا کیا فائدہ؟ جو وقت پر کام نہ آئے۔ ایسی دولت آپ کے کس کام آئے گی؟ جودوسروں کے نام پر جمع ہو اور اب تو حالت یہ ہے کہ دونوں بیٹے ‘دولت پر دھڑلے سے اپنا اپنا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ میاں صاحب چاہیں بھی تو اس دولت کو اپنی ملکیت ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے اعلیٰ ترین سطح پر اس دولت سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کر رکھا ہے۔ایسی دولت کا کیا فائدہ ؟ جو بیٹوں کے پاس محفوظ پڑی ہو اور جب ضرورت پڑے تو میاں صاحب اپنے بیٹوں کی طرف دیکھیں اور بیٹے دوسری طرف دیکھ رہے ہوں۔
میاں صاحب کے واحد حریف ‘ عمران خان انتہائی پر خطر راستے پر چل رہے ہیں۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ‘ ان کے لئے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ خطرہ انہیں میاں صاحب سے نہیں ‘ ا ن کے پرستاروں سے ہے۔ میاں صاحب کے جتنے بھی پرستار ہیں‘ وہ لاہور کے کلچر میں پروان چڑھے ہیں۔ ان کی اکثریت ''پاجی حکم کرو تے تہاڈے تے جان وی وار دیاں گے۔ کہو گے تو عمران خان کے تیارشدہ سری پائے‘ دیگچے میںبھر کے آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔ آگے مزہ آئے نہ آئے آپ کے نصیب‘‘۔ مگر ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ سری پائے میاں صاحب کی پسندیدہ ڈش نہیں۔ ان کا شوق چھوٹے بھائی‘ میاں شہبازشریف کو ہے۔سری پائے میاں شہبازشریف کھاتے ہیں اورشہرت میاں نوازشریف کے حصے میں آتی ہے۔''چھوٹا موج اڑائے تے وڈا مہنے کھائے‘‘۔
میاں صاحب کے پرستار‘ عمران خان سے کچھ زیادہ ہی توقعات لگا بیٹھے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے ووٹ بینک پرعمران خان نے80فیصد قبضہ کر لیا ہے اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ووٹ بینک‘ مزید بڑھے گا۔حواریوں اور پرستاروں کا زور اداروں پر لگتا رہے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ میاں صاحب اور خان صاحب دولت مندی میں زیادہ مشہور نہیں۔ زیادہ دولت ہمیشہ خان صاحب کے گھر سے نکلتی ہے جبکہ میاں صاحب کی دولت‘ ان کے بچے ڈنکے کی چوٹ پر ہتھیا لیتے ہیں۔اب میں ایک دردناک راز کھولتا ہوں کہ میاں صاحب اور عمران خان کے جو حواری اور پرستا ر ‘ وفاداریوں کے معاملے میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں دینے اورلینے کے کھیل میں پڑتے ہیں ۔ دونوں کے پرستاروں کو مخالفین کے سر کاٹ لانے کا فائدہ نہیں ہوتا۔نہ تو میاںصاحب کو دشمنوں کی گردنیں کاٹنے کا شوق ہے اور نہ ہی عمران خان کو۔اس معاملے میں سب سے اچھے کھلاڑی‘ آصف زرداری ہیں۔تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔لیکن میاں صاحب کے کیمپ میں کرامات دکھانے والے کھلاڑی زیادہ ہیں۔ اندیشہ یہی ہے کہ میاں صاحب سے پوچھے یا اجازت لئے بغیر‘ واردات کر گزریں گے‘ جس کا الزام میاں صاحب پر آئے گا۔دوسری طرف عمران خان بھی نرم اور گداز قلب رکھتے ہیں۔وہ غصے میں آئیں تو زیادہ سے زیادہ نیانکاح کر سکتے ہیں‘ کسی کی جان نہیں لے سکتے۔ میں سوچتا ہوں کہ ان دونوں کے پرستار‘ جو اپنے اپنے پسندیدہ لیڈر کو دشمنوں کے سر کاٹ کر دینے کو بے تاب ہیں‘ یہ دونوں خود کسی کو جسمانی نقصان پہنچانے کے خواہش مند نہیں ہو سکتے۔اگر ان دونوں کو ایک دوسرے کی طبیعت اور مزاج کا پتہ چل جائے تو کسی کے پرستاروں میں یہ جرأت پیدا نہ ہو کہ وہ ایک کے دشمنوں کی گردنیں کاٹنے کے دعوے کرنا چھوڑ دیں۔دونوں لیڈر انسانیت کی اعلیٰ اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ سب کچھ کر سکتے ہیں مگر ایک دوسرے کی گردن کٹوانے کا تصور نہیں کر سکتے۔اگوں تیرے بھاگ لچھئے۔