''بالآخر اس کھیل کا انجام ہونے کو ہے جو آج سے چھ سال پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ دو ہزار گیارہ کے اوائل کا قصہ ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت تھی اور نواز شریف ڈیل کے تحت انتخاب لڑنے کے اہل نہیں تھے لہٰذا قومی اسمبلی سے باہر تھے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی تاریخ کافی پرانی اور تلخ ہے۔ جبکہ ان کے برادر خورد ہمیشہ سے ان حلقوں کے فیورٹ رہے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔اسی سال کے شروع میں چوہدری نثار کے ذریعے نواز شریف نے جی ایچ کیو سے دوبارہ رابطہ استوار کرنے کی کوششیں کیں۔ اس کی فوری وجہ سیاسی منظرنامے پر عمران خان کی دھماکہ خیز آمد تھی۔ نواز شریف جو اگلے انتخاب کو اپنی جیب میں سمجھ رہے تھے ان کے لیے یہ امر بہت تشویش ناک تھا۔ عام خیال کے برعکس عمران خان کے سیاسی ابھار کی وجہ مقتدر حلقوں کی حمایت نہیں تھی۔ اصل بات اس سے بالکل الٹ تھی۔ عمران خان انہی معاملات کو لے کر چل رہے تھے جو عام آدمی کے دل میں تھے۔ مثال کے طور پر ڈرون حملے، پاکستان میں غیرملکی مداخلت، کرپشن، اقربا پروری، موروثی سیاست، میرٹ کا قتلِ عام وغیرہ۔ عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک نیا مظہر تھا۔ روایتی دائیں بازو کا ووٹر تو ان سے متاثر تھا ہی لیکن شہری علاقوں کی اپر مڈل اور اپر کلاس جو روایتی طور پر سنٹر کا ووٹ سمجھی جاتی ہے وہ عمران خان کی پرجوش حمایت میں نکل آئی۔ یہ صورتحال ن لیگ اور نواز شریف کے لئے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھی۔
یہ رائے ونڈ کے شریف محلات کے ایک عالیشان کمرے میں ن لیگ کے تھنک ٹینک کے اجلاس کا منظر تھا۔ حاضرین میں نواز شریف، چوہدری نثار، اسحاق ڈار، شہباز شریف اور ایک حاضر سروس ہستی موجود تھی۔ اس اجلاس کا یک نکاتی ایجنڈا ''عمران کا رستہ کیسے روکا جائے؟‘‘تھا۔ بات چوہدری نثار نے شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بجائے عمران کی مخالفت کے اس کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ قومی اسمبلی کی پچاس سیٹیں ، پنجاب میں سینئر وزیر اور چھ وزارتیں اور کے پی کے کی وزارت اعلیٰ پی ٹی آئی کو آفر کرنی چاہیے۔ شہباز شریف اس سے متفق تھے۔ انہوں نے اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کلین امیج کا ہمیں بھی فائدہ ہوگا اگر ہم اس کے ساتھ انتخابی اتحاد کرلیں۔ شہباز شریف نے مہاتیر محمد سے ملاقات کا بھی ذکر کیا۔ مہاتیر جب پاکستان کے دورے پر آئے تو شہباز شریف سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس ملاقات میں شہباز شریف کو بتایا کہ آپ کے پاس ایک ایسا شخص موجود ہے جو اس ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ شہباز شریف کے استفسار پر انہوں نے عمران خان کا نام لیا اور کہا کہ یہ شخص قائد اعظم ثانی ہے۔ اگر یہ ملائشیا میں ہوتا تو ہم شاید پوری دنیا پر حکمرانی کرر ہے ہوتے۔ مہاتیر نے یہ مشورہ بھی دیا کہ آپ اس کے ساتھ مل کے اگلا انتخاب لڑیں۔ لوگ آپ پر نوٹ اور ووٹ نچھاور کردیں گے۔ نواز شریف خاموشی سے یہ سب سن رہے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں؟۔ شہباز شریف خاموش ہوئے تو نوا ز شریف نے گفتگو کا آغاز کیا۔ ان کی لہجے کی تلخی محسوس کی جاسکتی تھی۔ انہوں نے نثار/شہباز کی تجویز کو کْلّی طور پر رد کرتے ہوئے محفل کے پانچویں فرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھیے‘ ان کی عمران خان کے بارے کیا رائے ہے؟ حاضر سروس ہستی نے ختم ہوتے سگریٹ سے اگلا سگریٹ سلگایا۔ لمبا کَش لیا اور اپنی مخصوص دھیمی آواز میں کہنے لگے۔ ''عمران اس ملک کے پاور سٹرکچر کا سٹیک ہولڈر بن گیا تو ہم سب مارے جائیں گے۔ ہم کسی بھی صورت یہ رسک نہیں لے سکتے۔‘‘ انہوں نے بطور خاص نثار اور شہباز سے مخاطب ہوکر کہا کہ اگر آپ اس سے متفق نہیں ہیں تو ہم پی پی سے بات کرلیتے ہیں۔ لیکن عمران کا آنا کسی بھی صورت ہمیں قبول نہیں ہے۔اسحاق ڈار جو اس اجلاس میں اب تک خاموش تھے۔ انہوں نے اپنے بریف کیس سے کاغذات کا پلندہ نکال کر میز پر دھرا اور بولے۔ یہ سب ہمیں پاکستان واپس لانا پڑے گا۔ آپ کو اندازہ ہے کہ یہ سب کتنا ہے؟ 23 بلین ڈالرز۔ یہ ہماری ساری زندگی کی کمائی ہے۔ آپ یہ سب برباد کرنے کو تیار ہیں؟بظاہرشہباز اور نثار لاجواب ہوچکے تھے۔ نواز شریف ، اسحاق ڈار اور حاضر سروس اس معاملے پر ایک پیج پر تھے کہ عمران کو روکا جانا چاہیے۔ شہباز اور نثار کو بھی بادلِ نخواستہ ہاں میں ہاں ملانی پڑی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب ویسا نہیں تھا جیسا عام طور پر سمجھایا یا دکھایا گیا۔ حاضر سروس ہستی کے خاندان کے افراد کو بڑے بڑے ٹھیکے ملے۔ ان کے ایک معتمد جن پر عمران کی سیاسی اتالیقی کا الزام تواتر سے آج تک لگایا جاتا ہے۔ انہوں نے بھی اس گنگا میں جی بھر کے اشنان کیا۔ یہ سموک سکرین تھی تاکہ لوگوں اور میڈیا میں یہ تاثر بنایا جائے کہ پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی سیاسی حمایت کے پیچھے مقتدر حلقے ہیں اور یہ تاثر کامیابی سے بنایا گیا۔
اس اجلاس میں طے پانے والی ڈیل کے باوجود عمران اور پی ٹی آئی کا راستہ روکنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔ مقتدر حلقوں کی اپنی ایجنسیوں کے سروے اور رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی ساٹھ فیصد نشستیں جیتنے جارہی تھی۔ یہ صورتحال جہاں ن لیگ کے لیے خوفناک تھی وہیں کچھ حاضر سروس لوگوں کے لیے بھی بے خواب راتوں کا سبب بنی ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کے لیے ہر حربہ آزمایا جارہا تھا۔ الیکٹ ایبلز کو ہانکا لگا کر ن لیگ میں دھکیلا جا رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے انکار کرنے کی جرات کی تو انہیں جانی و مالی طور پر نقصان پہنچا کر عبرت ناک مثال بنایا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا پورے کا پورا خرید لیا گیا تھا۔ صرف اس مد میں 74 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ عمران خان کو مختلف لوگوں کے ذریعے ترغیبات ا وردھمکیاں بھی دی گئیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ خان کے چہرے پر سوائے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے کوئی تاثر نہیں ہوتا تھا۔ سب حربوں کے باوجود پی ٹی آئی پنجاب میں میدان مارتی جارہی تھی۔ میٹرو او ر لیپ ٹاپ جیسے مہنگے اور بلاضرورت منصوبوں کے باوجود لوگ ن لیگ سے متنفر ہوتے جارہے تھے۔ اس موقع پر آخری داؤ کھیلا گیا۔
جب یہ نظر آنے لگا کہ انتخابات میں پی ٹی آئی واضح اکثریت سے جیتنے جارہی ہے تو انتخابات ملتوی کرنے کا منصوبہ بنا۔ اس کام کے لیے مقتدر حلقوں نے اپنے آزمائے ہوئے طاہر القادری کو میدان میں اتارا۔ عام تاثر یہی تھا کہ طاہر القادری، نواز شریف دشمنی میں یہ سب کررہے ہیں جبکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔ اس کے برعکس قادری کے دھرنے کا سارا خرچہ بمع قیمے والے کباب اور ساڑھے سات ارب روپے کیش، نواز شریف نے اپنی جیبِ خاص سے ادا کیا۔ پلان یہ تھا کہ قادری کے دھرنے کو جواز بنا کر انتخابات ملتوی کردئیے جائیں۔ تین سال کے لیے نگران حکومت بنا دی جائے اور اس عرصے میں پی ٹی آئی کا مکمل صفایا کرکے انتخابات کرادئیے جائیں۔ اس ظالمانہ نظام کو بچانے کا یہ حربہ بھی ناکام گیا۔ قادری کا دھرنا ایک مذاق ثابت ہوا۔ اس میں اہم کردار پھر پی ٹی آئی کا تھا۔ عمران خان نے اس دھرنے کی شدت سے مخالفت کی۔ جبکہ سوشل میڈیا پر موجود پی ٹی آئی کے نوجوانوں نے اس کو ایک مذاق بنا کے رکھ دیا۔ ایک اور وار خالی گیا۔
انتخابات سر پر تھے اور آزادانہ سروے، ملکی اور غیر ملکی انٹیلی جنس رپورٹس پی ٹی آئی کی لینڈ سلائڈ فتح کی پیش گوئی کررہی تھیں۔ اگر کہا جائے کہ پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ رہی تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ عمران خان کو بطور وزیر اعظم پاکستان ہضم کرنا پاکستانی اشرافیہ، مقتدر طبقات کے علاوہ بین الاقوامی اشرافیہ کے لیے بھی ڈراؤنا خواب ثابت ہوسکتا تھا۔ اس بھیانک خواب سے بچنے کے لیے اس کھیل کا آغاز ہوا جسے اسرائیل کی تخلیق کے بعد شاید سب سے بڑی سازش قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کھیل میں سبھی ملکی اور غیر ملکی کھلاڑی شامل تھے۔ پاکستا ن کا ایک ''دوست‘‘ ملک، ایک دشمن ہمسایہ، عالم اسلام کے قلب میں گڑا ہوا خنجر اور اس کا سرپرست سب اکٹھے تھے۔ سب کا مقصد صرف ایک تھا۔ پی ٹی آئی کا راستہ روکنا۔ اس کے لیے پاکستان میں خرید و فروخت کا ایسا بازار لگا جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ کیا صاف شفاف سیاستدان، کیا سو کالڈ ایماندار جج اور کیا باضمیر صحافی، سب اس بازار میں برائے فروخت تھے۔ اس کام کے لیے ایک سو سترہ ارب روپے مختص ہوئے۔ لیکن ایک بات شاید خریدنے والے بھول گئے۔ عوام کو خریدنا ممکن نہیں ہوتا۔ آخر گیارہ مئی کا دن آپہنچا۔ انتخاب ہوا اور تمام تر دھاندلی، دھونس اور بدمعاشی کے باوجود پی ٹی آئی نے میدان مار لیا۔ سب منصوبے، خرید و فروخت، سازشی پلان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کے پی کے ابتدائی انتخابی نتائج آنے کے بعد جب منصوبہ سازوں کو احساس ہوا کہ ان کی ساری کوششیں نقشِ بر آب ثابت ہوئی ہیں تو ''پلان بی‘‘ پر عمل در آمد شروع کردیا گیا۔ نتائج روک دئیے گئے۔ ریٹرننگ آفیسرز کو یرغمال بنا لیا گیا اور جس نے چوں چرا کرنے کی کوشش کی اسے خاندان سمیت عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ تعاون کرنے والوں کو نقد اور آؤٹ آف ٹرن ترقی کے وعدے کیے گئے جو بعد میں پورے بھی ہوئے۔ ایک سابق نگران وزیر اعلیٰ پر ہوئی عنایتیں سب کے سامنے ہیں ۔ ‘ ‘... (جاری)
نوٹ:(پڑھنے والوں )سے درخواست ہے کہ اس تحریر کے مندرجات کو قانونی طریقہ کار سے پرکھنے کی بجائے ایک عامل صحافی کی باطنی صلاحیتوں پر محمول کریں۔کالم میں درج واقعات کو حقیقی سمجھنے کی بجائے مضمون کے رنگ سے لطف اندوز ہوں۔ ادارہ