عراق کے دوسرے بڑے شہر میں حکومتی دستے آہستہ آہستہ شہر کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں اور باقی تاریخی مقامات کے علاوہ وہ مسجد النوری کی جانب بھی پیش قدمی کر رہے ہیں۔ایک جانب جھُکے ہوئے مینار والی یہ مسجد ،موصل کے قدیمی علاقے کے مشہور ترین تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ یہ مسجد اپنے آپ کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے خلاف شامی حکومت کی جنگ کی بھی ایک بڑی علامت بن چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جون 2014ء میں جب دولت اسلامیہ نے اس شہر پر قبضہ کیا تو اس کے ایک ماہ بعد اس شدت پسند تنظیم کے رہنما ابوبکر البغدادی نے اسی مسجد میں کھڑے ہو کر ایک نئی ''خلافت‘‘ کا اعلان کیا تھا۔مسجد النوری کا نام موصل اور حلب کے مشہور ترک حکمران نورالدین زنگی کے نام پر رکھا گیا تھا ،جس نے اس مسجد کی تعمیر کا حکم 1172ء میں دیا تھا۔ اس کے دو سال بعد نورالدین زنگی انتقال کر گئے۔
نورا لدین زنگی کی بڑی وجہ شہرت یہ ہے کہ انہوںنے مختلف علاقوں کی مسلمان افواج کو یکجا کر کے عیسائی صلیبیوں کے خلاف جہاد کا پیغام دیا تھا۔اپنے 28 سالہ دورِ اقتدار میں نورالدین زنگی نے نہ صرف دمشق پر قبضہ کیا بلکہ مستقبل میں صلاح الدین ایوبی کو ملنے والی کامیابیوں کی بنیاد رکھی۔ اُس وقت صلاح الدین ایوبی مصر میں نورالدین زنگی کی فوج کے کمانڈر تھے اور پھر اپنے رہنما کے انتقال کے بعد 1187ء میں انہوںنے بیت المقدس کو آزاد کرایا اور ایوبی عہد کی بنیاد رکھی۔ دولتِ اسلامیہ اور دیگر جہادی گروہ نورالدین زنگی کا احترام اس وجہ سے بھی زیادہ کرتے ہیں کہ یہ نورالدین زنگی ہی تھے جنہوںنے شام میں شیعہ اسلام کی جگہ سُنّی قدامت پسندی کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔اتنی بڑی تاریخی شخصیت سے نسبت کے باوجود، اس قدیم مسجد کی اصل عمارت تباہ ہو چکی ہے اور اس کے ترچھے مینار، کچھ ستونوں اور محراب کے علاوہ کوئی چیز اپنی اصل حالت میں نہیں ہے۔
مسجد کے مینار کا بیرونی حصہ ایرانی طرز تعمیر کی ایک عمدہ مثال ہے، جس میں اینٹوں کو اس انداز میں لگایا گیا ہے کہ سادہ اینٹیں بھی ایک خوبصورت نمونہ پیش کرتی ہیں۔ مینار کی چوٹی ایک گنبد کی شکل میں ہے ،جس پر سفید پلستر لگا ہوا ہے۔جب یہ مینار تعمیر کیا گیا تھا تو اس کی اونچائی 150 فٹ تھی لیکن جب 14 ویں صدی میں مشہور سیاح ابن بطوطہ کا موصل سے گزر ہوا تو انہوںنے دیکھا کہ مینار اُس وقت بھی ایک جانب جھک چکا تھا۔ اسی لئے اُس وقت بھی اس مینار کو لوگ ''الہبدا‘‘ یا ''کوہان‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔مینار کے ایک جانب جھک جانے کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مقامی روایت کے مطابق جب پیغمبرِ اسلام معراج پر جا رہے تھے اور یہاں سے گزرے تو مینار ان کے احترام میں جُھک گیا۔ یہ روایت سناتے ہوئے مقامی لوگ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام اس مینار کی تعمیر سے صدیوں پہلے وصال فرما چکے تھے۔
جہاں تک ماہرین کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ اس جھکاؤ کی وجہ اس علاقے میں شمال مغرب سے چلنے والی ہوائیں، اینٹوں پر جنوب سے پڑنے والی تیز دھوپ یا وہ کمزور جِپسم ہے جو اینٹوں کے درمیان لگا ہوا ہے۔صدیوں بعد عراق اور ایران کی جنگ کے دوران موصل پر گرنے والے بموں کی وجہ سے مینار کے قریب زیرِ زمین لگے ہوئے پائپ ٹوٹ گئے تھے ،جس کے بعد مینار کی بنیادوں میں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس نمی نے مینار کو مزید کمزور کر دیا ہو۔ 2012 ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ''یونیسکو‘‘ نے مینار کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا جھکاؤ دو اعشاریہ پانچ میٹر ہے۔ ادارے نے خبردار کیا کہ مینار کی شکست و ریخت کا عمل جاری ہے اور اگر خاطر خواہ اقدام نہ کئے گئے تو یہ گِر جائے گا۔اسی خدشے کے پیش نظر یونیسکو نے دو جون 2014ء کو صوبہ نینوا میں آثار قدیمہ کی بحالی ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا ،جس کا بڑا مقصد اس مینار کو ایک مرتبہ پھر مضبوط کرنا تھا۔ لیکن اُسی ہفتے کے دوران دولتِ اسلامیہ، جسے اس وقت دولتِ اسلامیہ العراق والشام کہا جاتا تھا، اس کے جنگجوؤں نے شہر پر دھاوا بول دیا اور وہاں لڑائی شروع ہو گئی۔ موصل کو روندنے کے بعد دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے شمال مغرب میں بغداد کی جانب اپنی چڑھائی جاری رکھی اور چند دنوں کے اندر اندر نینوا، صلاح الدین اور دیالہ کے صوبوں کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق 12 جون کو عسکریت پسندوں نے اس عظیم مسجد کے امام، محمد المنصوری، کو اس وقت موت کی سزا سنا کر مار دیا ،جب انہوںنے دولتِ اسلامیہ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور پھر جون کے مہینے کے ختم ہوتے ہوتے دولتِ اسلامیہ نے باقاعدہ خلافت کا اعلان کر دیا۔تنظیم نے جس شخص کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا وہ ابوبکر البغدادی تھے۔ چند ہی دن بعد چار جولائی کو البغدادی نے اسی مسجد میں جمعے کا خطبہ دیا اور یہ وہ موقع تھا جب عام لوگوں نے انہیںکئی سالوں میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ سیاہ جُبّے میں ملبوس اور سر پر سیاہ عمامہ باندھے، جب وہ منبر پر نمودار ہوئے تو اصل میں وہ اس بات کا اشارہ دے رہے تھے کہ ان کا تعلق پیغمبر اسلام کے خاندان قریش سے ہے اور وہی اصل خلیفہ ہیں۔اپنی تقریر میں البغدادی کا کہنا تھا کہ انہیں''اہلِ ایمان کی خلافت‘‘ کا کوئی شوق نہیں تھا بلکہ انہوںنے یہ عہدہ ایک بڑی ذمہ داری سمجھتے ہوئے قبول کیا ہے۔''اللہ نے آپ کے مجاہدین بھائیوں پر اپنا خاص کرم کیا ہے اورانہیںکامیابی عطا کی ہے اور انہیںبرسوں کے جہاد، صبر اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف خوفناک جنگ کے بعد اس مقام سے نوازا ہے۔ ان مجاہدین نے بڑی جلدی خلافت کا اعلان کر دیا ہے اور ایک امام چن لیا ہے‘‘اورپھر خلیفہ اوّل اور اپنے ہمنام، حضرت ابوبکرؓ، کے پہلے خطبے سے الفاظ چراتے ہوئے انہوں کہا کہ وہ حاضرین میں سے ''بہترین مسلمان نہیں ہیں‘ لیکن 'اگر آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں صحیح راستے پر ہوں، تو میری مدد کیجیے اور اگر میں غلط کام کروں تو میری رہنمائی کیجیے۔‘‘
موصل کے لوگ بتاتے ہیں کہ ان دنوں شہر کے رہائشیوں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا تھا کہ وہ جمعے کے اجتماع میں شرکت کریں۔ مسجد میں داخل ہونے پر ان کی تفصیلی جامہ تلاشی ہوتی تھی اور ہر کسی کو بتا دیا جاتا تھا کہ اس نے کس جگہ اور کس انداز میں بیٹھنا ہے۔
جولائی کے آخری دنوں میں موصل کے لوگوں نے شکایت کر دی کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے مسجد کے مینار کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ شدت پسندوں کے خیال میں مسلمان اور غیرمسلمان اس مینار کو مقدس سمجھتے ہیں اور یہ بت پرستی کے مترادف ہے۔ دو مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ جب یہ جنگجو بھاری مقدار میں بارود لے کر مسجد میں پہنچے تو اس کے صحن میں لوگوں کا ہجوم ہو گیا اور انہوںنے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر مینار کے ارد گرد انسانی زنجیر بنا لی۔کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ کر جنگجو وہاں سے پیچھے ہٹ گئے اور جب ایک شخص نے کہا کہ' 'اس مینار کو گرانے کے لئے تم لوگوں کو ہماری لاشوں سے گزرنا ہوگا‘‘ تو انہوںنے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور وہاں سے چلے گئے۔مقامی لوگوں کو یقین تھا کہ یہ جنگجو واپس ضرور آئیں گے اور اس مینار کو گرا دیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ ترچھا مینار آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اور حکومتی دستے آہستہ ہستہ موصل پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔