"NNC" (space) message & send to 7575

میدان جنگ سے کرکٹ کے کھیل تک (آخری قسط)

میں نے کل کا کالم ختم کرتے ہوئے آخر میں لکھا تھا کہ پاکستان میں قومی یکجہتی مدتوں سے بحرانوں کی لپیٹ میں رہتی ہے اور آج بھی یکجہتی کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں۔ایک طرف بھارتی حکمران اپنے ملک میں صوبہ وار انتخابی عمل سے گزر رہے ہیں۔ حکمران جماعت کو اپنی بقا کی فکر پڑی ہے اور اس خطے کے حکمران بحرانوں پر سوار ہو کر عوام سے تائید کا ووٹ مانگتے ہیں۔اس معاملے میں پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔اس وقت بھار ت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں زوردار انتخابی معرکہ برپا ہے اورخیال کیا جا رہا ہے کہ مرکز کی حکمران جماعت یوپی کے علاقائی سیاسی حریفوں کے ساتھ سخت مقابلے سے دوچار ہے۔پاکستانی حکومت بھی کم و بیش اسی قسم کے چیلنجز سے دوچار ہے۔ہمارے سیاست دان بھی حسب عادت صوبائی منافرتوں کو ہوا دے کراپنی کامیابی کے راستے پیدا کر رہے ہیں۔ان کے پاس نفرت فروشی کے سوا اور کوئی حربہ باقی نہیں رہ گیا۔ سابق صدر آصف زرداری نے بلوچستان جا کر صوبائی جھگڑوں کی گنجائش نکالنے کی کوشش کی ہے جبکہ پنجاب میں پختونوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔پنجاب کا متوسط طبقہ حکمرانوں کے دیرینہ حربوں کو پہچانے لگا ہے لیکن دوسری طرف تعلیم کے معیار کو اس بری طرح گرا دیا گیا ہے کہ سوچ بوجھ رکھنے والے لوگوں کو اصل مسائل کے قریب نہیں پھٹکنے دیا جاتاجبکہ حکمران طبقوں کے مفادات دائو پر لگے ہیں۔
کرکٹ کا کھیل برصغیر کا انتہائی مقبول اور پسندیدہ کھیل ہے۔لیکن حکمران طبقوں نے اس کھیل کو بھی قومی مفادات کے جھگڑے میں الجھا دیا ہے۔اس کی بھونڈی مثال پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کے احیا کی مہم ہے۔ بھارت فی الحال ابھی سیاسی تنازعات طے کرنے میں مصروف ہے جبکہ پاکستان کے حکمران طبقے اپنے سارے حربے کرکٹ کے کھیل میں آزما رہے ہیں۔حکمران جماعت اور اس کے حواریوں نے نام نہادپاکستان سپر لیگ کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا تو دوسری طرف مقبول عوامی لیڈر‘ عمران خان نے اس تنازعے میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ''اگر سارے شہر میں سیکورٹی ہو اور فوج کی نگرانی میں پی ایس ایل کا میچ کرانا ہے، تو کیا اس سے لوگوں کو پتا چلے گا کہ لاہور میں امن ہو گیا ہے؟ ‘‘۔ عمران خان نے گزشتہ دنوں لاہور میں دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے یاد دلایا کہ''خدانخواستہ اگر کوئی دھماکہ ہو گیا تو انٹرنیشنل کرکٹ کے پاکستان میں واپس آنے کے بجائے‘ کرکٹ اگلے دس سال تک واپس نہیں آئے گی‘‘۔ واضح رہے پی ایس ایل ٹو کا فائنل، پانچ مارچ کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کھیل کی آڑ میں ہونے والے سیاسی میچ میں پرویز مشرف بھی کود پڑے ہیں جبکہ حیرت انگیز طور پر کھیل کے پردے میں سیاسی مقابلہ آرائی کی تیاریاں کرنے والوںمیں نوازشریف اور پرویز مشرف ایک ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ دونوں کرکٹ میچ کے حق میں ہیں جبکہ دوسرے سیاست دانوں کی اکثریت بھی حکومتی موقف کے حق میں ہے۔ اکیلے عمران خان عوامی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے سیاست دانوں کی بازی گری کا پول کھول رہے ہیں لیکن امید ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ حب الوطنی کا وہی پرانا حربہ پھر سے استعمال کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ عین اس وقت جب پاکستان اور بھارت کی باہمی سرحدی جھڑپیں زوروں پر ہیں۔کرکٹ کی آڑ میں امن کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔مجھے صحیح اندازہ نہیں کہ بھارت میں باہم بر سرپیکار، سیاسی حریف اپنے عوام کو ورغلانے کے لئے کون سے نعرے 
استعمال کررہے ہیں لیکن پاکستان میں کر کٹ کے کھیل میں، عوامی دلچسپی کو حب الوطنی کی علامت قرار دے کرباہمی معرکے ہو رہے ہیں۔ ابھی تک بعض سیاسی جماعتیں کھل کر میدان میں نہیں آئیں۔ لیکن حکمران جماعت نے آل پارٹیز کانفرنس کا جال بچھا کر آنے والے انتخابات میں سیاسی حمایت حاصل کرنے کا جال پھینکا ہے۔ پیپلز پارٹی '' قومی اتفاق رائے‘‘ پیدا کرنے کے نعرے کے ساتھ میدان میں اتری ہے اور باقی تمام جماعتوںکوحصہ پتی دے کر انتخابی عمل میں اتارنے کی چال چل دی ہے۔ پاناما سکینڈل میں حکومت کے مخالفین امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ اس مقدمے کی ہوا نکل چکی ہے جس کی بدولت حکمران جماعت کو عام انتخابات میں چیلنج دیں گے۔ ان کے مہنگے ترین وکیل مقدمے کے تانے بانے کے دھاگے توڑنے کے دعوے بھی کر رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ قانونی ماہرین کہاں کہاں سے راستے پیدا کر کے حکومت کی بدنامی کو بے اثر کرتے ہیں؟ اور آنے والے انتخابات میں، کس طرح خفیہ سمجھوتوں کے ذریعے عمران خان کے لئے نئے چیلنجز کھڑے کئے جاتے ہیں؟ اس سمت میں حکومت اورعوام مخالف سیاست کرنے والے اپنی بقا کے لئے کیا کیا راہیں نکالتے ہیں؟ کیونکہ یہ ماہر بازی گر ہیں اور پاکستانی عوام کے سیاسی شعور کو ان سب نے مل کر کبھی نکھرنے نہیں دیا۔ 
عمران خان نے گزشتہ دو سال کے دوران عوامی بیداری کی ایک زبردست مہم چلائی اور امید پیدا ہونے لگی کہ عوام اپنے حقوق کے لئے میدان میں آنے کو تیار ہو رہے ہیں۔لیکن گھاگ سیاست دان عوامی بیداری کے اس خطرے سے پوری طرح چوکس ہیں۔یہی وجہ ہے وہ انتخابات سے پہلے پہلے ‘دکھاوے کے اختلافات کو چھوڑ کر باہمی اتحاد کا ڈرامہ تیار کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔عوام سے ہمدردی رکھنے والے اکا دکا سیاست دان اس کوشش میں ہیں کہ عمران خان کی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچایا جائے تاکہ عوام کی صفوں میں اثر رکھنے والا عمران خان اگلے انتخابی مقابلے میں عوام دشمن قوتوں کو ایک کیمپ میں دھکیل کر، عوام کو ان لیٹروں کے خلاف منظم کرسکے۔ مگر اس کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔ سارے کا سارا میڈیا کم و بیش حکمرانوں کا ڈھنڈورچی بن چکا ہے۔ بہت کم آوازیں عوام کے حق میں اٹھتی ہیں۔ایسے ماحول میں مشکل نظرآتا ہے کہ کوئی عوام دوست لیڈر اور پارٹی‘ حکمرانوں کی طاقت کا مقابلہ کر سکیں۔
انتخابات میں دولت بے تحاشہ لٹائی جائے گی۔ غنڈہ گردی کی طاقت کا بے محابا استعمال کیا جائے گا۔ عام ووٹروں کو دہشت زدہ کرنے کے حربے ‘کمال چابک دستی سے استعمال کئے جائیں گے ۔ یاد رکھئے، بھارت کے حکمران طبقوں کے مفادات پاکستان کے حکمران طبقوں سے وابستہ ہیں اور اگر یہ دونوں عوام دشمن طاقتیں پاکستان اور بھارت میں بر سر اقتدار ہو کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو برصغیر کے عوام‘ طویل مدت کے لئے تاریکیوں میں ڈوب جائیں گے۔ کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی کے لئے جو مگر مچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں وہ محض دکھاوے کی چیز ہیں۔جب بھی آزمائش کا مرحلہ آیا تو ہمارے اور بھارت کے حکمران طبقے ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ راستے اس وقت گہری حکمت عملی کے ساتھ زیر زمین بنائے جا رہے ہیں۔ کر کٹ کے کھیل کے موجودہ مراحل آنے والے سیاسی کھیل کی تیاریاں ہیں۔دیکھئے پاکستان اور بھارت کے مظلوم اور معصوم عوام،مشترک ہو کر اس کامقابلہ کیسے کرتے ہیں؟آخر میں ایک بھارتی طالبہ گر مہر کورکے تاثرات پیش خدمت ہیں۔ جس کا والد پاک بھارت جنگوں میں ماراگیا۔اس نے اپنے والد کی موت پر لکھا کہ'' میرے والد کو پاکستان نے نہیں جنگ نے مارا تھا‘‘۔ سوشل میڈیا پر ویریندر سہواگ جیسے کرکٹر نے بھی ان پر تنقید کی ہے۔ سہواگ نے ٹوئٹر پر کہا کہ''میں نے تین ٹرپل سینچریاں نہیں بنائیں۔ میرے بیٹ نے بنائی تھیں‘‘۔ا س لڑکی پر جب ''حب الوطنی‘‘ کی یلغار ہوئی تو اس نے جواب میں لکھا ''ہماری مہم کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگ میری حب الوطنی پر شک کر رہے ہیں۔ مجھے غدار کہا جا رہا ہے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں بچپن میں مسلمانوں سے نفرت کرتی تھی کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان پاکستانی ہوتے ہیں۔ جب میں چھ سال کی ہوئی تو میں نے ایک برقعہ پوش خاتون کو چاقو مارنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے لگا کہ اسی نے میرے والد کو مارا ہو گا۔ میری ماں نے مجھے سمجھایا کہ ''تمہارے والد کو پاکستان نے نہیں‘جنگ نے مارا تھا‘‘۔ بھارت کی نئی نسل وہ راہیں تلاش کر رہی ہے، جو امن کی طرف جاتی ہیں‘یہ امن ہم سب میں مشترک ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں