امریکہ، جسے مہذب معاشرہ تشکیل دینے میں 200سال کا عرصہ لگا‘ اسے دوبارہ نیم وحشی معاشرہ بنانے میںصرف 35دن صرف ہوئے۔ کیا نئے صدر ٹرمپ نے کوئی جادو کی چھڑی گھمائی کہ امریکیوںکے وحشی پن کو جگانے میں چند روز لگے؟ درحقیقت امریکیوں کے اندر وحشت و بربریت کی خصوصیات نئی نہیں۔ اگر آپ تاریخ دیکھیں، تو انسانی آزادیاں کچلنے کے لئے جو کچھ اس ملک کے نام نہاد مہذب معاشروں میں کیاگیا، وہ خود وحشت و بربریت کی ایک طویل کہانی ہے۔ یورپ کے بدمعاش گورے، جب اپنے ملکوںمیں معتوب ہو کرجلاوطن ہوئے اور امریکہ کے غیر ترقی یافتہ معاشرے میں داخل ہوئے‘ وہ اصل میں ایک دردناک کہانی ہے۔ باقی دنیا کی طرح وہاں کے مقامی باشندے، جنہیں آج ریڈ انڈین کہا جاتا ہے، وہی اس ملک کے اصل شہری تھے۔ جب یورپ کے بدمعاش،لٹیرے اور ڈاکو،معصوم مقامی لوگوں کی سرزمین پر اترے، تو انہوں نے یورپ کے ترقی یافتہ ہتھیاروں کی مدد سے ، مقامی لوگوں کو بے دخل کرنا شروع کیا اور پھر ان کی بیخ کنی کرتے کرتے، زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں محصور کر دیا۔ آج بھی اصل امریکیوں کو ان کے اپنے ہی ملک میں، قیدی بنا کر ایک کھلے جیل خانے میں رکھا ہوا ہے۔یورپ کے غنڈوںاور بدمعاشوںنے، امریکہ میں اتر کے جدید دور کی ترقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ،مقامی باشندوں پر غالب آنے کا جوعمل شروع کیا، وہ انسانی پسماندگی اور ترقی یافتہ ہتھیاروں کے درمیان ایک طویل جنگ کی داستان ہے۔ یورپ کے غنڈوں اور بدمعاشوں نے کس طرح متعدد اقوام کو امریکہ کی تسخیر مکمل کرنے کے لئے بے رحمی سے نکالا ؟اور افریقہ کے پسماندہ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سمندری جہازوں میں بھر کے امریکہ منتقل کیا۔ وہ بھی انتہائی دردناک کہانیاں ہیں۔
ہرچند امریکہ کے لامحدود قدرتی وسائل پر قبضہ جما کر فرزندان زمین کو جنگلوں اور صحرائوں میں دھکیلا اور افریقہ سے بے رحمی کے ساتھ اکٹھا کر کے لائے گئے غلاموں کو نئے ملک کی تعمیر کے لئے جانوروں کی طرح استعمال کیا۔ اس تاریک دور کی جدوجہد آزادی پر لکھے گئے ناول اور فلمی کہانیاں ہیں، جن سے نئی نسل اچھی طرح واقف ہے۔ مگر اب اس دور میں واپس جانے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ امریکی قوم کو پروان چڑھانے والے یورپ کے جرائم پیشہ افراد نے اپنی ترقی کو جس بے رحمی سے استعمال کیا، اس کے اثرات دورحاضر میں آج بھی جابجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ افریقہ کی نوجوان افرادی قوت کو جبراً غلام بنا کر ، جدید امریکہ کی تعمیروترقی کے لئے بری طرح سے استعمال کیا گیا۔ یورپ کے وہ بے رحم درندے خالی بحری جہاز لے کر افریقہ کے ساحلوں پر اترتے اور انتہائی پسماندہ افریقیوں کی سرزمین پر شکاریوں کی طرح جھپٹ کر انہیں گھیرتے۔ان کے دونوں ہاتھ باندھ کر اس انسانی میٹریل کا ڈھیر لگاتے اور پھر انہیں کھدیڑ کر جہازوں میں لادتے اور امریکہ لے جاتے۔ وہاںپر انہیںبطور غلام تعمیروترقی کے کاموں میں استعمال کیا گیا۔ یہ سلسلہ آج بھی بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔
وہ گورے امریکی ،جن میں بے رحمی اور درندگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے، حقیقت میں انہیں آج بھی اپنی نسلی ترقی کا عمل جاری رکھنے کے لئے غلاموں کی ضرورت ہے۔ امریکیوں کی پوری طاقت ، ان کی سائنسی ترقی میں مضمر ہے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے دیگر پسماندہ اقوام کو اپنا غلام بنایا ہے۔ غلامی کا یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ لیکن اب انہیں غلام ڈھونڈنے کے لئے افریقہ کے جنگلوں میں نہیں جانا پڑتا۔ جن ملکوں اور براعظموںکے وسائل لوٹ کر وہ مالامال ہوئے‘ آج وہاں کے باشندے ازخود امریکہ پہنچ کر اپنی غربت اور بیروزگاری کی زنجیروں سے نکلنے کے لئے ترقی یافتہ امریکیوں کے لئے خدمات بجا لاتے ہیں۔ لیکن اب یہ استحصال بڑی کاری گری سے کیا جاتا ہے۔ افریقی عوام دو اڑھائی صدیوں سے امریکیوں کی ترقی کے لئے خون پسینہ ایک کرتے رہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی مختلف تحریکوں میں شریک ہو کر بتدریج اپنی غلامی کی زنجیریں توڑتے ہوئے ترقی کے عمل میں حصہ لینا شروع کر دیا اور یہ زیادہ دنوں کی بات نہیں۔ غلام بنا کر لائے ہوئے سیاہ فام لوگ، انسانی آزادیوں کی تحریکوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غلامی کی زنجیریں توڑکرآج اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ اب تجارت، صنعتی ملازمتوں اور دیگر اقسام کی مزدوری کر کے اچھی زندگی کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ لیکن گورو ں کی بالادست قوم اپنے پرانے غلاموں کو برابر کے شہری حقوق دینے میںفراخدلی سے کام نہیں لے رہی تھی۔ انہوں نے اپنی جدیدتہذیب کا بھرم رکھنے کے لئے پرانے سیاہ فام غلاموں کواپنے جدید معاشرے میں شامل کرنا تو شروع کر دیا۔ مگر وہ ان کے لئے ناقابل برداشت تھے۔
ابھی سابق غلاموں کے سنبھلنے کا عمل جاری تھا کہ یورپ اور ایشیا کے محنت کش عوام، امریکہ میں روزگار کی تلاش کے لئے پہنچنے لگے اور یوں اپنے نام نہاد آزاد معاشرے میں غیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر گورے پریشان ہونے لگے اور ان میںپرانے دور کی نسلی برتری کو بحال کرنے کی سوچ جنم لینے لگی۔بالائی طبقوں کے گورے امریکی، اندر ہی اندر غیر ملکیوں کی بھاری تعداد میں آمد سے پریشان ہو گئے اور گزشتہ انتخابات میں ان کی نسلی اور صنفی برتری کے وحشیانہ جذبات تیزی سے بیدار ہونے لگے۔ ان جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے سیاست میں ایک اجنبی شخص اپنی بھاری دولت کے ساتھ منظر عام پر آیا اور پھر اس نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں وہ پرانے جذبات ابھرتے دیکھے، جو انتخابی مہم کے چند ایام کے دوران تیزی سے منظرعام پر آئے اور جب نتائج سامنے آئے، تو سوائے نسل پرست امریکیوں کے باقی ساری دنیا حیران رہ گئی۔ امریکی رائے دہندگان نے نسلی اور صنفی برتری کے حیوانی جذبات کے زیراثرووٹوں کا بے شرمی سے استعمال کیااور نسلی اور صنفی برتری کے نشے میں بدمست سفیدفام اقتدار کے تمام مراکز پر فائز ہونے لگے۔
ابھی یہ عمل جاری ہے اور ریاستی طاقت کا استعمال کر کے، اپنے صدر ٹرمپ کی قیادت میں معاشرے کے کمزور طبقوں پر اپنا تسلط مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اندھادھند ریاستی طاقت استعمال کر کے، امریکی عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ جن دو طبقوں کو نسل پرستوں کی بالادستی کا خوف ہے، وہ جدوجہد کے میدان میں اتر رہے ہیں۔ ان میں خواتین سرفہرست ہیں۔ کیونکہ صدرٹرمپ ، خواتین کو حقارت سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ خواتین اس صنفی برتری کے وحشیانہ جذبات سے زیادہ خوفزدہ ہیں اور وہ گزشتہ دواڑھائی صدیوں کے دوران حاصل کی گئی آزدیوں سے محرومی کے خوف میں مزاحمت کر رہی ہیں۔ حکمران امریکی گورے، اب صدرٹرمپ کی مدد سے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، تیز رفتاری سے اپنی بالادستی مسلط کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر جس تیزی سے گورے ریاستی طاقت پر قابض ہو رہے ہیں، اس کے ردعمل میں سارے متاثرین بیدار ہو کر میدان میں اترنے لگے ہیں اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل شدہ جمہوری حقوق کی حفاظت کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ابتدائی مراحل ہیں۔ جیسے جیسے نسل پرست گوروں کا تسلط معاشرے پر بڑھتا جائے گا، ردعمل میں بھی شدت آتی جائے گی۔ فی الحال انسانی حقوق اور آزدیوں کے لئے خواتین پیش پیش ہیں۔ چند ہی دنوں میں سیاہ فام امریکی بھی میدان میں اترنا شروع کریں گے۔ خواتین پہلے ہی میدان میں نکل چکی ہیں۔ سیاہ فاموں کی طاقت متحرک ہوئی، تو بے یارومددگار ایشیائی بھی منظم ہو کر میدان میں اتریں گے اور امریکی معاشرے میں وہ اتھل پتھل منظرعام پر آئے گی کہ ٹرمپ کے سارے خواب دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹنے لگیں گے۔ امریکی معاشرہ اپنی آزادیوں کا تحفظ کرنے کے لئے کس رفتار سے آگے بڑھتا ہے؟ اس کا فی الحال اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن انسانی فطرت کو جانتے ہوئے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کی قیادت کرنے والا امریکہ، دوبارہ غلامی کے دور میں داخل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کو ایک بار پھر انسانی آزادی کی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا اور وہ اس کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ امریکہ کی ایٹمی طاقت دوسری قوموں کو برباد کرنے کے لئے ہے۔ لیکن یہ طاقت حکمران گورے اپنے ملک میں استعمال نہیں کر سکیں گے۔ وہ اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ دوسری قوموں پر بالادستی قائم کرنے کے لئے جو طاقت جمع کی تھی، اسے اپنے ہی ملک میں استعمال کریں۔ ایسا نہیں ہو گا۔ جلد ہی انسانی طاقت ہتھیاروں اور جبر کی طاقتوں سے ٹکرائے گی، تو انسانیت کے حق میں تبدیلی اتنی تیزی سے آگے بڑھے گی، جس تیزی سے صدرٹرمپ اور ان کے حواری ریاست پر قبضہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ ترقی اور روشن خیالی، تنگ نظر قوتوں کے سامنے کبھی پسپائی اختیار نہیں کرے گی۔ پسپائی آخر کار صدر ٹرمپ اور ان کے حواریوں کا مقدر بنے گی۔ لازم ہے کہ ہم سب دیکھیں گے۔