جب کبھی پاکستان میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں‘ تو عوام دشمن قوتیں فوراً حرکت میں آجاتی ہیں اور پھر ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ وہ موقع جو عوام کی محرومیوں اور مجبوریوں کا خاتمہ کرنے کے لئے نمودار ہوتا نظر آتا ہے‘ اچانک بارود‘ دھوئیں اور انسانی خون میں ڈوب کر ہمیں‘ نئی محرومیوں کی عذاب ناک زندگی میں دھکیل کر اوجھل ہو جاتا ہے۔پاکستانی قوم کتنے عذاب ناک مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ موڑ تک آئی تھی؟ ایک ہی لمحے میںتاریخ کا رخ موڑ کے نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ہم حسرتوں اور آہوں میں ڈوبنا شروع ہو گئے۔خدا ہی جانتا ہے کہ ہماری تقدیر میں کیا لکھا ہے؟ ہم سے کون سے گناہ سرزد ہو گئے تھے کہ ہماری سرزمین پر امیدوں اور خوشیوں کے لمحات رخ پھیر لیتے ہیں ؟اور ہمیں ایک بار پھر طویل اذیت کے دور کی نذر ہونا پڑتا ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک میں ہمارے بزرگوں نے جن امیدوں اور تمنائوں کے ساتھ یہ سوچ کرسرگرمی سے حصہ لیا تھا کہ ہمیں اسلام کا منصفانہ اور عادلانہ نظام نصیب ہو جائے گا اور ہم علمائے کرام کی قیادت میں ایک منصفانہ اور صاف ستھرے نظام کو نافذ کر کے‘ اطمینان اور سکون کی زندگی گزاریں گے۔ کرپشن سے نجات مل جائے گی۔بے ایمانی اور مکاری کا ماحول ختم ہو جائے گا۔ ہمارا راستہ امن و آشتی کا راستہ ہو گا۔ ہم اس دنیا میں ایک اچھی اور صاف ستھری زندگی گزار کے‘ اپنی آخرت جنت میں گزارنے کی امیدیں لے کر موت کا خیر مقدم کیا کریں گے۔ ملاحضرات جن کی رہنمائی میں ہم پر امید تھے کہ پاک صاف‘ خوشی اور محبت کی زندگی گزارنا سیکھ جائیں گے‘ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ہم پر ایسے لوگ نازل ہوئے جنہوں نے ہمیں عام اور معمول کی صاف ستھری زندگی کے راستے سے ہٹا کر‘ گناہوں اور سیاہ کاریوں کے راستے پر ڈال دیا۔
وہ لوگ جو ہمیں دین داری کا راستہ دکھانے کے وعدے کیا کرتے تھے اور جن کی لمبی لمبی تقریریں‘ ہمیں ملائوں کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی ترغیب دیا کرتی تھیں‘ وہ دنیا کے بدترین نظام کی راہیں دکھانے لگے۔ ہم سادہ لوحی‘ نیک دلی اور ایمانداری کے راستے چھوڑ کر ایسی راہوں پر چل نکلے جو ہمارے پاکیزہ صفت اور نیک دل لوگوں کے بتائے ہوئے راستوںکی طرف نہیں جاتے تھے۔یہ گمراہی کے راستے ہم پر مسلط ہوتے گئے۔ ہمارے رہبروں نے ہمیں بھٹکا دیا۔ انہیں دولت اور دنیاوی آرام و آسائش نے للچا کر‘ اپنی طرف موڑ لیا اور انہوں نے ہمیں ظلم‘ گناہ‘ بدنیتی اورفریب کاری کی طرف یوں موڑا کہ ہم صحیح راستوں کو چھوڑتے ہوئے گناہوں کی دلکش وادیوں کی طرف رخ کرتے ہوئے ‘پر خطر زندگی کی طرف چل پڑے۔ہم سب مال ودولت کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو کرنے لگے۔حصولِ زر ہماری زندگی کا مقصد بن گیا۔ ہم نے اپنی قوم کو فراموش کر کے گمراہی کا راستہ اختیار کر لیا۔ ہم نیک دلی‘ انسان دوستی اور خوفِ خدا سے محروم ہوتے گئے۔ ہمارے تاجروں نے خوراک میں ملاوٹیں شروع کر دیں۔ انتہا یہ کہ ہمیں گدھوں‘ کتوں اور مردہ جانوروں کا گوشت کھلایا جانے لگا۔ حد یہ ہوئی کہ کچرے کے ڈھیروں پر پھینکی ہو ئی ضائع شدہ خوراک نئے لیبل لگا کر پھر سے فروخت ہونے لگی۔ہم حلال اور حرام کی پہچان سے محروم ہو گئے۔ خدا نے ہمارے رزق سے برکت چھین لی۔ اب ہم جو بھی کھاتے ہیں‘ وہ حلال بھی ہوتو حرام ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہترین منصف اور رہنما عطا فرمائے مگر ہم نے کفرانِ نعمت کرتے ہوئے‘ ان کی رہنمائی سے محروم ہونا پسند کیا۔منصفوں کو ڈرا دھمکا کر‘ بے راہ روی اختیار کرنے پر مجبور کیا اور انہیں دھمکیاں دیں کہ اگر انہوں نے ہماری بد کاریوں کی پردہ داری نہ کی تو ان پر بہت برا وقت آئے گا۔ان کی اولاد بھی سیدھے راستے پر چلنے سے ڈرنے لگی۔دنیاوی آرام و آسائش سب کی منزل ٹھہرے اور ہر کوئی اس دوڑ میں شامل ہو گیا جس پر چلتے ہوئے ہم زیادہ سے زیادہ آرام و آسودگی سے لطف اندوز ہوں۔ غریبوں کا حق چھین لیں۔ طاقتوروں میں شامل ہو کر کمزوروں کو مزید کمزور کردیا۔بیٹے باپ کو لوٹنے کی راہ پر چل نکلے اور باپ نے بیٹوں کا حق سلب کرنا شروع کیا۔ نیک بیویاں خداترسی کی را ہ چھوڑ کر‘ظلم اور بے راہ روی کے راستوں پر چل نکلیں۔ یہاں تک لکھتے ہوئے میرے دل میں کراہت پیدا ہونے لگی ہے۔ جن
زندگیوں کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ ان کے بارے میں سوچ کر بھی دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ کیا یہی وہ زندگی تھی جسے گزارنے کے ہمارے بزرگوں نے خواب دیکھے تھے؟ اور ہم نے ان کے حصول کے لئے تمام برے راستے اختیار کئے ۔ جو ناجائز تھا اسے جائز بنا لیا اور جائز سے منہ پھیر لئے۔ہم پر ایسے رہنما مسلط کئے جو ظلم و بربریت کا نمونہ تھے۔ ان کی رہنمائی میں چلتے ہوئے ہم اس بھیانک اور برائیوں سے بھری زندگی سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ہم بھول گئے کہ اچھائی کیا ہوتی ہے؟ شرافت کیاہوتی ہے؟ نیک دلی کیا ہوتی ہے؟ حد یہ ہے جب ہمیں کوئی نیک دلی کی راہ پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے تو ہم اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ہر وقت ہمیں صرف برائیوں اور گناہوں کی جستجو رہتی ہے۔ گندے گندے خیالات ذہن پر چھائے رہتے ہیں۔ایسی تحریریں لکھ کر میں کسی کو کیا راہ دکھائوں گا اور خود کیسے راستے پر چلوں گا؟ اس سے تو بہتر ہے کہ لکھنا ہی چھوڑ دوں مگر میں ایسا کر نہیں سکوں گا۔ گناہوں اور بد کاری کی زندگی ترک کرنا آسان نہیں ہوتا۔اے میرے خداوند کریم! مجھے راستی اور نیکی کی راہ پر چلنے کا حوصلہ اور ہمت عطا فرما۔ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں‘ اسے ترک کرنے کا حوصلہ دے۔اے خدا!مجھ پر رحم فرما۔مجھے بے راہ روی سے بچا کر‘اچھے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ میں اپنی موجودہ زندگی سے بے زار ہو چکا ہوں۔گناہوں سے آلودہ رہبروںکی تراشی ہوئی اس دنیا سے نکلنے کی ہمت عطا فرما۔میں ایسی دنیا سے نکل جانا چاہتا ہوں‘ جس میں منصفوں کی توہین اور بدکاروں کی مدح سرائی کی جاتی ہو۔