پاکستان میں قریباً ایک برس قبل پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام سامنے آئے اور اس وقت سے یہ معاملہ ملک کے سیاسی منظر نامے میں چھایا رہا۔پاناما لیکس پر حزب اختلاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ سامنے آیا لیکن انہوںنے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس وقت معذرت کر لی اور بعد میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تحقیقاتی کمیشن کے ضوابطِ کار کی تشکیل کے لئے بھی طویل نشستیں ہوئیں لیکن کوئی حل نہ نکل سکا۔ضوابطِ کار کا معاملہ کسی نتیجے پر نہ پہنچنے پر حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف سڑکوں پر نکل آئی اور دو نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کی کال سے پہلے پکڑ دھکڑ اور پرتشدد جھڑپوں کے دوران یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کر لیا۔
3 نومبر کو پاناما لیکس میں سامنے آنے والے الزامات کی باقاعدہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کا کسی جماعت کے ضوابطِ کار پر متفق ہونا ضروری نہیں جبکہ آئندہ سماعت میں یہ واضح کر دیا کہ فی الحال ان کی ترجیح وزیر اعظم کے خلاف الزامات کو ہی دیکھنا ہے اور متعلقہ شواہد کا جائزہ لینے کے بعد عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں۔
نومبر میں ہونے والی ابتدائی سماعتوں میں ایک بار جب بینچ نے وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ سے پوچھا کے ان کے موکل کے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں متعلقہ دستاویزات جمع نہیں کرائی گئیں تو انہوں نے کہا کہ مجوزہ کمیشن میں تمام دستاویزات فراہم کرائی جا سکتی ہیں۔ اس پر جسٹس آصف نے ریمارکس میں کہا کہ اگر آپ خدانخواستہ ایسا نہیں کر سکے تو مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے آپ کچھ چھپا رہے ہیں۔
15 نومبر کو سماعت نے ایک نیا موڑ لیا جس میں وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے قطر کے شاہی خاندان کے رکن حمد جاسم کی جانب سے پانچ نومبر کو تحریر کردہ ایک خط عدالت میں پیش کیا جس کے مطابق شریف خاندان نے 1980ء میں الثانی گروپ میں ریئل اسٹیٹ میں جو سرمایہ کاری کی تھی بعد میں اس سے لندن میں چار فلیٹ خریدے گئے تھے۔ججوں نے اس پر سوال اٹھانا شروع کر دئیے کہ آیا قطر کی یہ شخصیت بطور گواہ عدالت میں پیش ہو سکے گی؟ اس کے علاوہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خط پڑھتے ہی پوچھا کہ ''اس میں تو ساری سنی سنائی باتیں ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس کیا کچھ نہیں؟ آپ کا منی ٹریل کہاں ہے؟‘‘
ایک جانب تو وزیراعظم کے خاندان کی جانب سے عدالت میں قطری شیخ کا خط سامنے آیا تو دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے سینکڑوں دستاویزات عدالت میں جمع کرائی گئیں جس پر عدالت نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اخبار کے تراشے شواہد نہیں ہوتے۔سماعت کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یہ بیان بھی دیا کہ پاناما لیکس کے مقدمے میں سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی وہ اسے قبول کریں گے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ عدالت میں ثبوت پیش کرنا ان کا کام نہیں بلکہ ثبوت تو نواز شریف نے پیش کرنے ہیں۔اس بیان کو حکومتی حلقوں نے خوب اچھالا اور کہا ''ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کا کام صرف بے بنیاد الزامات لگانا ہے۔‘‘اسی وجہ سے ممکنہ طور پر 30 نومبر کی سماعت میں تحریکِ انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کے سامنے مریم نواز اور حسن نواز کے ٹی وی انٹرویوز کا حوالہ پیش کیا ،تو جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اخباری تراشوں کو لا کر سونے میں کھوٹ کیوں ڈال رہے ہیں؟ کچی دیواروں پر پیرنہ جمائیں۔نومبر کی آخری سماعت میں ایک نیا پہلو سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تحریری جواب اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں تقاریر میں تضاد ہے جبکہ اگلی سماعت میں عدالت نے وزیراعظم پر الزامات کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریروں کے دوران سچ سے کام نہیں لیا لہٰذا وہ آئین کے آرٹیکل 62/63 کی زد میں آسکتے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں وضاحت ضروری ہے۔
اگلے ہی دن وزیرِ اعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کی جانب سے اٹھائے گئِے سوالات کے جوابات دئیے جبکہ سماعت میں عدالت نے تحریک انصاف کی استدعا پر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پر مشاورت کے لئے وقت دیتے ہوئے سماعت نو دسمبر تک ملتوی کر دی۔لیکن عمران خان نے جو 19 نومبر کو اعلان کر چکے تھے کہ عدالت کے ہر فیصلے کا احترام کریں گے، کمیشن کی تشکیل کی تجویز کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔اس موقع پر ان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ اْن کے مؤکل تحقیقاتی کمیشن نہیں چاہتے اور اگر یہ کمیشن بنا تو تحریکِ انصاف اْس کا بائیکاٹ کرے گی۔تحریک انصاف کے اس جواب پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے دسمبر میں درخواستوں کی سماعت جنوری 2017 کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا کیونکہ 31 دسمبر کو اْن کی مدتِ ملازمت مکمل ہو رہی ہے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاناما لیکس کے مقدمات کی اب تک کی سماعت کو ''سنا ہوا مقدمہ‘‘ تصور نہ کیا جائے۔ اس التوا کے بعد تحریک انصاف جس نے ستمبر سے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر رکھا تھا، 14 دسمبر کو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کر کے ایوان میں آئی اور وزیراعظم کے خلاف نیا محاذ کھول لیا۔
یکم جنوری کو پاناما لیکس کا معاملہ نئے سال میں داخل ہوا اور سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کے لیے سینیئر جج آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ کیس کی ازسرنو سماعت سے ایک دن پہلے شریف خاندان نے اپنے وکلا بھی تبدیل کر دئیے۔
4جنوری کو سپریم کورٹ کے اندر سماعت اور باہر دوبارہ میلا سجا۔ نئے بینچ نے سماعت کے پہلے دن ایک تو یہ فیصلہ سنایا کہ اب مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا اور دوسرا اس نے وزیراعظم کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ قطری شہزادے کے خط کے بارے میں کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ کیا سعودی عرب یا دبئی سے قطر بھیجی گئی رقم پر پاکستان کے قوانین لاگو ہوتے ہیں یا نہیں۔
10 جنوری کی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ شریف برادران کی طرف سے منی لانڈرنگ سے متعلق ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرنے کے بارے میں قومی احتساب بیورو کو احکامات جاری کرنے کی استدعا پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ عدالت نہ کوئی ٹرائل کورٹ ہے اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ۔پرانے بینچ کی طرح 12 جنوری کی سماعت میں موجودہ بینچ کو کہنا پڑا کہ درخواست گزار اور وزیر اعظم کے وکیل سچ سامنے آنے نہیں دینا چاہتے جبکہ عوام سچ جاننا چاہتی ہے۔ 18جنوری کی سماعت میں عدالت نے پھر کہا کہ فریقین سچ کو سامنے آنے نہیں دینا چاہتے اور کوئی بھی دستاویزات عدالت کے سامنے پیش نہیں کی گئیں۔ اْنہوں نے کہا کہ عدالت میں اب تک پیش کی گئی دستاویزات کو سامنے رکھتے ہوئے سچ تک پہنچنا آسان نہیں۔
16جنوری کی سماعت میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ کہ قومی اسمبلی میں تقریر میں وزیر اعظم نے کوئی غلط بیانی نہیں کی تو پھر وہ اس بارے میں استثنیٰ کیوں مانگ رہے ہیں تاہم ایک دن کے بعد عدالت نے کہہ ہی دیا کہ وزیر اعظم کو وہ استثنیٰ حاصل نہیں ہے جو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر مملکت اور گورنر کو حاصل ہے۔شریف خاندان کے زیرِ استعمال پارک لین کے فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے۔استتثیٰ کے معاملے کے بعد وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے 18 جنوری کو عدالت کو بتایا گیا کہ کہ وزیر اعظم کے بیٹے حسین نواز نے چار سال کے دوران اپنے والد کو 52 کروڑ روپے بھجوائے ہیں۔ اس بات کو بھی حزب اختلاف نے خوب اچھالا جبکہ عدالت میں جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے کبھی حسین نواز سے پوچھا ہے کہ وہ بیرون ممالک کرتے کیا ہیں اور کونسا کاروبار کرتے ہیں جس میں اتنا منافع ہو رہا ہے؟
دو دن کی سماعت کے بعد بات دوبارہ وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ہوئی جس پر عدالت عظمی نے سوال اْٹھایا کہ کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کے لیے اسمبلی کا فورم استعمال کیا جاسکتا ہے؟ جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ پارلیمانی استثنیٰ صرف قانون ساز کو حاصل ہوتا ہے جبکہ ذاتی وضاحت کے لیے پارلیمان کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔جماعت اسلامی کے وکیل نے ہی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کہ اگر عدالت کو اس بارے مزید شواہد یا کسی سوال کی وضاحت چاہیے تو عدالت وزیر اعظم کو طلب کرسکتی ہے۔ اس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وزیر اعظم کو عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔
26 جنوری کی سماعت میں ایک بار پھر وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کے وکیل کی جانب سے قطری شہزادے کا ایک نیا خط سامنے آیا ،جس میں شیخ حمد بن جاسم بن جابر الثانی نے کہا کہ وزیر اعظم کے والد میاں شریف نے سنہ 1980 میں قطر میں ایک کروڑ بیس لاکھ قطری ریال کی سرمایہ کاری کی تھی۔
عدالت نے آئندہ سماعت میں قومی احتساب بیورو سے اس اجلاس کی کارروائی کی تفصیلات مانگ لیں جس میں حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔تاہم سماعت کے بعد اسحٰق ڈار نے وضاحت جاری کی کہ نواز شریف کے مالی معاملات کے بارے میں ان سے بیان دباؤ کے تحت لیا گیا تھا۔اگلی سماعت میں نیب کے اجلاس کی رپورٹ پیش کر دی گئی تاہم اس سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں وفاقی وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک رکن پارلیمان نے عوامی جلسے میں اْن ریمارکس پر عدالت کو ڈانٹا جن میں کہا گیا تھا کہ ''وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ اْن کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے لیکن اس کتاب کے کچھ صفحے مسنگ ہیں۔‘‘
فروری کے آغاز میں مقدمے کی سماعت بینچ کے رکن جسٹس عظمت سعید کی طبیعت اچانک ناساز ہونے پر دو ہفتے تک ملتوی رہی اور 15 فروری سے یہ مقدمہ دوبارہ سنا گیا اور موضوعِ بحث حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق معلومات ہی رہیں۔21 فروری کی سماعت میں نیب کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں جبکہ بینچ کے سربراہ نے دورانِ سماعت اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے دو روز میں ان درخواستوں کی سماعت مکمل ہو جائے گی۔(بشکریہ بی بی سی)