"NNC" (space) message & send to 7575

برہمن کی ذہنیت

بھارت اب پاکستان کے خلاف اپنے دیرینہ منصوبوں پر عمل درآمد کے قریب پہنچ چکا ہے۔ بظاہر وہ کشمیر کے دریائوں پر بند باندھ کر بجلی کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے ان منصوبوں پر کام کر رہا ہے لیکن درحقیقت ان منصوبوں سے وہ پاکستان کو صحرا میں بد ل کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ان عزائم کو رسماً بھی چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ انہوں نے کھلم کھلا اعلان کر رکھا ہے کہ ہمارے علاقے سے پاکستان میں جانے والے پانی کی ایک ایک بوند کو بھارت میں استعمال کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پاکستان ریگستان بن جائے گا۔ بھارت برملا اپنی منفی عزائم کا اظہار کر چکا ہے لیکن حیرت ہے کہ پاکستانی حکومت‘ اس آبی جارحیت کے منصوبے پر کو زیر بحث لانے سے گریزاں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کے متعصب حکمران پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کے لئے نہ صرف مصروف ہیں بلکہ ساری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ وہ بے گناہ پاکستانی عوام کی زندگیاں اجیرن کرنے کے ظالمانہ منصوبے پر عملدرآمد پر بضد ہیں۔ بھارت کہتا تو یہی ہے کہ وہ دریائوں پر مقبوضہ کشمیر کے اندر جو ڈیم بنانے پر مصروف ہے‘ وہ صرف بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے جائیں گے۔ پاکستان کے حکمران طبقے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے دیوانہ پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کسی کو اپنے ملک پر نازل ہونے والی تباہی کا اندازہ نہیں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان کے لالچی اور حریص حکمران اپنا '' مستقبل‘‘ بہتر کرنے کی غرض سے بھارت کے حکمران طبقوں کا اعتماد حاصل کرنے کے خواہش مند ہوں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے غداروں کی ان گنت مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ذاتی 
مفادات کی خاطر قوموں کے سودے کئے۔ ہم ایسے تلخ تجربات سے کئی بار گزر چکے ہیں۔ دووھ کا جلا‘ چھاچھ بھی پھونکیں مار کر پیتا ہے۔کاش! ہمارے فیصلہ ساز‘ ماضی کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائیں۔ ہندوئوں کے ساتھ دیرینہ تجربات کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران بھارت مقبوضہ کشمیر میں 15 بلین ڈالر کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچانے کے لئے سرگرم ہے۔ ''اسلام آباد کے دور اندیش ابھی سے انتباہ کر رہے ہیں کہ بھارت‘ پاکستانی دریائوں کے پانیوں کا بہائو بدلنے کے منصوبوں پر عمل کر رہا ہے۔ ان منصوبوں کی منظوری کئی برسوں سے التوا کا شکار تھی لیکن گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا کہ پاکستان کی طرف پانی کا بہائو بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے مشروط ہے۔ نئی دہلی کا اصرار ہے کہ پاکستان ان دہشت گردوںکو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے۔ پاکستان نے ان منصوبوں کی پہلے بھی مخالفت کی تھی، اب بھی کرے گا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ منصوبے عالمی بینک کی ثالثی میں طے پانے والے ''سندھ طاس معاہدے‘‘ کی خلاف ورزی ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق پاکستان‘ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے 80 فیصد پانی کا حق دار ہے ، اور یہ وہ دریا ہیں جن پر اس کے زرعی آب پاشی نظام کا دار و مدار ہے۔ ان منصوبوں، جن میں سب سے بڑا 1856 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش رکھنے والا مساول کوٹ پلانٹ ہے، کی تکمیل میں کئی برس لگ جائیں گے، لیکن ان کی منظوری دینے سے ایٹمی طاقت کی حامل ان دونوں ہمسایہ ریاستوں کے درمیان تنائو بڑھ کر خطرناک مقام (flash point) تک پہنچ جائے گا۔ اس وقت پہلے ہی ان کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ وزارت بجلی کے ایک اعلیٰ افسر، پردیپ کمار پجاری کا کہنا ہے کہ ''میں یہ کہتا ہوں کہ آپ ان منصوبوں کو صرف پن بجلی کے منصوبے ہی نہ سمجھیں، یہ پانی کی تزویراتی مینجمنٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اتنی بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے‘‘۔
دوسری طرف پاکستان بھارتی کشمیر میں 28 سال سے جاری مسلح بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔ اس نے خطے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے نئی دہلی پر متعدد بار زور دیا۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان، نفیس زکریا کا کہنا ہے کہ وہ وزارتِ پانی و بجلی کو بھارت کے ان منصوبوں کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ اُنھوں نے ان منصوبوں کو ایک ''ٹیکنیکل معاملہ‘‘ قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے پر باقاعدگی سے ہونے والی میٹنگز میں شرکت کرتا رہا ہے۔ اگلی میٹنگ لاہور میں ہے، لیکن امید کی جاتی ہے کہ تعلقات میں تنائو کے باوجود‘ انڈیا اس میں شرکت کرے گا۔ اُنھوں نے پورے وثوق سے کہا کہ ''ایسا لگتا ہے کہ بھارت کو آخرکار دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے پانی کی تقسیم کا تنازعہ طے کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدے کی اہمیت کا احساس ہو چکا ہے‘‘۔ وزارتِ پانی و بجلی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ تین ماہ کے دوران بھارتی کشمیر میں پن بجلی کے 6 منصوبوں نے ماہرین سے قابلِ عمل ہونے کی ابتدائی منظوری حاصل کر لی۔ ان افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ کے معاون دریا، چناب پر بننے والے یہ منصوبے جموں کشمیر میں بجلی کی موجودہ پیداوار، جو کہ تین ہزار میگاواٹ ہے، کو تین گنا بڑھا دیں گے ۔ وزارتِ پانی و بجلی کے ایک اور سینئر افسر کا کہنا تھا کہ ''ہم نے گزشتہ پچاس برسوں کے دوران‘ ریاست میں پن بجلی کے صرف 1/6 وسائل سے ہی استفادہ کیا، لیکن پھر ایک عمدہ صبح آپ نے دیکھا کہ ہم نے صرف تین ماہ کے دوران 6 منصوبوں کو آگے بڑھا دیا۔ یقینا اس سے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ جائے گی‘‘۔
دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلیوں، کاشت کاری کے پرانے طریقوں اور آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے پاکستان کے آبی وسائل شدید دبائو کا شکار ہیں۔ 2011ء کی ایک امریکی سینیٹ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ انڈیا ان منصوبوںکے ذریعے پاکستان کی شہ رگ اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ''یہ منصوبے بھارت کو بتدریج اس قابل بنا دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو کنٹرول کرکے فصلوں کی بوائی کے موسم میں پانی کی مقدار کم کر دے‘‘۔ دوسری طرف بھارت کا کہنا ہے کہ وہ پانی کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، وہ صرف بہتے ہوئے پانی سے ہی استفادہ کرے گا۔ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی نہیں روکے گا، وہ صرف پانی کے بہائو کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ ماحولیات پر کام کرنے والی تنظیموں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا حکومت نے ان منصوبوں کو انتہائی سسمک علاقے (جہاں زلزلے کے جھٹکے آنے کا زیادہ خطرہ موجود ہو) میں بنانے سے پہلے مناسب طریقِ کار پر عمل کیا ہے؟
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے پر سرکاری افسران کی ہونے والی ایک میٹنگ کو بتایا کہ ''پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘۔ یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب مبینہ طور پر پاکستانی انتہا پسندوں نے کشمیر میں بھارتی فوجی کیمپ پر تباہ کن حملہ کیا۔ اس حملے میں بھارتی فوج کو بہت زیادہ جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، گوپال باگلے کا کہنا تھا کہ مودی کا پیغام دو پہلو لیے ہوئے ہے۔ ایک یہ کہ دہشت گردی کو ہر صورت ختم کرنا ہے، اور دوسرا یہ کہ سندھ طاس معاہدے سے سامنے آنے والے معاشی وسائل سے استعفادہ کرنا چاہیے۔ جن منصوبوں کو حالیہ مہینوں کے دوران منظوری ملی، وہ ساول کوٹ، کوار، پاکال دل، بسار اور کیرتھائی ون اور کیرتھائی ٹو ہیں۔ یہ منصوبے کم و بیش ایک عشرے سے کلیئرنس کے لیے التوا کا شکار تھے۔ سالول کوٹ کی تو 1991ء میں ٹیکنیکل منظوری دی جا چکی تھی لیکن اسے روک لیا گیا۔ اب ان علاقوں سے جنگلات کی کٹائی کا کام کرنا ہے جس کے بعد ریاست مالی وسائل متحرک کرتے ہوئے تعمیراتی عمل شروع کر دے گی۔ کچھ منصوبوں، جیسا کہ پاکال دل کو قانونی مسائل کا سامنا تھا، لیکن اب ان مسائل پر قابو پا لیا گیا ہے۔ جموں اور کشمیر کے وزیر برائے پانی و بجلی نرمل سنگھ نے بتایا کہ ''اب یہ منصوبے عملی شکل اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ جنوری میں وفاقی افسران نے مودی کو انرجی سکیورٹی پر ایک پریزنٹیشن دی، جس میں ایک سو میگاواٹ کے پن بجلی کے منصوبوں کے سود کے نرخوں پر سبسڈی دینے کی تجویز پیش کی گئی۔ تاہم ہیمانشو ٹھاکر، جو کہ South Asia Network on Dams, Rivers & People کے کوارڈینیٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ کچھ منصوبوں کو عوام سے رائے اور ان کے اثرات کا جائزہ لیے بغیر ہی 
شروع کر دیا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ''آپ ایک دریا، چناب پر اتنے زیادہ منصوبے بنا رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک علاقہ ہے۔ یہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں زلزلوں اور سیلابوں کا خطرہ بھی اپنی جگہ پر موجود ہے‘‘۔ لیکن ہندو ذہنیت ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق معاندانہ جذبات کی رو میں رضامندی کے ساتھ ڈوب جانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ پاکستان کی ایک پنجابی فلم کا مکالمہ تھا۔''ککھ نئیں رہنا اپنا تے تیلا نئیں چھڈناں ویریاں دا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں