چند روز سے میں ہندو پارٹی بی جے پی کی اترپردیش میں فیصلہ کن کامیابی کے نتائج پڑھ کر قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ضخامت سے قدرے محتاط رہ کر میں ان نتائج کے متوقع اثرات کے بارے میں لکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کی شکست سے بھارتی حکمران طبقے اور قیادتیں آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے مذموم عزائم اور ارادوں کو چھپانے سے گریز نہیں کر رہے۔پرنٹ میڈیا کا بڑا حصہ نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ یہ اپنی طرف سے احتیاط ضرور کرتے ہیں لیکن ان کی خوشیاں اچھل اچھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ ان سے اپنے جذبات چھپائے نہیں جا رہے۔ ان کے جذبات چھپانے کی کوششوں کے باوجود قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ ان کا صدیوں پرانا خواب پورا ہوتا نظر آتا رہا ہے۔ اب تک جو کچھ لکھا گیا یا لکھا جا رہا ہے، اس میں کافی احتیاط کی جا رہی ہے‘ مگر اس احتیاط کے باوجود بھی ان کے حقیقی جذبات چھپائے نہیں چھپ رہے۔ بین السطور بھی جو کچھ لکھا جا رہا ہے، اس میںان کی مذموم خوشیوں اور ارادوں کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ ذیل میں کلدیپ نیئر کا ایک تازہ مضمون پیش کر رہا ہوں۔ کلدیپ اپنی طرف سے بڑا محتاط اور معتدل بننے کی کوشش کرتا ہے‘ اس کے باوجود وہ ہے تو اونچی ذات کا ہندو۔ اترپردیش میںبی جے پی کی بڑی کامیابی کے نتیجے میںکلدیپ نیئر کی خوشیاں چھپائے نہیں چھپ رہیں۔ ان کے قارئین کی بڑی تعداد بیرونی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان کے تازہ مضمون میںبی جے پی کی زبردست کامیابی کا اثر واضح طور سے نظر آ رہا ہے۔ ذیل میں مذکورہ مضمون نذر قارئین کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمایئے۔
''ہم چاہے کتنے بھی جمہوری ہوں ذات پات کے نظام پر مبنی تفریق میں کمی نہیں آئی ۔ آئے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے میں دلتوں کو زندہ جلانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں دہلی کے قریب دادری میں ایک دلت خاندان کو آگ کی نذر کر دیا گیا۔ قومی راجدھانی میں جے این یو کے ایک طالب علم نے اس لئے خود کو پھانسی لگا لی کہ وہ تفریق کے صدمے کو برداشت نہیں کر سکا۔ ایم فل کے 28 سالہ طالب علم نے جے این یو میں پڑھنے کا خواب دیکھا اور چوتھی بار کی کوشش میں اسے وہاں داخلہ مل گیا۔ جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے متھوکرشنن کو سنجیدہ اور عموماً خاموش طبیعت کا بتایا جاتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان واقعات کا معاشرے اور ملک پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ سانحہ ہوتا ہے اور بھلا دیا جاتا ہے‘ حالانکہ پورے ملک کو ہل جانا چاہیے تھا۔ اگر یہی معاملہ اعلیٰ ذات کے کسی طالب علم کے ساتھ ہوتا تو پارلیمنٹ کی توجہ دلانے کے لئے کتنے ہی بیانات جاری ہو جاتے؟ میڈیا بھی یکساں طور پر قصور وار ہے کیوں کہ اس نے اس واقعے کو دیگر خبروں کے مقابلہ میں ثانوی حیثیت دی۔ اس سے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ میڈیا سے وابستہ افراد جو عموماً اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں‘ ابھی اپنی پرانی ذہنیت پر قائم ہیں۔ اس نوجوان کو شدت پسند بتایا گیا ہے لیکن معاملہ یہ نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ مرنے والے طالب علم کے باپ اور بعض طلبا کا بھی خیال ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ پولیس سے متعلقہ شقوں کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی‘ کیونکہ پولیس نے اسے خود کشی کا معاملہ سمجھا تھا۔ اس کے والدین نے سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا؟ کیوں کہ خود سی بی آئی بھی دہلی پولیس پر انحصار کرے گی جو کہ پریشانی میں گھری ہوئی ہے۔ اسی طرح کا مسئلہ اس وقت کھڑا ہوا تھا، جب حیدر آباد یونیورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر روہت دمولا نے گزشتہ سال خود کشی کی تھی۔ تاہم جے این کے طالب علم کی موت کے معاملہ کے برخلاف کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ طلبا سڑک پر نکل آئے تھے اور ان کے احتجاج کے نتیجے میں یونیورسٹی کے شعبوں میں ذمہ داران کی تبدیلی بھی عمل میں آئی۔اتفاق یہ ہے کہ متھو کرشنن نے روہت کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے اس دلت اسکالر کی خود کشی کے لئے حیدر آباد یونیورسٹی کے مبینہ کردار کی مذمت کی تھی۔ جے این یو کے طالب علم نے ایک فیس بک پوسٹ کر کے جے این یو کی داخلہ پالیسی پر تنقید کی تھی، جس میں ظاہر ہے کہ ایسی کئی مثالوں کا ذکر کیا ہو گا، جہاں سے اسے تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یونیورسٹیوں میں اس طرح کے واقعات سے کیا اشارہ ملتا ہے؟ ہمیں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں دلت طلبا کو درپیش مسائل کے حل کے لئے غورو فکر کرنا چاہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب حیدر آباد یونیورسٹی کو روہت کی موت کے بعد طلبا کی معطلی کا ضابطہ نافذ کرنا پڑا۔ واقعی اس کی خود کشی سے لوگوں کو بہت صدمہ پہنچا اور اشتعال آیا۔ اس طرح کے جذبات کا اظہار اس وقت بھی ہوا تھا جب حیدر آباد یونیورسٹی کے ایک اور طالب علم نتھل کمار نے جس کا تعلق سیلم سے تھا 2008ء میں خود کشی کی تھی۔ متھو کرشنن کا تعلق بھی تمل ناڈو میں سیلم سے تھا۔ سال 2007ء سے 2013ء تک حیدر آباد میں زیادہ تر دلت طلبا کی خود کشی کے ایک درجن سے زیادہ واقعات ہو چکے ہیں۔ شمالی ہند میں دلت طلبا کی خود کشی کے دو واقعات آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی میں سامنے آئے تھے۔ 2007ء سے اپریل 2011ء تک دلت طلبا کی خود کشی کے مزید 14 واقعات درج کئے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم خصوصاً دلت طلبا کی خود کشی کے بار بار کے واقعات کے تئیں بے حس ہو گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے کیمپوں میں طلبا کی آبادی کے تنوع میں اضافہ ہوا ہے۔ 2008ء کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں طلبا کی کل تعداد میں 4 فیصد درج فہرست قبائل، 13.5فیصد درج فہرست ذاتیں اور 35 فیصد دیگر پسماندہ طبقات ہیں۔ اکیلے ہندو اس آبادی کا 85 فیصد حصہ تھے جن کے بعد مسلم 8 فیصد اور عیسائی 3 فیصد آتے تھے۔ پھر بھی 25 میں سے 23 دلت تھے۔ ایسے کئی تحقیقی مطالعے ہوئے ہیں کہ تفریق، سماجی اخراج اور تحقیر اس کے غالب اسباب ہیں۔ خود کشی کے بعض معاملات کا تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ اس کا کافی سے زیادہ ثبوت ملا کہ ان غیرمعمولی افراد کو خود کشی کی راہ احتیار کرنے میں ذات پات کی تفریق کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور یہ کہ اشراف کے پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے وہ جگہیں ہیں، جہاں تعصب اتنی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے کہ یہ عام معمول بن گیا ہے۔
2010ء میں پروفیسر میری تھورنٹن اور پانچ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہندوستان اور مملکت متحدہ میں انجام دیئے گئے ایک مطالعہ سے یہ مشاہدہ آیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے کیمپوں میں گروہوں کی الگ الگ شناختیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ بعض علیحدہ شناختیں سہارا دینے والی ہوتی ہیں‘ لیکن بعض اوقات نسل ، علاقہ، قومیت، ذات، طبقہ، مذہب اور صنف جیسی بنیادیں بالواسطہ تفریق کی وجہ ہو سکتی ہیں۔ 2013ء میں سیمسن اوی چگان میں ہندوستان کی ایک اشرافیہ یونیورسٹی میں دلتوں کے تجربے کے بارے میں ایک مطالعے میں یہ مشاہدہ سامنے آیا کہ یہ یونیورسٹی ایک اور اکھاڑہ ہے، جس میں ذات و نسل کی تفریق اب بھی جاری ہے۔ یونیورسٹی کا ماحول دلت اور غیر دلت کے درمیان تفریق مسلط کرتا اور اسے برقرار رکھتا ہے۔ اس صف اول کی یونیورسٹی میں بھی دلت طلبا کو ذات کی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
ایک طرف ہم اعلیٰ تعلیم کے کیمپوں میں ذات کی بنیاد پر تفریق اور تحقیر کے مسئلے کا اعتراف کرتے ہیں تو دوسری طرف خود کشی کو مخصوص حالات کی پیداوار کہنے سے انکار کر کے سماجی اخراج کی وسیع تر ذہنیت سے اس کے تعلق کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس واقعہ کے مخصوص اسباب ہیں‘ لیکن یہ محض اتفاق نہیں کہ خود کشی کرنے والے 25 افراد میں سے 23 دلت ہیں۔ اس لئے پالیسی سازوں کے لئے اولین اہمیت انکار کی ذہنیت سے باہر آنے کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صورتحال بہتر ہوئی ہو گی لیکن ذات کے نظام کی لعنت کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ دلت طلبا کے درمیان دوسرے طلبا کے ساتھ اور طلبا، اساتذہ اور انتظامیہ کے درمیان روابط پر ہمیشہ سوال اٹھتا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں دلت اور دیگر حاشیہ نشین طلبا کے مسائل حل کرنے کے لئے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے ذہن میں واحد حل یہی ہے کہ تفریق کے خلاف قانونی تدابیر اختیار کی جائیں۔ لوگوں کو تمدنی تربیت دی جائے۔ مدد کے ضرورت مند طلبا کو تعلیم سے متعلق مدد فرام کی جائے اور یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تمام فیصلہ ساز مجلسوں میں دلتوں کو شرکت کا موقع دیا جائے۔‘‘