"NNC" (space) message & send to 7575

ملزم رہے نہ مدعی

بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر سبرامنیم سوامی کی اجودھیا اراضی تنازع کی جلدی سماعت سے سپریم کورٹ نے 31 مارچ 2017ء کو انکار کر دیا تھا۔ سبرامنیم سوامی کو مقدمہ کا فریق ماننے سے انکار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہمیں آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ اس مقدمہ میں فریق نہیں ہیں، تو سوامی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ اس مقدمہ میں فریق نہیں ہیں اور ان کا متنازع پراپرٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تاہم وہ اس کو استھا کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس جگدیش سنگھ کیہر نے اس معاملہ کی فوری سماعت سے انکار کر دیا۔
بابری مسجد کی تحریک دنیا کی بڑی تحریکوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس تحریک کے روح رواں اور چلتی پھرتی تاریخ ہاشم انصاری کا 12 جولائی 2016ء کو انتقال ہو گیا اور وہ اس تنازع کے حل کو اپنی زندگی میں دیکھنے کی تمنا لئے اس دنیا سے چلے گئے۔ سنگھ پریوار اور اس کی حکومتیں گاہے بگاہے یہ کہتی رہی ہیں کہ وہ رام مندر کی تعمیر میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کریں گی۔ سنگھ پریوار کی دور اندیشی اور مسلمانوں کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے آج یہ رکاوٹیں کافی حد تک دور ہو چکی ہیں۔ دو ہفتے قبل پروین توگڑیا نے اعلان کیا تھا کہ وہ گرمیوں میں رام مندر کی تعمیر کے لئے سنکلپ دیوس 600 تحصیلوں میں منائیں گے۔ یعنی مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز پُرتشدد مہم چلائی جائے گی جس میں اشتعال انگیز ویڈیوز اور آڈیوز کا استعمال بھی شامل ہے، کیونکہ کیسریا عناصر کو لگتا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق شاید ہی آئے۔ بڑی حد تک یہ سچ بھی ہے۔ بظاہر ہندوستان میں عدلیہ، مقننہ اور عاملہ ایک دوسرے کی مداخلت سے آزاد ہیں‘ لیکن عدلیہ غیر محسوس طریقے سے اس دبائو میں رہتی ہے کہ عاملہ سے کھلی محاذ آرائی نہ ہو۔ خود سپریم کورٹ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہماری بات کوئی نہیں سنتا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کے سبھی فیصلوں پر عمل نہیں ہو پاتا۔ سپریم کورٹ نے کئی سال قبل بغیر سرکاری اجازت زمین میں بورنگ کرانے پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا اور جاری ہے۔ کورٹ کو اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سبھی فیصلوں کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ دلی میں ایک گردوارے کے باہر سڑک پر بنے ایک پیائو کو، کورٹ کے حکم سے توڑ دیا گیا لیکن اسی رات اس کو دوبارہ بنا دیا گیا۔ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد انہدام کے لئے قصوروار کلیان سنگھ کو اس کے سنگین جرم کے لئے کورٹ نے صرف ایک دن کی جیل اور صرف ایک روپے جرمانہ کی علامتی سزا دی تاکہ بقول شاعر
باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی
اسی لئے سنگھ پریوار کی طرف سے بیک آواز یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جس طرح پارلیمنٹ نے قانون بنا کر سومناتھ مندر کی تعمیر کرائی تھی، اسی طرح قانون بنا کر رام مندر کی بھی تعمیر کرائی جائے۔ نرتیہ گوپال داس توگڑیا اور دوسرے سنتوں کا بھی یہی موقف ہے۔ یوپی اور مرکز میں بی جے پی حکومتیں ہونے کی وجہ سے ان کو یہ کام آسان نظر آ رہا ہے لیکن وہ اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ بقول حافظ شیرازی ''عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا۔‘‘ 
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج پولوک باسو نے ''اجودھیا ویواد سمجھوتہ سمیتی‘‘ کی طرف سے ایک سمجھوتہ فارمولہ سپریم کورٹ کو فروری 2017ء کو بھیجا تھا، جس پر اجودھیا کے تقریباً ساڑھے دس ہزار لوگوں کے دستخط تھے۔ یہ عمل 2010ء میں شروع ہوا تھا۔ مجوزہ فارمولہ یہ ہے کہ رام مندر تو اسی جگہ بنے گا، جہاں اس وقت مورتیاں رکھی ہوئی ہیں جبکہ مسجد متنازع جگہ سے 300 میٹر دور لیکن تحویل میں لی گئی 67 ایکڑ زمین کے اندر بنے گی۔
اترپردیش کے نومنتخب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے رام مندر کی تعمیر سب سے بڑا چیلنج مانا جا رہا ہے۔ وہ اس خیال کے زبردست حامی ہیں کہ مندر کی تعمیر آستھا کا معاملہ ہے کیونکہ یہ معاملہ عدالت کی طویل کارروائی میں پھنس کر رہ گیا تھا، اس لئے 2014ء سے پہلے بی جے پی نے اس کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا تھا۔ لیکن اب وہ حالات کو کافی سازگار مان رہی ہے اور خود یوگی‘ سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے کام کو پورا کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ مذاکرات کے مخالف آدتیہ ناتھ نے اپنے سابق بیان سے مراجعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مندر مسجد تنازع کا بہتر حل بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ 1992ء میں بابری مسجدکے انہدام کے بعد بی جے پی نے انتخابی مقابلے جیتے کم ہیں اور ہارے زیادہ ہیں لیکن 2014ء کے لوک سبھا انتخابات اور 2017ء کے پانچ ریاستی انتخابات کے بعد اب بی جے پی کو سمجھ میں آیا ہے کہ پارٹی کے لئے وکاس اور ہندوتوا کا محلول ہی تریاق ہے جیسا کہ توگڑیا نے کہا ہے کہ ہمیں مندر بھی چاہیے اور وکاس بھی۔
رام مندر کی تعمیر کے وعدے کو ایفا کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس میں اب بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں جو ان سے زیادہ سخت ہیں، جن کا سامنا 1990ء کی دہائی میں کلیان سنگھ سرکار کو تھا۔ اب یوگی کو ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کی پالیسی پر چلنا ہو گا تاکہ کورٹ کی طرف سے جاری کی گئی ''جوں کی توں‘‘ حالت کو قائم رکھا جائے۔
سنی وقف بورڈ کی طرف سے بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والے وکیل ظفریاب جیلانی کا کہنا ہے کہ موجودہ مرکزی اور ریاستی سرکاریں مندرکی تعمیر کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکیں۔ اس کے لئے ان کو سب سے پہلے سپریم کورٹ سے لڑنا پڑے گا۔ اگر مندر حامی ایک پانچ رکنی دستوری بینچ کے ذریعے عدالت کے حکم پر ریویژن چاہتے ہیں تو پہلے سات ججوں کا ایک بڑا بینچ تشکیل دینا ہو گا۔ دوسرا راستہ ہندو مسلمان کے درمیان بات چیت کا ہے، جس کو دونوں ہی مسترد کر چکے ہیں۔ جہاں تک سومناتھ کی طرز پر قانون کے ذریعہ رام مندر بنانے کی تجویز ہے، یہ بھی اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ اس کام کے لئے بی جے پی کو اس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک کہ راجیہ سبھا میں اس کے اراکین کی اکثریت نہ آ جائے اور ملک کو نیا صدر جمہوریہ نہ مل جائے۔ اس طرح بی جے پی اور سنگھ پریوار کو جولائی 2018ء تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے اور اسی کے آس پاس 2019ء میں عام لوک سبھا انتخابات ہونے والے ہوں گے تب تک کون جانے کیا ہو؟ کیونکہ انگریزی کا مقولہ ہے ''چائے کے کپ کو ہونٹوں تک لے جانے میں جو وقت لگتا ہے اس میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں