بھارت کے حالیہ انتخابات میںمسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کم و بیش ہو گیا ہے۔ بی جے پی کا انتہاپرست گروپ ، اترپردیش کے انتخابی نتائج میں مسلمانوں کو بری طرح شکست دینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ مودی صاحب برق رفتاری سے حاصل شدہ نتائج کو ٹھوس حقیقت میں بدلنے کے لئے بیتاب ہیں۔ ان کی سربراہی میں سارے بھارت کے انتہاپسند ہندو ، اترپردیش میں تیز رفتاری سے ڈیرے جمانے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ مودی نے صرف تین سال کی حکومت میں مسلمانوں کو سیاسی منظرسے ہٹانے میں جو کامیابی حاصل کی، اس کی وجہ سے متعصب ہندوئوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ہیں۔ یہ تو خیرگزشتہ انتخابی نتائج میں ہی ظاہر ہو گیا تھا کہ مودی اپنے پہلے پڑائو میں مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ قریباً 20 کروڑ کی آبادی میں مسلمانوں کو صرف 10 سیٹیں حاصل ہو سکیں، جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ انتخابات سے پہلے بی جے پی کی قیادت راج ناتھ سنگھ کو ریاست کاوزیراعلیٰ بنانے کا سوچ رہی تھی۔ لیکن جیسے ہی حالیہ نتائج سامنے آئے، بی جے پی کے مسلم دشمن عناصر کے حوصلہ بلند ہو گئے۔ اب وہ دوسال کے اندر ہی یوپی سے مسلمانوں کا وجود ختم کرنے کے عمل میں تیزرفتاری سے کام لینے پر تل گئے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ بنا کر، تیزرفتاری سے اپنے مذموم منصوبے کے تحت دوسال بعد ہونے والے انتخابات تک مقاصد حاصل کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ جلد بازی کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا، ساتھ ہی پورے یو پی میں مسلمانوں کی بستیوں میںاشتہار تقسیم ہو گئے، جن میں کہا گیا تھا کہ اب مسلمانوں کے رہنے کے لئے یوپی میں کوئی جگہ نہیں رہ گئی۔ بہتر ہو گا کہ وہ آرام سے اپنا علاقہ چھوڑ کر کہیں اور بسیرا کر لیں۔ بی جے پی کی ایسی دھمکیاں ہمیشہ بھیانک عزائم کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ یو پی کے مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ اپنی بقاء کے لئے کیا راستہ اختیار کریں؟ صوبے اور ملک میں بی جے پی کا راج ہے۔ آدتیہ ناتھ یوگی کا گروپ صوبے اور نریندر مودی مرکز میں حکمران ہیں۔ دونوں کے مقاصد میں یکسانیت ہے اور دونوں یہ ٹھان کر دوسرے عام انتخابات کی تیاری کریں گے کہ اگلے مرحلے میں یوپی پر بلاشرکت غیرے قبضہ کر لیا جائے۔ صوبائی حکومت کی سطح پر یہ مقصد حاصل کیا جا چکا ہے۔ مسلمانوں کا پوری طرح صفایا کر دیا جائے گا۔انتخابی فہرستوں میں سے مسلمانوں کی آدھی آبادی کے نام نکال دیئے جائیں گے اور اس ہمہ گیر چھانٹی کے نتیجے میں مسلمان آبادی کو گزشتہ انتخابات کی نسبت نصف کے قریب چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ہر چنگیزی حربہ استعمال کیا جائے گا اور منصوبے کے مطابق مسلمانوں کی آدھی آبادی کو یو پی سے باہر دھکیل دیا جائے گا۔آئندہ کے انتخابات میں بھارت کی مسلم آبادی کوقریب قریب نصف کر کے رکھ دیا جائے گا۔ اگلے عام انتخابات کے بعد بی جے پی کا منصوبہ پورے بھارت پر قبضہ جمانے کا ہے۔
اتر پردیش میں ایک تاریخی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کے پاس یہ سنہرا موقع تھا کہ روایتی امیج ''ہندو ہردے سمراٹ‘‘ سے بلند کر کے ایک ایسے لیڈر کے طور پر خود کو پیش کرتے جو صرف ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کا ایک اہم لیڈر ہوتا۔ اسمبلی انتخابات کے بعد نریندر مودی نے اس طرح کا بیان بھی دیا کہ وہ ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات اور اتر پردیش کے حالیہ انتخابات کے بعد انہیں جس طرح کا مینڈیٹ حاصل ہوا، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا بھی جا سکتا ہے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت ان کے پیچھے کھڑی ہوئی ہے۔ ممکن ہے جس طرح سے نریندر مودی نے اترپردیش کی کمان یوگی آدتیہ ناتھ کے سپرد کی، اس سے یہی لگتا ہے کہ جیسے ان کو خود پر بھروسہ نہیں اور وہ ایک ایسے فائربرانڈ لیڈر کے سہارے 2019ء کا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں جو اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کے جذبات میں تلاطم پیدا کر سکتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا نام جس طرح اترپردیش کے وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کیا گیا، اس سے کچھ لوگوں کو ضرور حیرانی ہوئی ہو گی لیکن بی جے پی کے اندر ایک بڑے حلقہ میں یوگی آدتیہ ناتھ کے کارناموں کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اترپردیش کے آخری مرحلوں کی پولنگ کے دوران جب نریندر مودی نے قبرستان اور شمشان گھاٹ کا معاملہ اٹھایا تو یہ وزیراعظم کی اپنے ذہن کی اپج نہیں تھی۔ اس سے قبل یوگی آدتیہ ناتھ نے لوک سبھا میں اکھلیش سرکار کو نشانہ بناتے ہوئے قبرستان کو دیئے جانے والے فنڈ کا معاملہ زورشور سے اٹھایا تھا۔ آج بی جے پی کے سینئر لیڈر بھی اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ اس ایشو کو اٹھانے سے بی جے پی کو کافی سیاسی فائدہ حاصل ہوا۔ کئی ایسے بھی مواقع آئے جب یوگی آدتیہ ناتھ کے اشتعال انگیز بیانات کے باعث بی جے پی کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے ''لوجہاد‘‘ اور ''گھرواپسی‘‘ وغیرہ کے ایشو نے بی جے پی کو دفاعی رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں اکثر یہ بھی ہوا کہ انہوں نے بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہندوئوں کو متحد ہونے کی بات تک کہہ ڈالی اور یہاں تک کہا کہ ہندو ،ہندوستان کے راشٹرواد کے نمائندے ہیں اور ہندوئوں کو دبانے کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ہندو توا کے ایجنڈے پر جس طرح یوگی حد سے تجاوز کر گئے اسی لئے بی جے پی کے اندر بھی انہیں کبھی سنجیدہ لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مشرقی اترپردیش میں بی جے پی کے باغیوں نے جو سر ابھارا، اس کی پشت پر یوگی کا ہاتھ تھا۔ بی جے پی نے یوگی آدتیہ ناتھ کے تمام نظریات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اتنی حقیقت تو ضرور تسلیم کر لی کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے سہارے ،پارلیمانی انتخابات کا اگلا قلعہ آسانی سے فتح کیا جا سکتا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے بی جے پی سے الگ ہٹ کر ہندو یواواہنی قائم کر کے، جس طرح ایک بڑی مقبولیت حاصل کی، وہ بھی بی جے پی کی جھولی میں عوام کی ایک بڑی حمایت ڈال سکتی ہے۔
بی جے پی نے یوپی الیکشن سے قبل اور الیکشن کے دوران ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈروں نے اس سلسلہ میں غور و خوض نہ کیا ہو۔ الیکشن ہونے سے کافی پہلے جب اس سلسلہ میں خوروخوض ہوتا تو بات دو ہی ناموں پر آ کر ٹک جاتی۔ ایک طرف تو مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ تھے تو دوسری جانب گورکھپور سے چار مرتبہ لوک سبھا الیکشن جیتنے والے یوگی آدتیہ ناتھ۔ راج ناتھ سنگھ بی جے پی کے کافی سینئر لیڈر ہیں۔ وہ پارٹی کے قومی صدر ہونے کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن ان کی شخصیت میں وہ طلسماتی کشش دکھائی نہیں دیتی جو لوگوں کو اپنی جانب راغب کر سکے۔ اس کے علاوہ راج ناتھ سنگھ نے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کی دوڑ سے خود کو الگ بھی کر دیا۔ جہاں تک یوگی آدتیہ ناتھ کا تعلق ہے تو اترپردیش میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد ذات اور مذہب کی سیاست کے خلاف ترقی کے لئے ملے ووٹ میں یوگی پوری طرح سے فٹ بیٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی اور پارٹی کے صدر امیت شاہ نے بی جے پی کی مستقبل کی حکمت عملی کے تحت یوگی کے نام پر مہر لگا دی۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی بطور وزیراعلیٰ تقرری ایک طرح سے گجرات کے بعد اترپردیش کو ایک تجربہ گاہ بنانا ہے۔ یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گجرات اور اترپردیش کے مزاج میں فرق ہے۔ لوگوں کو بہت دنوں تک خوف اور ڈر کی کیفیت میں مبتلا نہیں رکھا جا سکتا۔ وزیراعلیٰ یوگی نے اگرچہ اپنی پہلی کانفرنس میں قانون کی حکمرانی کی بات زورشور سے اٹھائی اور پولیس و انتظامیہ کے اعلیٰ افسران سے میٹنگ کر کے ریاست کے نظم و نسق کو چست اور درست کرنے کی بات کہی ہے۔ لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ ہندو توا کے نام پر ایک طبقہ جگہ جگہ اشتعال انگیز حرکات پر آمادہ نظر آتا ہے۔ ہندوئوں کی نقل مکانی کا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور اس کی جگہ گائوں گائوں میں آر ایس ایس کی شاخیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان جو برسہابرس سے اتحاد قائم تھا، وہ ایک طرح سے ختم ہو گیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہی۔ ہندو توا وادی طاقتیں یوپی کا الیکشن جیتنے کے بعد اتنے جوش و خروش میں ہیں کہ انہوں نے گائوں میں یہ پرچے تقسیم کرنے شروع کر دیئے ہیں کہ مسلمان فوراً گائوں چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جائیں۔ ابھی گزشتہ دنوں بریلی کے ایک گائوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کے نام سے متنازع پرچے تقسیم کئے گئے، جن میں مسلمانوں کو گائوں چھوڑ کر گھر چلے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی طرح بلند شہر کی ایک مسجد میں بی جے پی کا جھنڈا لگانے کے لئے کچھ شرپسند عناصر ضد کرنے لگے اور انہوں نے وہاں کے مسلمانوں کو دھمکیاں دیں۔ موقع پر پولیس اور پی اے سی آ جانے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ تو نہیں پیش آیا لیکن شرپسندوں کے حوصلے کتنے بلند ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاتے جاتے وہ دھمکی دے گئے کہ ابھی تو وہ لاٹھی ڈنڈے لے کر آئے تھے اگلی مرتبہ تلوار لے کر آئیں گے، تب دیکھتے ہیں کہ کون بچانے آتا ہے؟ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایسے عناصر پر بھی نظر رکھنی ہو گی جو ماحول خراب کر رہے ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یوگی اپنے پورے سیاسی کیریئر کے دوران اشتعال انگیزی اورنفرت پھیلانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ آج وہ کس طرح شرپسند اور سماج دشمن عناصر کو قابو میں لائیں گے؟ یہی ان کا اصل امتحان ہو گا۔