بھارت کے حالیہ انتخابات میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے بجائے، زیادہ تنگ نظری اور مذہبی تعصب دیکھنے میں آئے۔مسلمانوں نے بحیثیت قوم یا عقائد نظریات کو فراموش کر کے، مذہبی اور علاقائی تعصبات کو زیادہ اہمیت دی۔ اگر انتخابات کے حالیہ رحجانات کا تجزیہ کیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ ہندو انتہاپسند، مسلمانوں کا اتحاد مزید پارہ پارہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مستقبل کے بھارت میں پاکستان کو اپنے خلاف مزید جارحانہ بھارتی پالیسیوں اور اقدامات کی فکر کرنا ہو گی۔ حالیہ انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ یوپی اور اتراکھنڈ میں بی جے پی نے قبضہ جما لیا ہے اور پنجاب پر کانگریس کی حکمرانی ہو گی۔ منی پور اور گوا کے معاملے ذرا ٹیڑھے ہیں، لیکن ان چھوٹی ریاستوں کے برعکس ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں جس طرح مودی کی آندھی چلی ہے، 403 سیٹوں والی اسمبلی میں بی جے پی نے 325 سیٹیں حاصل کر کے تمام سیاسی پنڈتوں کو چونکا دیا ہے۔ حالانکہ یو پی میں راہول-اکھلیش اتحاد کے تعلق سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ریاست میں ایک بار پھر سماج وادی پارٹی کی سرکار آئے گی۔ لیکن اکھلیش کا کام بولتا ہے کا سلوگن بھی کام نہیں آیا۔ راہول-اکھلیش کے روڈ شو اور بے پناہ بھیڑ والے جلسے جلوس بھی محض ایک تماشہ ثابت ہوئے۔ 30 فیصد ووٹ کے باوجود اتحاد کے یہ سرخیل محض 54 سیٹوں پر سمٹ گئے۔ سب سے بدتر حالت مایاوتی کی ہوئی جنہیں 23 فیصد ووٹ ملے اور وہ 19 سیٹوں تک محدود ہو گئیں۔ اتر پردیش کے یہ انتخابی نتائج چونکا دینے والے ہیں اور ذہن میں یہی نتائج کچوکے لگا رہے ہیں کہ بھارت کی جمہوری فکر ایک نئے پیکر میں ڈھل رہی ہے، جو تشویش پیدا کرتی ہے۔ مرکزی وزیرسمرتی ایرانی بھی کہتی ہیں کہ ہمیں گمان تک نہیں تھا کہ ہم ایسی تاریخ ساز جیت حاصل کریں گے۔ لیکن یو پی کا منظرنامہ بول رہا ہے کہ یہاں پر، نہ تو نوٹوں کی بندش سے لوگوں کو پریشانی ہوئی ،نہ مہنگائی نے یہاں کے عوام کے خیالات بدلے اور نہ ہی ذات پات کی طاقت سے‘ اپنی اپنی طاقت دہرانے والی ریاست کی دو بڑی پارٹیاں اس بار اپنا جلوہ دکھا سکیں۔ گوکہ مایاوتی اپنی شکست کے لئے ای وی ایم کی گڑ بڑ کا رونا رو رہی ہیں۔اکھلیش بھی اس کی تائید کر رہے ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اس خدشے کو خارج کر دیا ہے اور ہمیں بھی اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ مودی ،یو پی میں 2014ء کے لوک سبھا الیکشن سے، کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرے ہیں۔ یہ طاقت ذہن کو فکر میں مبتلا تو کر رہی ہے۔
آج اندیشہ ہو رہا ہے مجھے
زہر نفرت کا پھیل جائے گا
ہر چوک چوراہے، گلی کوچے میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی گونج برقرار ہے لیکن سب سے زیادہ لوگ یو پی کے نتائج سے پریشان ہیں۔ حالانکہ جمہوری نظام میں ہار جیت تو لگی رہتی ہے لیکن میں یہ کہنے سے گریز نہیں کروں گا کہ یو پی کے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ملک کی دیگر ریاستوں میں رہنے والے مسلمانوں کو یو پی کی فکر تھی۔ باہرکے مسلمان زیادہ کھچائومیں رہے۔ جہاں پر بی جے پی کے قدم روکنے کے لئے، تمام حکمت عملی، تمام تر تدبیریں، تمام ترحربے بیکار ثابت ہوئے۔ وقت کا یہ بھی عجیب و غریب المیہ ہے کہ دلتوں کی سب سے طاقتور رہنما ،مایاوتی کو خود ان کے دلت طبقہ نے نظرانداز کیا۔ مگر مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ''دلت مسلم اتحاد‘‘ کی سیاست کا شکار ہو کر سماج وادی کے لئے زبردست نقصان کا سبب بنا۔ 50 سے زائد حلقوں میں مسلم ووٹوں کے ٹکرائو کا منظر نامہ ہے۔ علاوہ مسلم اکثریتی اضلاع میں مسلم ووٹوں کے کئی خانوں میں بکھرائو نے سماج وادی پارٹی کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ حالانکہ مسلمانوںکے کئی اکثریتی علاقوں میںعقلمندی سے کام لیاگیا۔ کانپور میں عبدالحسیب کو صرف 5000 ووٹ ملے۔ انہیں دلتوں کے پورے ووٹ بھی نہیں ملے۔ وہاں کے مسلمانوں نے بھی انہیں نظرانداز کیا۔ کانپور میں دلت مسلم اتحاد ناکام ہونے سے سماج وادی پارٹی کا امیدوار جیتا لیکن یہ بھی مسلم سیاست کا المیہ ہے کہ ڈومریا گنج جیسے مسلم اکثریتی علاقے میں سماج وادی کی سیدہ خاتون محض 187ووٹوں سے ہار گئیں۔ پیس پارٹی کے امیدوار نے 10351ووٹ لئے۔ بہرحال یہ کہنا بھی زیادہ مناسب نہیں ہے کہ صرف مسلمانوں کی وجہ سے سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج پارٹی کو شکست ہوئی۔ سچائی تو یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کے آپسی انتشار نے پارٹی کو حد سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ رہی سہی کسر مودی کے دھواں دھار جلسے جلوسوں نے بھی پوری کر دی۔ ووٹروں میں یہ پیغام پہنچا کہ سماج وادی پارٹی صرف یادوئوں اور مسلمانوں کو ترجیح دیتی ہے اور مایا وتی تو صرف جاٹوں کو آگے بڑھاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی نے جہاں ہندو کارڈ کھیلا ،وہیں غیر جاٹوں کے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی بساط بھی بچھائی۔ پوروانچل جو کہ سماج وادی کا قلعہ سمجھا جاتا ہے، بہوجن سماج بھی ایک بڑی طاقت ہے۔ وہاں بی جے پی نے مضبوطی سے اپنے کارڈ کھیلا۔ مودی جی بنارس میں خیمہ زن ہو گئے۔ بی جے پی کو جہاں دلتوں کا ووٹ ملا ،وہیں خواتین نے بھی اسے پورے طور پر آگے بڑھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یو پی میں بی جے پی ایک ایسی طاقت بن کر ابھری ہے، جس پر جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ اتحاد کی بات کرنے والے اب 2019ء کو چھوڑیں اور 2024ء کی تیاری کریں۔ ظاہر ہے مودی کے قدم اکھاڑنے کے لئے اب 10 برس لگ سکتے ہیں۔ لیکن سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہاں پر بہار کے طرز پر مہاگٹھ بندھن ہوا ہوتا اور یو پی کے مسلمان، بہار کے مسلمانوں کی طرح متحد ہوتے، کئی خانوں میں نہیں بٹتے ،تو بی جے پی کے قدم یو پی میں اتنے مضبوط نہ ہوتے۔
المیہ تو یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملے میں اپنے شعور کا استعمال کرتا ہے لیکن جب 5 سال کے بعد انتخابات آتے ہیں تو وہی مسلمان کسی دوسرے کے کہنے پر اپنے ووٹوں کے حصے بخرے کردیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثریت میںنہ ہونے کے باوجود بی جے پی جیت جاتی ہے۔ ڈومریا گنج اور دیوبند کی جیت اس کی مثال ہے۔ ہمیں چڑیوں سے سیکھنا چاہیے جو اپنے بچوں کو ٹھوکریں مار مار کر پرواز کا حوصلہ دیتی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں60 برسوں سے سبق مل رہا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا؟ کسے ووٹ دینا ہے کسی نہیں دینا ہے؟ ہندوستانی مسلمانوں کی یہ فطری کمزوری انہیں ہر سیاسی محاذ پر کمزور کر رہی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا یہ بھی بدترین المیہ ہے کہ وہ ملی قیادت کے فقدان کا رونا روتے ہیں لیکن الیکشن کے موقع پر نام نہاد ملی قائدین کے پیچھے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کرتے یں۔ ہندوستان آزاد ہو چکا ہے لیکن ہندوستانی مسلمان آج بھی نام نہاد ملی قائدین کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پوروانچل کے علاقے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹ کس طرح بکھرے؟ اس کا تجزیہ سبھی کر رہے ہیں اور ماتم کناں بھی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اب بہت سنجیدگی اور خاموش تدبر کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کا مزاج بدل رہا ہے۔ سیکولرازم کے چال ڈھال بدل رہے ہیں۔ ملک کا منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسے عالم میں ہمیں منی پور کی آہنی خاتون لیڈر اروم شرمیلا سے بھی سبق سیکھنا چاہیے۔ پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں یو پی کا انتخاب تو اپنی جگہ حیرت ناک ہی ہے لیکن منی پور کا انتخاب بھی کم تعجب خیز نہیں ہے۔ جہاں 16سال تک ریاست کی فلاح اور عوام کے لئے بھوک ہڑتال کرنے والی اروم شرمیلا کو وہاں کے عوام نے نظرانداز کر دیا ہے۔ منی پور کے لئے اپنی جوانی کو گنوا دینے والی اروم شرمیلا کو اسمبلی الیکشن کے انتخاب میں ِصرف 90 ووٹ ملے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کے لئے اب قربانیاں، ایثار،مہنگائی، نوٹوں کی بندش وغیرہ وغیرہ کوئی مطلب نہیں رکھتے۔ آج کے عوام ذات دھرم کے نام پر لڑنے والوں کو ہی پسند کرتے ہیں۔
بہرحال 5 ریاستی اسمبلیوں میں بی جے پی صرف2پر حاوی رہی۔ لیکن پنجاب میں بی جے پی کو محض 3 سیٹیں ملی ہیں اور منی پور، گوا، میں بھی کانگریس حکومت بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ ایسے میں کانگریس سے آزاد بھارت بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔