پاکستان کے بارے میں بھارت کی دیرینہ ہٹ دھرمی میں کوئی نرمی نہیں آئی۔ بلکہ اس کے موقف میں سختی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان موجودہ حکومت کے دور میں ابھی تک کوئی پختہ پالیسی مرتب نہیں کر پایا۔ بھارت اس بے لچک پالیسی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستان اس پوزیشن میں نہیں۔ ہمارے خارجہ امور کا شعبہ واضح فیصلے نہیں کر پا رہا۔ جس کی طرف متعدد سیاستدان توجہ دلا چکے ہیں۔ جب ملک کا کوئی وزیرخارجہ ہی نہ ہو، تو کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟ خارجہ پالیسی مرتب کرنے کا کوئی واحدذمہ دار موجود نہیں اور وزیراعظم ان گنت ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ جتنی کوشش چاہیں کریں، وہ خارجہ پالیسی جیسے شعبے کو بھرپور توجہ نہیں دے پائے اور نہ دے پائیں گے۔ اس کے برعکس بی جے پی ایک طے شدہ پالیسی کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اور بطور پارٹی، پاکستان کے بارے میں اس کی ایک سوچی سمجھی اور طے شدہ پالیسی موجود ہے۔ نریندرمودی عزم صمیم کے ساتھ اسی پالیسی پر قائم ہیںاور عالمی صورتحال پاکستان کے حق میں نہیں۔ جس کا فائدہ بھارت کو پہنچا ہے۔ بھارت کے سینئر صحافی کلدیپ نیئر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بھارتی سیاستدانوں کی دیرینہ ذہنیت کی عکاسی کی ہے۔ بھارتی ارباب اقتدار کو موجودہ صورتحال میں اپنے لئے بہت سی گنجائشیں دکھائی دے رہی ہیں اور وہ ان کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسیوں میں بے تابی اور بے صبری دکھائی دے رہی ہے۔ اسی کی جھلک کلدیپ نیئر کے تازہ تجزیئے میں واضح طور سے نظر آ رہی ہے۔ اس مضمون سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ بھارتی قیادت کے منہ میں باربار رال کیوں ٹپک رہی ہے؟ کلدیب نیئر بھارت کے مستقل عزائم سے پوری طرح باخبر ہیں اور اکثر اوقات ان کے مضامین میں اس بے تابی کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں یہی تذبذب جھانکتا نظر آتا ہے۔ سچی بات ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان کو کہاں تک دبائو میں لایا جا سکتا ہے؟ اور کتنے دبائو کے نتیجے میں ایٹمی طاقت سے لیس پاکستان اس جھکائو کا متحمل ہو سکتا ہے؟ جس کی بھارتی قیادت خواہش مند ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا سیاسی بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے اور انتخابات جیسے جیسے نزدیک آئیں گے، بھارتی دبائو میں اضافے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بھارت کی اسی کیفیت کا اندازہ زیرنظرمضمون میں دکھائی دے رہا ہے۔
''ہندپاک سرحد سے اچھی خبر یہ ہے کہ وہاں سکون ہے۔ وزیر دفاع منوہرپاریکر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سرحد پر پارہ نیچے آ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان ایسے روابط پر آمادہ نظر آتا ہے ،جس کی توقع 70 سال پہلے ملک کی تقسیم کے وقت کی جاتی تھی۔ اگر ایسی بات ہے تو دونوں ملکوں کو اپنے دفاعی اخراجات میں تخفیف کرنی چاہیے۔ ہم نے وہ حقیقی تخفیف کی ہی نہیں ہے، جو فی الحال برائے نام ہے۔ بدقسمتی سے وزیردفاع کا یہ بیان کہ ہندوستان پہلے سے کہیں زیادہ بہتر طور پر مسلح ہے، اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم ابھی دفاع پر کتنی زیادہ دولت خرچ کر رہے ہیں؟ اس پر مجھے سردجنگ کے دور کی یاد آتی ہے، جب امریکہ نے سوویت یونین کو اس کے وسائل کا بیشتر حصہ دفاع پر خرچ کرنے کے لئے مجبور کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سکولوں، ہسپتالوں اور عوامی کونسلوں کے لئے بہت قلیل رقم بچائی جا سکی۔ انجام کار سوویت یونین ٹوٹ گیا اور ملک کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مثلاً یوکرین آزاد ہو گیا۔ سوویت صدر ولادیمیرپوتن نے کئی بار کہا ہے کہ یوکرین روس کا حصہ ہے۔ لیکن تحریک آزادی سے ان کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے۔ اس محاذ پر زیادہ تر روسی فوجی تعینات ہیں۔
پاکستان پر اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ وہاں جس طرح کی بھی جمہوریت کا وجود ہے‘ وہ ہلکی پڑ گئی ہے۔ اب نیا فوجی سربراہ، منتخب شدہ وزیراعظم پر برتری رکھتا ہے۔ نواز شریف کو دکھانے والی تصویروں میں یہ تاثر ملتا ہے کہ وردی پوش شخص ہی حقیقی حکمران ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے اس نظام کو قبول کر لیا ہے۔اسلام آباد کو یہ فکر ہے کہ طالبان پاکستان پر حملہ کے لئے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام آباد مزید محفوظ نہیں ہے کیونکہ ہر دوسرے دن پاکستان میں بم باری یا کسی اور طرح کا کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے، جس میں بہت سی معصوم زندگیاں تلف ہو جاتی ہیں۔ محفوظ سمجھے جانے والے اسلام آباد سے لوگ پاکستان کے دیگر مقامات کی طرف چلے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے پڑنے والے دبائو کی بدولت چین، حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو حافظ سعید جیسے دہشت گردوں سے خطرہ لاحق ہے جو اس وقت نظر بند ہے۔ اب تک یہ ایک سوانگ رہا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ میں زیادہ ممبران کی رائے اسے دہشت گرد قرار دینے کے حق میں تھی۔ اسلام آباد کو آخرش احساس ہو گیا ہے کہ حافظ سعید کا تعلق کسی بھی طرح انتہاپسندی سے ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد کتنے دن اسے نظربند رکھے گا؟ درحقیقت سال 2008ء میں ممبئی پر حملوں کے ماسٹر مائنڈ کو نظربند رکھا گیا تھا لیکن 2009ء میں ایک عدالت نے اسے رہا کر دیا تھا۔ ہم سب کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کی گرفتاری کی غلط تعبیر کریں یا خواجہ آصف صاحب کے بیان کو سنجیدگی سے لیں؟پاکستان میں موجود مشاہدین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ماضی میں لشکر طیبہ کے سربراہ کے خلاف کارروائی کوئی نیا یا سنجیدہ ترین اقدام نہیں تھا۔ 2001ء سے اب تک لشکر کا یہ سربراہ پانچ مواقع پر حراست میں لیا گیا اور چھوڑا گیا ۔ اگر پاکستان واقعی اقوام متحدہ کی فہرست کے بارے میں سنجیدہ ہے، تو حافظ سعید کے خلاف کارروائی کا آغاز 2008ء میں ہی ہونا چاہیے تھا، جب اسے اور جماعت الدعوۃ کو یو این کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔حالیہ کارروائی شاید پیرس میں ہونے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی میٹنگ کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے، جہاں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی مالی سرپرستی کے ریکارڈ پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ بصورت دیگر وزیراعظم نواز شریف کو بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلے سے فکرمند ہونا چاہیے، جنہوں نے سات مسلم ممالک سے سفر پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پاکستانی شہریوں کو مفصل چھان بین کے بعد ہی ویزا دیا جائے گا۔امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو اس سے تشویش ہے کہ اگر صدر ٹرمپ انہیںبھی مسلم ممالک کی ممنوعہ فہرست میں شامل کر لیں گے تو انہیں بھی وہاں سے نکالا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کا سوال ہے تو بظاہر ان کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن امیگریشن افسران شاید ان کے بارے میں مختلف رویہ اختیار کرتے ہوئے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں۔ ایسے قابل افسوس مواقع پیش آئے ہیں، جب معروف ہندوستانی اداکار شاہ رخ خان کی جامہ تلاشی لی گئی اور ہندوستانی سفارت خانے کو انہیں امریکہ میں داخلہ دلوانے کے لئے مداخلت کرنی پڑی۔ مجھے بھی چند برس پہلے مغربی ساحل سے امریکہ میں داخل ہوتے ہوئے ایسی ہی دشواری سے گزرنا پڑا تھا۔ میرے پاس سفارتی پاسپورٹ ہونے کے باوجود افسران نے میری جامہ تلاشی پر اصرار کیا۔ امیگریشن افسر نے یہ وضاحت کی کہ میرے پاسپورٹ پر زیادہ تر ویزے پاکستان اور بنگلہ دیش کے لگے ہوئے تھے۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ مجھے اکثر ان ممالک کا سفر کیوں کرنا پڑتا تھا؟
شاید کہ نئی دہلی معاملہ کی ڈور کو وہیں سے پکڑے، جہاں پر اس نے آخری بار چین میں نوازشریف اور وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات کے دوران چھوڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں کے درمیان مثبت گفتگو ہوئی تھی لیکن معاملات آگے اس لئے نہیں بڑھ پائے کہ نئی دہلی نے اسلام آباد سے اس یقین دہانی کا تقاضا کیا کہ دہشت گردوں کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے نہیں دی جائے گی اور پھر اڑی اور پٹھانکوٹ جیسے واقعات نے امیدوں پر پانی پھیر دیا۔آج جب کہ حافظ سعید کو حراست میں لیا جا چکا ہے اور وزیردفاع خواجہ آصف نے لشکر طیبہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خطروں کا اعتراف کر لیا ہے، شاید دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات بحال کئے جا سکتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے شاید ہندوستان کو اپنے سابقہ موقف کا اعادہ کرنا پڑے کہ پاکستان کی طرف سے اس کی یقینی ضمانت ملے بغیر کہ اس کی سرزمین سے دہشت گردانہ حملہ نہیں ہو گا، کوئی گفتگو عمل میں نہیں آئے گی۔
غالباً ہندوستان کو آگے بڑھنے سے پہلے انتظار کرنا اور چوکنا رہنا پڑے گا۔ یہاں تک کہ اسرائیل کی بھی یہی خواہش ہے۔ بہرکیف یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ وہ باہم مل کر اپنے مسائل کو سلجھائیں۔ پاکستان سردست مسئلہ کشمیر کو پس پشت رکھے اور اس کے بجائے افلاس، بھوک اور بیروزگاری جیسے مسائل پر فوری توجہ دے۔‘‘