"NNC" (space) message & send to 7575

امریکہ میں بھارتیوں کے برے دن

بھارت نژاد امریکی ،کولمبس کے ایک عوامی پارک میں لطف اندوز ہورہے ہیں۔ آدمی والی بال کھیل رہے ہیں، عورتیں باتیں کرنے میں مشغول جبکہ بچے پلے گرائونڈ میں کھیل رہے ہیں۔ تاہم اس بے ضرر فوٹیج کے سکون بخش ماحول کو ویڈیو کے ساتھ تبصرہ کرنے والی آواز مکدر کردیتی ہے۔ ایک مرد انہ آواز ابھرتی ہے ۔۔۔''یہ تمام علاقہ بھارتی شہریوں پر مشتمل ہے‘‘۔ مبصر اس پارک کو ''منی ممبئی‘ ‘ قرار دیتا ہے اور ساتھ ہی دکھ بھرے لہجے میں کہتا ہے کہ بھارتیوں نے مڈ ویسٹ کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ وہ حیرانی سے کہتا ہے ''امریکیوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ اُن کے ہاتھ سے تمام ملازمتیں چھن چکی ہیں۔‘‘ تین منٹ کی اس فلم(جسے اب یوٹیوب سے ہٹا دیا گیا ہے )کے آخرمیں مبصر کہتا ہے کہ ''یہ ذہن مائوف کردینے والی صورت ِحال ہے ۔۔۔ یہ ملک پر قبضہ کرنے کے مترادف ہے ۔‘‘
اس ویڈیو کو گزشتہ اگست میں پوسٹ کیا گیا تھا، لیکن اسے حالیہ دنوں ہی زیادہ تر افراد نے دیکھا ہے۔ اس کے ناظرین کی تعداد نصف ملین تک پہنچ گئی، اور اس کے بعد بھارت نژاد امریکیوں پر حملوں کے واقعات شروع ہوگئے ۔ گزشتہ فروری اور موجودہ ماہ، مارچ کے دوہفتوںکے دوران کنساس میں ایک بھارتی انجینئر ، سری نواس کوچی بھوتلا(Srinivas Kuchibhotla)کو گولی مار کر ہلاک کردیاگیا(ایک اور بھارتی دوست، الوک مداسانی پر بھی فائرنگ کی گئی لیکن وہ بچ نکلے )۔ واشنگٹن ریاست میں ایک سکھ ، جس کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی، کو بھی گولی کا نشانہ بنایا گیالیکن وہ بھی بچ گیا۔ جنوبی کیرولینا میں ایک سٹور کے مالک، ہرنیش پٹیل،کوگولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ پہلے دونوں واقعات کے دوران حملہ آور اپنے اہداف کی قومیت کو واضح کرتے ہوئے نفرت انگیز نعرے بلند کررہے تھے۔ تاہم تیسرے حملے کے پیچھے محرکات، تاحال واضح نہیں۔ اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ ایسے افسوس ناک پرتشدد واقعات غیر معمولی نہیں ہیں۔ نائن الیون حملوں کے بعد، نوماہ تک امریکہ میں مقیم بھارتیوں پر نصف درجن حملے کئے گئے ۔اس کے علاوہ جنوری اور جولائی 2015 ء کے درمیان نیوجرسی کے علاقے میں بھارتیوں پر حملوں کے پانچ واقعات دیکھنے میں آئے۔ ان میں سے کچھ کیسز ایسے تھے، جن میں بھارتیوں پر شرق اوسط کے شہری سمجھ کر حملے کئے گئے ۔ تاہم تشدد کی نئی لہر بطور ِ خاصی تشویش ناک ہے کیونکہ امریکہ میں مقیم بہت سے بھارتی تارکین ِوطن، نئی امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے تنائو کاشکارہیں۔ ان پالیسیوں کے مضمرات ظاہر ہورہے ہیں، نیز امریکہ میں نئے آنے والے بھارتیوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہ امریکہ میں مقیم تین ملین بھارتی باشندوں کے علاوہ ،دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے بری خبر ہے کیونکہ اتنی کثیر تعداد میں بھارتیوں کی امریکہ میں موجودگی ان کے تعلقات کو مضبوط بنانے کی ایک اہم کڑی ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر قانونی تارکین ِوطن کو واپس بھیجنے کا عمل تیز تر کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال پیورریسرچ سنٹر کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 5لاکھ کے قریب غیر قانونی طور پر مقیم بھارتی شہری موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی واپس نہیں گئے ۔ 
سچی بات یہ ہے کہ امریکہ میں آباد زیادہ تربھارتی قانونی طور پر آتے ہیں یا یہاں قیام کرنے کا لیگل سٹیٹس حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نومبر 2016 ء کی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ رپورٹس کے مطابق، مستقل رہائش کا حق حاصل کرنے والے چالیس لاکھ درخواست گزاروں میں سے تین لاکھ تیس ہزار بھارتی باشندے ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کے کریک ڈائون نے بھارتیوںکو ہراساں کردیا ہے۔ ماضی میں ایک دائیں بازو کی ویب سائٹ Breitbart میں کام کرنے والے ایک صاحب، Bannon ( ایک سابق میڈیا ایگزیکٹو اور موجودہ دنوں ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ترین پالیسی ساز) کو شکایت رہی ہے کہ ا مریکی یونیورسٹیوں اور سلیکون ویلی میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے انجینئرنگ کے طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ وائٹ ہائوس میں Bannon کے بہت زیادہ اثرورسوخ کو دیکھتے ہوئے، ایسے تبصروں کے عملی نتائج خارج ازامکان نہیں اور نہ ہی انہیں محض بیان کی حد تک محدود سمجھنا چاہیے ۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم پر، فی الحال کسی حلقے نے، قول و فعل کے تضاد کا الزام نہیں لگایا ہے ۔ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ H-1B ویزہ پروگرام کو محدود کردیں گے ۔ اس ویزے کی رو سے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہر انجینئرز کو امریکہ میں کام کرنے کی اجازت ہے ۔ حالیہ اندازے کے مطابق سالانہ H-1B ویزہ حاصل کرنے والے 85000 افراد میں سے 70 فیصد بھارتی ہوتے ہیں۔ جنوری میں ایوان ِ نمائندگان نے قانون سازی کرتے ہوئے H-1B ویزہ رکھنے والوں کی کم از کم سالانہ تنخواہ کو دگنا کرکے 130,000 ڈالرکردیا تھا۔اس سے کمپنیوں کے لیے غیر ملکی ماہرین کو ملازمت دینا مشکل ہوجائے گا۔ اس ماہ کے آغا ز میںٹرمپ انتظامیہ نے اس تیز تر طریق ِ کار کو معطل کردیا تھا، جس کے تحت عمومی طور پر 3سے 6ماہ تک درکار معیاری مدت کے دوران ویزے کی فراہمی صرف پندرہ دن میں ممکن ہوجاتی ہے ۔ 
یہ تمام پیش رفت، خاص طور پر بھارت نژاد امریکیوں پر حملے اور H-1Bویزہ پروگرام پر قانون سازی بھارتی میڈیا کی شہ سرخیاں بن چکی ہیں۔ انڈین سوشل میڈیا پر بھی اس کے بارے میں انتہا ئی تشوش کا اظہار کیا جارہا ہے ۔بھارتی میڈیا نے بھارتی انجینئر ، سری نواس کوچی بھوتلاکی ہلاکت پر ٹرمپ کی خاموشی کو اجاگر کرتے ہوئے اس جرم کو ''نسلی ،لسانی ، مذہبی اور قومی عصبیت ‘‘کا شاخسانہ قرار دیا۔ کہا گیا کہ یہ واقعہ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی کا سائیڈ افیکٹ ہے ۔ بھارتی نیوز چینلز نے اپنے پرائم ٹائم میں ٹرمپ کی امیگریشن کی پالیسیوں، ان کے بھارتی تارکین وطن اور دونوں ممالک کے تعلقات پر اثرات کا جائزہ لیا ہے ۔ٹی وی پر ہونے والے مباحثے کے پروگراموں میں اینکرز نے شرکا سے پوچھا کہ اس پر نئی دہلی کا رد ِعمل کیا ہونا چاہیے؟ تو اکثرشرکا نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو 'ناخوشگوار ناگزیر صورت ِحال ‘قرار دیتے ہوئے کھل کر تنقید کرنے سے گریز کیا، جبکہ کچھ نے اسے ''میڈیا کی طرف سے بڑھا چڑھا کر چلائی جانے والی مہم ‘‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ بہرحال اس بات پر اتفاق موجود تھا کہ اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔اس دوران کچھ دلیر میڈیا مبصرین نے امریکہ میں پائی جانے والی صورت ِحال کابھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے ساتھ بھی موازنہ کرنے کی کوشش کی ۔ کہا گیا کہ مودی کی حکمرانی میں بھارت بھی اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ہوچکا ہے ، اور یہاں بھی نسلی اور مسلکی امتیاز کی فضا گہری ہوتے ہوئے خطرناک مضمرات کی یاد دلاتی ہے ۔کچھ مبصرین نے یاد لایا کہ نسلی بنیادوں پر حملوں کے بارے میں نئی دہلی نے بھی خاموشی اختیار کی تھی ۔ 
امریکہ میں مقیم بھارتی باشندے تعلیم یافتہ اور روانی سے انگریزی بولتے ہیں۔ ان کی امریکہ میں موجودگی بذات خود امریکی معاشرے کے توازن اور اعتدال کے لئے ضروری ہے (بھارتی تارکین وطن امریکی آبادی کا ایک فیصد ہیں)اورجیسا کہ بہت سے انڈین امریکن لابی گروپس کا خیال ہے کہ ان کا معیشت، سماج اور سیاست میں بھی کردار بہت اہم ہے ۔ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران، انڈین امریکن کمیونٹی نے سیاست اور دیگرامور میں ،اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کی وجہ سے امریکہ اور انڈیا کے تعلقات بھی بتدریج گہرائی اختیار کرتے جارہے ہیں۔بھارت نژاد امریکیوں نے امریکی قانون سازوں کو قائل کرتے ہوئے بھارت کے متعلق امریکی پالیسیاں تبدیل کرانے، خاص طور پر 2005 ء کا سول ایٹمی معاہدہ طے کرانے، میں اہم کردار ادا کیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں مقیم بھارتیوں نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ خاص طور پر سلیکون ویلی اور میڈیکل کے شعبے میں، ان کی موجودگی بہت توانا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی امریکہ اور انڈیا ، جوکبھی مخالف سمجھے جاتے تھے، قریب آگئے ہیں۔ 
تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن کی پالیسیوں اور بھارتی نژاد امریکیوں پر حملوں کے واقعات نے انہیں پریشان کردیا ہے ۔ یہ باشندے روایتی طور پر ڈیموکریٹس کے ووٹر ہیں، چنانچہ ان کی پریشانی قابل فہم بھی ہے ۔ گزشتہ ماہ کئی انڈین امریکن ارکان نے President's White House Initiative on Asian Americans and Pacific Islanders سے استعفیٰ دیدیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیساں ہیں۔ اُن میں سے ایک، شیکر نراسیمہان نے ٹرمپ کے لیے بہت سخت الفاظ بھی استعمال کیے ۔ اُنہوںنے کہا کہ ''اُن کے ہاتھوں پر خون لگاہوا ہے ۔‘‘مسٹر شیکر بھارتی باشندوں پر حملوں کے حوالے سے بات کررہے تھے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے نفرت اور تعصب کا ماحول گہرا کردیا ہے ، چنانچہ نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوتا دکھائی دے گا۔ تمام ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کی امیگریشن کی پالیسیوں کو ہدف ِ تنقید بنایا ہے ۔ ان پالیسیوں اور بھارتی باشندوں پر امریکہ میں حملوں نے نئی دہلی کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ امریکہ انڈیا کی طاقتور ہائی ٹیک انڈسٹری میں 65 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری رکھتا ہے اور یہ کمپنیاں بہت سے بھارتی ماہرین کو H-1B ویزے کے تحت امریکہ بھجواتی ہیں۔ نریندر مودی نے ٹرمپ کے ساتھ H-1B ویزے کا ایشو اٹھایا تھا ۔ اسی طرح بھارت کے سیکرٹری خارجہ ، سبرامنیم جے شنکر کے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران امیگریشن کے ایشوز بھی ایجنڈے پر موجود تھے ۔ نئی دہلی کسی طور پر ٹرمپ کے فیصلوں پر خوش نہیں ہوگا۔ فی الحال انڈین باشندوں پر حملوں پر نئی دہلی نے خاموشی اختیارکی ہے لیکن اگر یہ حملے جاری رہتے ہیں تو پھر بھارتیوں کی امریکہ آمدکا سلسلہ رک جائے گا۔ (زیرنظر مضمون ''فارن پالیسی میگزین‘‘ سے لیا گیا)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں