"NNC" (space) message & send to 7575

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں (آخری قسط)

''پاکستان کے عوام سے ایک بار پھر حقِ نمائندگی چھین لیا گیا۔ پی ٹی آئی 153 نشستوں پر جیت رہی تھی‘ لیکن نتائج مکمل ہوئے تو اس کے پاس صرف چالیس کے قریب نشستیں بچی تھیں۔ کوئی بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ عمران خان کو متحرک رکھنے سے روکنے کے لیے انتخابی مہم کے آخری حصے میں ایک پلانٹڈ حادثے کا شکار کردیا گیا۔ منصوبہ سازوں کو علم تھا کہ متحرک عمران خان کے ہوتے ہوئے دن دہاڑے انتخاب چرانا ممکن نہیں ہوگا۔ عمران ہسپتال کے بستر پر بے یارومددگار پڑے تھے اور پاکستانی عوام کا حقِ رائے دہی لوٹا جا رہا تھا۔ یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے تاریک دن تھا۔ منصوبہ سازوں کی امیدوں کے برعکس عمران اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر وقت سے پہلے صحت یاب ہو کر میدان میں اتر آئے۔ اب ان کا ایک ہی ایجنڈا تھا۔ عوام کا حقِ رائے دہی واپس لینا۔ پہلے دن سے انہوں نے اس کھلی بے ایمانی کے خلاف آواز بلند کی۔ پارلیمان میں ان کی تقریر آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ انہوں نے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا اور انتخابات میں دھاندلی کی کھلی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سازشی ٹولہ اس مطالبہ کو کبھی نہیں مان سکتا تھا۔ عمران کا مذاق اڑایا گیا۔ ان کو زچ کیا گیا۔ آخر کار کپتان نے سب سازشیوں کا بلف کال کر لیا۔
اسلام آباد تک لانگ مارچ اور دھرنے کے اعلان نے منصوبہ سازوں کے ایک دفعہ پھر ہوش اڑا دئیے۔ ان کو علم تھا کہ عوام کا سمندر ہوگا اور پھر ان کو بچانے والا کوئی نہیں رہے گا۔ مقتدر حلقوں میں ہونے والی تبدیلیاں بھی پاکستان کے لیے خوش خبری تھیں۔ ذاتی مفادات کے لیے ملک کو داؤ پر لگانے والے جا چکے تھے اور ان کی جگہ پاکستان کے سچّے سپوت لے چکے تھے۔ منصوبہ سازوں نے اس انقلاب کو ڈی فیوز کرنے کے لیے پھر اپنا آزمودہ مہرہ میدان میں اتارا۔ طاہر القادری کو یہ سارا شو ہائی جیک کرنے کیلیے میدان میں اتارا گیا۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ بھی منصوبہ سازوں کی ایماء پر ہوا تاکہ ساری توجہ طاہر القادری کی طرف مبذول کرائی جاسکے۔میڈیا میں یہ تاثر پھیلایا جارہا تھا کہ طاہر القادری اور عمران خان مقتدر حلقوں کی شہ پر اسلام آباد کی طرف چڑھائی کررہے ہیں تاکہ جمہوریت کو ختم کیا جاسکے۔ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ عمران خان جمہوریت کو بچانے جبکہ طاہر القادری اس کو تباہ کرنے کے درپے تھے۔
چودہ اگست کا دن آ پہنچا اور عمران خان، عوام کے ایک سمندر کے ساتھ اسلام آباد آن براجے۔ لوگوں کو نظر آرہا تھا کہ اب پاکستان میں ایک حقیقی تبدیلی اور انقلاب آرہا ہے۔ سازشی اور لٹیرے بے نقاب ہورہے ہیں۔ اور خلق خدا کے راج کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے مقتدر حلقوں سے مدد مانگی تو وہاں سے صاف جواب ملا کہ سیاسی معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کریں اور اس میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ دھرنے نے منصوبہ سازوں کے ہوش و حواس اڑا کے رکھ دئیے تھے۔ کبھی چین کی اربوں ڈالرز امداد کی افواہیں پھیلائی جاتیں اور کبھی عمران خان پر الزامات لگائے جاتے کہ یہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ہر حربہ آزمانے کے باوجود بھی جب عمران خان کو ہلایا نہ جا سکا تو پھر منصوبہ سازوں نے ایسا گھناؤنا وار کیا جس کی امید بدترین دشمن سے بھی نہیں ہوسکتی۔
یہ امر شاید سب کے لیے حیران کْن نہ ہو کہ ملک میں بدامنی کے سنگین ترین واقعات کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ اسی ملک کے حکمران تھے تاکہ اس دھرنے سے نجات حاصل کی جائے جس نے ان کے جعلی اقتدار کو حقیقی خطرے سے دوچار کر رکھا تھا۔ بادلِ نخواستہ دھرنا ختم کرنا پڑا۔ منصوبہ سازوں کوایک دفعہ پھر وقتی کامیابی حاصل ہوچکی تھی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس گھناؤنے فعل سے ان کی اپنی صفوں میں ہی پھْوٹ پڑ چکی ہے۔ بہت خفیہ ہونے کے باوجود اس منصوبے کی بھنک چوہدری نثار اور شہباز شریف کو مل چکی تھی۔ جن کے ذریعے یہ خبر مقتدر حلقوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس دفعہ بننے والا منصوبہ پاکستان کو بچانے والا تھا۔ اس منصوبے میں چوہدری نثار، شہباز شریف اور دو حاضر سروس شامل تھے۔ شہباز شریف ساری زندگی بڑے بھائی کے بلنڈرز کی پردہ پوشی کرتے رہے لیکن یہ سانحہ شاید اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ وہ کھل کر ان کے خلاف صف آرا ہوچکے تھے۔ یہ شہباز شریف ہی تھے جن کے بیٹے کو پورا خاندان، مشرف کے پاس ضمانت کے طور پر چھوڑ گیا تھا۔ شہباز شریف کی کارکردگی پر ہر دفعہ ووٹ لے کر جیتنے والے نواز شریف نے کبھی ان کو وہ اہمیت نہیں دی جو ان کا حق تھا۔ حمزہ شہباز جو جلاوطنی کے دنوں میں ن لیگ کو زندہ رکھے ہوئے تھے ان کو مریم نواز شریف کے سیاسی کیرئیر پر قربان کرنے کا منصوبہ بھی بن چکا تھا۔ شہباز شریف نے اپنی زندگی اور کیرئیر تو بھائی پر قربان کردی لیکن جب اولاد کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا نظر آیا تو ان کی برداشت جواب دے گئی۔
یہ پنڈی کے ایک حساس علاقے میں موجود عمارت کا ڈرائنگ روم تھا۔ شہباز شریف، چوہدری نثار، حمزہ شہباز اور دو حاضر سروس ہستیاں اس کمرے میں موجود تھیں۔ موضوع گفتگو ‘‘گیٹ نواز شریف سْون'' آپریشن تھا۔ شہباز شریف نے اپنے کوٹ کی جیب سے یو ایس بی نکالی اور میز پر موجود لیپ ٹاپ میں لگا کر سب لوگوں کو متوجہ ہونے کا کہا۔ اس یو ایس بی میں وہ تمام معلومات تھیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ کیسے پاکستان کی دولت لوٹ کر اسے بیرون ملک بھیجا گیا۔ بے نامی بینک اکاؤنٹس، کمپنیز، ٹرانزیکشنز سب کچھ اس میں موجود تھا۔ کمرے میں موجود دونوں افسر دم بخود یہ سب دیکھ رہے تھے۔ شہباز شریف نے اپنی پریزنٹیشن ختم کی اور یو ایس بی نکال کر اپنے ساتھ بیٹھے افسر کے حوالے کردی۔ یہ پانامہ لیکس کی شروعات تھیں۔
اس کے بعد اس آپریشن کا آغاز ہوا جسے تاریخ میں سب سے عظیم سپائی آپریشن کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ پوری دنیا کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے مقابلے میں پاکستانی افسروں نے وہ کارنامہ کر دکھایا جو کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ جرمن اخبار کو موساک فانسیکا بارے معلومات دینے والا نامعلوم شخص کوئی اور نہیں بلکہ پاکستانی آفیسر ہی تھا۔ جس نے جان پر کھیل کر یہ معلومات حاصل کیں۔ اگر یہ سب پاکستانی میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا تو اس پر جمہوریت کے خلاف سازش کا الزام لگا کے اس کو رد کردیا جاتا لیکن چوہدری نثار کی ذہانت نے یہ مسئلہ حل کردیا۔ غیرملکی ثقہ اخبار میں چھپنے کی وجہ سے اس کی کریڈیبلٹی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا۔ بالآخر وہ وقت آگیا ہے جب عوام کے ووٹ اور ان کی دولت لوٹنے والے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ ان کے لیے اب کوئی راہِ فرار باقی نہیں رہی۔ مقتدر حلقوں میں ان کے ہمدرد ختم ہوچکے۔ مکافات عمل اب ان کا انتظار کر رہا ہے۔
عمران خان بالآخر سچّا ثابت ہوا۔‘‘
یہ سوشل میڈیا کے ایک میگزین ''ہم سب ‘‘ میں بظاہر علامتی طرزمیں لکھی گئی ایک کہانی ہے‘جو علامتی رہی اور نہ ہی رپورٹنگ بن پائی۔یہی کالم مجھے لکھنا ہوتا تو میں کامیابی کی دھنوںپر سوار، تیزرفتاری سے ترقی کرنے والے ایک سیاستدان کی نشاندہی بھی نہیں کر پایا۔ لکھنے والے نے جو ثابت کرنا چاہا، وہ ثابت نہ ہوا اور جسے اس نے پردہ نشیں بنا کر چھپانے کی کوشش کی، وہ بھی نہیں چھپ سکا۔ لیکن اس طرح کی علامتی تحریروںسے پروفیسر علامہ طاہر القادری کے انداز تحریر و تقریر کی یاد آتی ہے۔ ایسا بھونڈا انداز تحریر بھی نہیں تھا کہ اسے نظرانداز کیا جائے۔ جس میڈیا فیکٹری کو یہ ''پروڈکٹ‘‘ تیار کرنے کا ہدف دیا گیا، اس کا انداز بھی زیادہ متاثر کن نہیں تھا‘ مگر اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اناڑی سے اناڑی لکھنے والا بھی ،اپنے اصل کرداروں کو بے نقاب نہ ہونے سے نہ بچا سکا۔ دروغ بر گردن راوی۔ 
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں