"NNC" (space) message & send to 7575

مودی کے وعدے‘ پرزہ پرزہ

اس برس بھارت کے وزیراعظم مودی کو اقتدار میں آئے تین برس پورے ہو جائیں گے۔ اس عرصے میں انہوں نے اپنی بھوکی جنتا کے لئے کیا کیا؟ اس پر لوک سبھا کے ایک سینئر رکن طارق انورکا تبصرہ پیش خدمت کر رہا ہوں۔ 
''مسئلہ فلسطین پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لئے اس وقت ایران کی راجدھانی تہران میں موجود ہوں۔ یہاں ناچیز کو مسئلہ فلسطین پر بولنے کے لئے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ شروع سے میں اور میری پارٹی دونوں ہی مسئلہ فلسطین پر نہ صرف بولتے اور لکھتے رہے ہیں بلکہ فلسطینیوں کی آزادی کی ہم نے ہمیشہ وکالت کی ہے اور ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطین پر اسی طرح فلسطینیوں کا حق ہے‘ جس طرح انگریزوں کا برطانیہ پر اور ہندوستانیوں کا ہندوستان پر۔ بہتر ہوتا کہ اس وقت کانفرنس اور اس کی چیزوں سے آپ کو متعارف کراتا لیکن ملک سے باہر ہوتے ہوئے بھی جس طرح کی خبریں آ رہی ہیں‘ وہ انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہی نہیں بلکہ دل کو بے حد تکلیف دینے والی ہیں۔ اس درمیان ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کہیں گم ہو گیا ہو۔ اس لئے اس وقت ٹی این سیشن جیسے تیز طرار بیوروکریٹ کی کمی 
ملک کو بے حد کھل رہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے جس طرح سیاست کا وقار اور معیار دونوں کو دفن کر دیا ہے‘ اس کے اقبال کا جنازہ نکالا ہے اور جس طرح کی زبانوں کا استعمال وہ یو پی الیکشن میں کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے ان کی پارٹی والے جس طرح کے جملے بول رہے ہیں‘ وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم گاندھی جی کے اصولوں کو دفنا کر گوڈسے کے اصولوں کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ یعنی ایک ایسے ہندوستان کی تعمیر کے لئے ہم آگے بڑھ رہے ہیں‘ جس میں ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے آئین کی جگہ منواسمرتی ہو گی۔ ترنگے جھنڈے کی جگہ بھگوا جھنڈا ہو گا۔ گاندھی جی کی جگہ گوڈسے کی تصویر لگائی جائے گی۔ محبت کی جگہ نفرت‘ اطمینان کی جگہ دہشت ہو گی اور ایسے لوگ اقتدار میں آئیں گے جو ملک کے ترنگے سے اپنا پسینہ پونچھنے میں فخر محسوس کریں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی کو اس بات کا کامل یقین ہے کہ شاید محبت کے لئے وہ سیاست میں آئے ہی نہیں ہیں اور اگر اقتدار میں ان کو بنے رہنا ہے تو اس کے لئے نفرت کی سیاست کو زندہ رکھ کر ووٹوں کی صف بندی ضروری ہے۔ کیونکہ وہ جس سکول آف تھاٹ سے آئے ہیں‘ اس سکول آف تھاٹ کے لوگوں نے ملک سے کبھی وفا نہیں کی ہے۔ جنگ آزادی میں ایسے لوگوں کا ساتھ دیا ہے جو ''بانٹو اور راج کرو‘‘ کی سیاست کے قائل رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو اب ترنگا لہرانے کی وہ نصیحت کر رہے ہیں جن کے اجداد کی لاشیں لاہور سے دہلی تک ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں درختوں پر لٹکا دی گئی تھیں۔ واہ رے سیاست اور تیرے مزاج۔
نریندر مودی نے گزشتہ دنوں ایک انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے جس طرح سیاست کے معیار کو آسمان سے زمین پر لادیا بلکہ زندہ درگور کر دیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اب بوکھلا گئے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے لالوپرسادیادو جیسے لوگوں نے پیش گوئی بھی کر دی ہے کہ مودی پنے اقتدار کے کسی بھی صورت میں پانچ سال مکمل کرنے والے نہیں ہیں اور اس میں بھی کوئی بعید نہیں کہ مودی درمیان سال میں ہی چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ کیونکہ لالوجیسے سیاستدان کی پیش گوئی کو بہرحال آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مودی جن کی سیاست اور اقتدار کا آغاز 2002ء جیسے بدترین فسادات سے ہوا اور سنجیوبھٹ جیسے جانباز پولیس افسروں نے یہ الزام لگایا کہ مودی نے فسادیوں کو کھلی چھوٹ دینے کا فرمان دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی کا 2002ء کے گجرات سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ اس کے لئے وہ معافی کیوں مانگیں؟تو یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ کیا کسی ریاست میں سرکار کی مرضی کے بغیر کوئی پتہ بھی کھڑک سکتا ہے؟ اگر مودی کے گجرات میں دلتوں کو ننگا کر کے مارا جائے تو اس سے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ جس سیاست کانقشہ ہے‘ اس میں غریبوں‘ دلتوں‘ اقلیتوں‘ پسماندہ ذاتوں‘ مسلمانوں‘ کرسچن‘ ایس سی/ایس ٹی ‘ او بی سی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور سرکار کے آقا جس تنظیم کو چلا رہے ہیں‘ اس پر ''اپرکاسٹ ‘‘کے ہی ایک خاص گروپ کے چند لوگوں کا قبضہ ہے۔ ایسے میں اگر مودی قبرستان سے شمشان گھاٹ کی سیاست پر اتر آئیں تو اس سے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ بابری مسجد کی شہادت سے ان کے گرو کی سیاست شروع ہوئی تھی‘ جو اس وقت مارگ درشک منڈل کے رہنما ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جو جیسا بوئے گا وہ ویسا ہی کاٹے گا اور جو اپنے بھائی کے لئے گڑھا کھودے گا‘ وہ اس میں خود گرے گا۔ اس لئے مستقبل قریب میں اگر مودی کسی درشک منڈل کے رہنما بنا دیئے جائیں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے اور شاید اسی لئے لالویادو جیسے سینئر رہنما یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ مودی اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرنے والے نہیں ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے قبرستان اور شمشان گھاٹ کی جو سیاست شروع کی ہے‘ اس میں ہندو اور مسلمانوں دونوں کے لئے ایک عظیم پیغام ہے۔ اپنی چرب زبانی کے لئے مشہور وزیراعظم نریندر مودی جان بوجھ کر الیکشن کا ماحول خراب کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ وزیراعظم کے عہدے‘ وقار اور جمہوریت کی اخلاقی قدروں کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیراعظم نے فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور معاشرے میں مذہب کے نام پر نفرت کی لکیریں کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ وزیراعظم کا قبرستان اور شمشان گھاٹ کی بات کرنا ان کے صحیح چہرے اور ان کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی باوجود وزیراعظم اور امیت شاہ کے پروپیگنڈے کے ایک بڑی شکست کی طرف جا رہی ہے اور ہونے والی شکست سے بوکھلا کر وزیراعظم بات چیت کا توازن کھو چکے ہیں۔ ہمارے ملک کا آئین کسی کو بھی مذہب کے نام پر سرکشی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس پورے واقعہ میں الیکشن کمیشن کا اب تک کا لچر رویہ کئی سارے سوالا ت کھڑے کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات سے پہلے یہ سخت ہدایت دی ہے کہ کسی طرح کی سماج کے اندر کشیدگی یا تقسیم کرنا انتہائی جرم ہے۔ یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہو گا کہ الیکشن کمیشن وزیراعظم کے بیان کے لئے کیا کارروائی کرتا ہے؟ الیکشن کمیشن کی ایک آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لے۔
وزیراعظم بی جے پی کے اہم ڈھونڈورچی ہیں‘ اس لئے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وزیراعظم اور بی جے پی کو الیکشن کمیشن نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرے گا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کیا ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوا ؟اور اس میں کیا چیزیں دریافت کی گئی ہیں؟ اس کا شاید ہی کسی کو علم ہو۔ وزیراعظم ملک کے آئین اور قانون سے اوپر نہیں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ مودی جی 34مہینے کا ملک کو حساب دیتے کہ انہوں نے جو وعدے ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ کئے تھے‘ وہ وعدے کہاں تک پورے ہوئے۔ وزیراعظم نہ تو کسانوں کی بات کرتے ہیں‘ جو 2014ء کا وعدہ تھا کسان کی فصل کی قیمت دوگنی کرنے کا‘ اب وہ کسان کی آمدنی دوگنی کرنے کی بات کرتے ہیں 2022ء تک۔ 2014ء اور 2019ء کے درمیان کا حساب دینا ہے ان کو کیونکہ اب 2017ء ہے‘ 3سال ہو جائیں گے‘ مئی کے مہینے میں۔2 کروڑ روزگار کا ان کا وعدہ تھا۔ ایک سال کے اندر اس مئی تک 6 کروڑ نوجوانوں کو روزگارملنا چاہیے تھا۔ گزشتہ سال تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک لاکھ 15ہزار نوکریوں کی جگہ نکلی ہے۔
وزیراعظم کو ہمارا ایک مشورہ ہے کہ ہندوستان کے ووٹروں کی صوابدید اور سوجھ بوجھ کی توہین نہ کریں۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی توجہ دلانا چاہتا ہوں ایک ویڈیو کی طرف جو سوشل میڈیا پر چل رہا ہے ''ڈومریا گنج میں آتنک وادیوں کی نقل و حرکت کو فعال بنانے والا توقیر رضا بھی آ چکا ہے۔ ڈومریا گنج میں بریلی کا جمیل صدیقی بھی آ چکا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ڈومریا گنج میں کوئی ہندو نہ چنائو جیتنے پائے جو 25 سال سے چل رہا ہے‘ وہی چلنا چاہیے۔ 25 سال سے کیا چل رہا ہے ڈومریا گنج میں؟ سماج وادی۔ سماج وادی نہیں‘ وعلیکم السلام چل رہا ہے۔ یہی چلے گا کیا؟ جے شری رام نہیں چلے گا؟ چلے گا۔ 27تاریخ کو کیا چلے گا؟ جے شری رام۔ ہو گا کہ نہیں ہو گا۔ ہوگا‘ لیکن یہ حرام خور جو آگے آئے ہوئے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی امیدوار راگھوندر نہ جیتنے پائے۔ مسلمان صرف مسلمان رہے گا۔ جب کمال سیدہ کی حمایت کر سکتے ہیں تو...ابھی کچھ لوگ پھر ڈر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے... کمال سیدہ کو سماج وادی میں رہتے ہوئے حمایت دے سکتے ہیں۔ چاہے جمیل صدیقی آیا ہو یا توقیر رضا آیا ہو۔ ہم گھبرانے والے نہیں ہیں۔ 2012ء میں 26 ہزار ووٹ ہمیں ملا تو ہم نے سوچا... تو میرا حوصلہ بڑھ گیا۔ میں تو سوچتا تھا۔‘‘ یہ وہ بول ہیں جو بی جے پی امیدواروں کے ذریعہ بولے جا رہے ہیں۔ کیا اس پر کوئی ایکشن نہیں ہونا چاہیے؟ اس پر الیکشن کمیشن کو ازخود نوٹس نہیں لینا چاہیے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔‘‘

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں