"NNC" (space) message & send to 7575

دیکھوں جسے‘ بیمار نظر آتا ہے

جو لوگ موجودہ حالات میں صحت مند ہیں‘ وہ کمال کرتے ہیں۔ مجھ میں تاب نہ تھی۔ صحت مندی کا حوصلہ نہ تھا کہ اسے برداشت کر سکتا۔ ایسا بھی نہیں کہ میں اکیلا بیمار پڑا۔ جس پر نظر ڈالتا ہوں‘ بیمار نظر آتا ہے۔ جسمانی طور پر نہیں تو قلبی‘ ذہنی اور اخلاقی بیماریوں نے گھیرے ڈال رکھے ہیں۔ اب تو ہسپتالوں میں جانے والے بھی‘ مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ کسانوں اور مزدوروں کی طرح اب تو اعلیٰ عدالتوں میں جانے والے بھی‘ فاقہ زدگی کا شکار ہیں۔ میں بہتر ہوں کہ کئی مہینے ہوئے‘ صحت اور روٹی سے بے نیاز ہوں۔ روٹی کھائی نہیں جاتی‘ انصاف ہضم نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ خوش قسمت ہیں‘ روٹی سے بے نیاز اور انصاف سے مالا مال ہیں۔ جدھر جاتے ہیں‘ انصاف ان کے پیچھے پیچھے پھرتا ہے۔ بعض خوش نصیب ایسے ہیں‘ کثرتِ انصاف سے انہیں بدہضمی ہو جاتی ہے۔ ایک بدنصیب طبقہ ایسا ہے جو انصاف سے محروم رہتا ہے اور چند خوش نصیب ایسے ہیں کہ کثرتِ انصاف سے علیل رہتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں وطن میں کوئی بھی دوا‘ شفایاب نہیں کرتی۔ علاج کے لئے ہزاروں میل دور جاتے ہیں۔ ان کا تریاق‘ بھوک کے مارے وطن میں‘ ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ ایک طرف عوام کا سمندر ہے جو فاقہ کشی میں بدمست ہے‘ اور ایک طرف انصاف خوروں کے ذخیرے لبالب‘ بھرے ہیں۔ اوپر سے ان کے خاندان کی گرجتی ڈکاریں۔ یہ ڈکاریں اتنی بد ذائقہ ہوتی ہیں کہ خدام کو نیندیں نصیب نہیں ہوتیں۔ وسیع و عریض محلات میں‘ ریفریجریٹرز ابکائیاں لیتے ہیں اور انصاف لوٹنے والے‘ ڈرائونے خوابوں سے‘ خوف زدہ ہیں۔
مجھے نا انصافی چین نہیں لینے دیتی۔ چند خوش نصیب ایسے ہیں کہ انصاف کا بوجھ ان کا کچومر نکالتا رہتا ہے۔ وہ کثرتِ انصاف سے‘ اتنے خائف ہیں کہ انصاف دینے والوں کو دیکھ کر ہی انہیں خوف آتا ہے۔ میری دنیا بھی عجیب ہے۔ میں انصاف کو ترستا ہوں اور انصاف دینے والے ضرورت مندوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایک طرف فاقہ زدگان‘ انصاف سے محرومی کی بنا پر‘ خالی جھولیاں لیے بھٹکتے ہیں اور دوسری طرف چند گھرانوں کی جھولیاں‘ انصاف کے بوجھ سے پھٹتی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود نیت نہیں بھرتی۔ بچوں کو بھی بچا کھچا انصاف چھیننے کے لئے بھی‘ گھر سے دھکیل کر‘ گلیوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بچے ہیں کہ اپنے گھر والوں کی بھوک‘ بے چارگی اور نا انصافی کی قلت کے واسطے دے کر‘ انصاف کے قحط سے نحیف اور لاغر بے بسوں کے پاس‘ بچے ہوئے چٹکی بھر‘ انصاف کو بھی نہیں چھوڑتے۔ میں جس ماحول اور معاشرے میں سانس لینے پر مجبور ہوں‘ اس میں بیماریوں کی فراوانی ہے۔ ہسپتالوں میں جائیں تو ملاوٹ شدہ دوائوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ بستر ڈھونڈنے کی زحمت بھی اٹھانا نہیں پڑتی۔ دل کے مریض مرد اور خواتین‘ اپنے عزیزوں کا سہارا لے کر چار سیڑھیاں چڑھتے اور برآمدے میں داخل ہوتے ہی‘ وہیں فرش پر گر کے‘ زندگی کے آخری سانس لیتے ہیں۔ کون ایسا احمق ہے؟ جو تڑپ تڑپ کر مرنے کی سہولت چھوڑ کر‘ ملاوٹ شدہ دوائوں کا آزار خریدے؟ پاکستان کی قریباً 80 فیصد آبادی‘ بیماریوں کی گود میں دم توڑنا پسند کرتی ہے۔ جو دوا خریدنے کی توفیق رکھتے ہیں‘ وہ ہمارے فاقہ زدہ عوام میں رہ کر تڑپنا پسند نہیں کرتے۔ وہ صحت کی تلاش میں بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ جن کی قسمت اچھی ہو‘ وہ اپنے ہم وطنوں جیسا علاج کراتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دم توڑنے والے غریب کو اپنے جیسے نحیف و نزار عزیزوں اور پڑوسیوں کے کندھے دستیاب ہوتے ہیں اور دیارِ غیر میں جا کر‘ جان سے ہاتھ دھونے والے کو‘ اعلیٰ درجے کی تین ٹکٹیں خرید کر‘ ہوائی سفر کرتے ہوئے‘ قبر میں جانے کی پُرتعیش سہولت میسر آ جاتی ہے۔ بڑے خوش نصیب ہیں‘ جنہیں اپنے انتہائی مہنگے گھروں میں‘ مفت کی موت مل جاتی ہے۔ ورنہ ڈاکہ زنی کے ذریعے‘ انصاف جمع کرنے والے بھی‘ اپنی موت کے بعد کا ٹھکانہ تلاش کرنے پر ناجائز کمائی ضائع کرتے ہیں۔
خدا نے اپنی مخلوق کے لئے ہر وہ چیز کثرت سے فراہم کر رکھی ہے جو اسے پرسکون زندگی گزارنے کے لئے مطلوب ہو۔ قدرت نے ہوا‘ پانی‘ خوراک اور موسم فراوانی سے عطا فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی نعمتوں سے محروم نہیں رکھا۔ اگر خداوند کریم کے دئیے ہوئے نظام میں‘ چھیناجھپٹی یا انصاف خوری کا ہوکا نہ لگے تو ہر کسی کے لئے زندگی آسان ہو جائے اور موت بھی۔ لیکن مخلوق خدا کو دونوں چیزیں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کثرتِ نا انصافی اور قلتِ خوراک سے‘ تڑپ تڑپ کے مرتے ہیں اور جو خوراک کی فراوانی سے انہی حالتوں میں مرتے ہیں۔ یہ سارے کے سارے اپنی آخری''آرام گاہ‘‘ میں‘ ابدی نیند کی تلاش ختم کر کے‘ خوابوں سے خالی نیند میں ہمیشہ کے لئے ڈوب جاتے ہیں۔ ڈبکی لگانے اور پھیپھڑوں میں پانی بھرنے کی تکلیف سے‘ محفوظ ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کی بیماریوں کی طرف دیکھیں تو ہر کوئی ملاوٹ شدہ دوائوں کے ہاتھوں مر کے محرومی کی لپیٹ میں آتا ہے۔کسی کو یہ محرومی‘ بھوک‘ اذیت اور نا انصافی کی مہربانیوں سے نصیب ہوتی ہے اور کوئی انصاف سے جھولیاں بھرتے بھرتے دم توڑتا ہے۔ کوئی انصاف کے ہاتھوں مرے یا ناانصافی کے۔ انجام سب کا ایک ہے۔ میں اپنے گرد و پیش نگاہ ڈالتا ہوں تو جمہوریت سے محرومی کے عذاب میں مبتلا لوگ‘ گلیوں اور سڑکوں پر احتجاج کرکے‘ طاقتوروں سے بھیک مانگتے ہیں۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ جو انصاف خوروں سے بچنے کے لئے‘ طاقتوروں کی پناہ میں جاتے ہیں۔ بیماری ہو یا لاچاری۔ ہر سمت منزل ایک ہے۔

 

 

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں