"NNC" (space) message & send to 7575

پردیس جانے والے

نیب کے موجودہ چیئرمین اپنی سابقہ ملازمت سے '' عزت و آبرو‘‘ کے ساتھ نکالے گئے تھے۔اپنی موجودہ ملازمت سے‘ تھوڑے ہی دنوں میں‘ وہ ریٹائرہونے والے ہیں۔ایک بارسابق وزیراعظم نے ‘پریس بریفنگ میں چیئرمین نیب کو جو خراج تحسین پیش کیاتھا‘ مجھے آج بھی یاد ہے ۔ سابق وزیراعظم نے فرمایا تھا''نیب والے ''شرفا‘‘ کے ساتھ نا مناسب سلوک روا رکھتے ہیں۔ ''شرفا‘‘کو بلا کر ان کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ میں انہیں سختی سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے طور طریقے درست کر لیں ‘‘ورنہ۔۔۔۔۔ میں ملزم بن کر آپ کی عدالت میں گھس جائوں گا۔قدرت کا نظام عجیب ہے۔تھوڑے ہی عرصے بعداسی حاکم‘ یعنی سابق وزیراعظم کو‘ جس نے نیب کے سربراہ کو ڈانٹا تھا‘ وہی عدالت ‘بطور ملزم ان کے انتظار میں ہے۔یہیں پر بس نہیں ہوئی۔ملزم آج بھی اپنے رعب داب کے بل پر حاکم ہے۔چیئرمین نیب‘ اشک بھری آنکھوں سے ‘اپنی اس کرسی کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ جس سے وہ چند ہی روز بعد‘ محروم ہونے والے ہیں۔یہیں سے فرق ظاہر ہوتاہے۔چھوٹی کرسی پر بیٹھنے والا کتنے ہی دم خم دکھائے‘ وقت آنے پر‘ بڑی کرسی چھوڑنے والے'' بھولو پہلوان‘‘ کودیکھ کر خوف سے لرزنے لگے گا۔جیسے عادی چور‘ رہائی کے بعد بھی‘ ریٹائرڈ تھانیدار کو دیکھتے ہی کانپنے لگتا ہے۔ابھی تو ریٹائرڈتھانیدار اپنے گھر میں بیٹھا ‘ سینکڑوں مہمانوں کی ضیافت کر رہا ہے۔اب ریٹائرڈ تھانیدار‘ کرسی پر براجمان ہونے والے نئے تھانیدارسے‘ من چاہے کام کرانے کے لئے‘ اسے بری طرح سے ڈانٹ کر‘ اپنے احکامات کی تعمیل پر مجبور کرسکتا ہے۔بخشش میں عطا کردہ تھانیداری اسے مل تو گئی لیکن تھانیداری عطا کرنے والے‘ محسن کے سامنے ‘ڈانٹ ڈپٹ کے بعد‘ سبق یاد کرنے والا تھانیدار ایک ایک لفظ پر اٹکتا ہوا ہکلانے لگتا ہے۔اگر آپ یہ منظر دیکھنے کے خواہش مند ہوں تو آپ'' طالب علم‘‘ کی گھبراہٹ ‘کسی وقت بھی دیکھ سکتے ہیں۔جب گھبرایا ہوا طالب علم ‘کسی اجتماع کے سامنے تقریر کر رہا ہو تو عجیب مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ مجھے کل ہی چینی میزبانوں کے سامنے ہکلاتی‘ لڑکھڑاتی اور گھبرائی ہوئی تقریر سننے کا موقع ملا۔ چین کی مدد سے بجلی پیدا کرنے والے‘ پانچویں ایٹمی یونٹ کی افتتاحی تقریب میں‘ اوسط درجے کے طالب علم کو ہکلاتے بلکہ لڑکھڑاتے ہوئے دیکھ کر‘ بہت لطف اندوز ہوا۔مجھے ٹیلی وژن پر ہونے والی تقریریں سننے کا زیادہ موقع نہیں ملتا۔ذرا سی فرصت ملتی ہے تو دروازے پر بیماریوں کی آپس میںدھکم پیل شروع ہو جاتی ہے۔جیسے کسی وزیر کا درواز ہ کھلنے پر‘ حاجت مندوں کا ہجوم‘ آپس میں زورآزمائی کرنے لگتا ہے۔
موجودہ وزیراعظم کی تقریر‘سننے سے زیادہ‘ دیکھنے کی چیز ہوتی ہے۔عموماً وہ تقریر کرنے کے بجائے‘ پڑھتے ہیں۔کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ وہ ہجے کر کے‘ پڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز افتتاحی تقریب میں‘ وزیراعظم الجھن میں دکھائی دے رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے وقفوں کے دوران‘ وہ اپنے محسن کا نام لینا چاہتے تھے لیکن سہم کے رہ جاتے ۔ایک طرف انہیں‘ اپنی وہ بریفنگ یاد آجاتی تھی جو انہوں نے نیب کے چیئرمین کو دی تھی۔بریفنگ میں اصرار کیا گیا تھا کہ آپ جب بھی میرے محسن خاندان کے‘ خلاف مقدمات تیار کریںتوایسی ایسی گیندیں کرائیں کہ ان کے وکلا کی ٹیم کے ہر کھلاڑی کا شاٹ‘ بائونڈری سے باہر جا ئے۔مقدمات کا میچ شروع ہو چکا ہے ۔ گزشتہ میچ میں تو سینئر کھلاڑیوں کی مختصر سی ٹیم نے‘ سابق وزیراعظم کے چھکے چھڑا دئیے تھے۔ لیکن وہ بھی کسی سے کم نہیں۔ پورے میچ کے دوران‘ صرف ایک بارگرائونڈ کے اندر آئے اور پھر ایسی دوڑیں لگائیں کہ کتابوں سے حاصل شدہ سرمایہ ‘دوسری ٹیم کے کام نہیں آرہا۔اچھی سے اچھی گیندیں کرائی گئیں۔''آل رائونڈر ‘‘نے کسی بھی گیند کو چھو کر نہ دیا۔
آج مقدمات کانیا میچ شروع ہو چکا ہے۔ چیئرمین نیب نے ایسی چال چلی کہ پہلے ہی دن‘ سارے مقدمے‘ ڈریسنگ روم میں ہانپتے ہوئے جا کر بیٹھے۔استادی ہاتھ نے کام دکھادیا۔کسی مقدمے میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ معمول کے انداز میں چل سکے۔ہر مقدمے کو علاج معالجے کے لئے ایمرجنسی روم میں جانا پڑے گا۔جو ملزم بڑے میدان سے غچہ دے کر‘ ہزاروں میل دور جا بیٹھے ہیں ‘ وہ بے دلی اور بدنیتی سے‘ تیار شدہ مقدموں کے ہاتھ کب آئیں گے؟پاکستانی عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں محفوظ فائلوں سے دیمک کے سوا‘کوئی فائدہ اٹھا نہیں سکتا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے سانحے کی فائلیں‘ آج تک بند پڑی ہیں۔ انہیں نئے سرے سے کھولا جائے گا تو خدا جانے ‘وہ دیمک کے کام آئیں گی یا کوئی ردی چور اٹھا کر رفوچکر ہو گیا ہوگا۔شہید ملت لیاقت علی خان کے مقدمے کی فائلیں تو اب شاید کسی کو بھی نہ ملیں۔ میں افراد کی طرف کیوں جائوں؟ ہمارا تو آدھا ملک ہی الگ ہو گیا اور اب شاید ہی اس کی کوئی فائل‘ موجودہ پاکستان میں کسی کے ہاتھ لگے۔تنازعہ کشمیر کا مقدمہ ابھی تک یو این کی فائلوں میں دبا ہے۔کشمیر بھارت لے اڑا اور تنازعہ ہم لئے بیٹھے ہیں۔تنازعات کے معاملے میں ہمارا ریکارڈ قابل رشک نہیں۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا تو وہ ہمارے پاس رہا ‘نہ بنگالیوں کے پاس۔اب رہے سہے پاکستا ن میں بھی جگہ جگہ تریڑیں دکھائی دینے لگی ہیں۔سمجھدار لوگ ان تریڑوں کو دیکھتے ہی‘ اچھے کاریگر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ وہ دیواروں میں پڑی دراڑوں کا علاج کر اکے‘ عمارت کو ازسر نو مضبوط کر لیتے ہیں۔ خدا جانے ہمیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی؟دیوار میں دراڑیں دیکھتے ہی‘ ہم آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ دیواریں بھی توڑ بیٹھتے ہیں اور لباسوں کی دھجیاں بھی بکھر جاتی ہیں۔
نئے دور کے نئے مقدمے شروع ہو چکے ہیں۔سیاست کی ہنڈیا میں‘ ابال آنے لگے ہیں۔ کوئی سیاست دان دوسرے کے لئے گنجائش چھوڑنے کو تیار نہیں۔تمام مسلمان ملکوں کے حالات ہم سے ملتے جلتے ہیں۔ ایک گروہ ایسے ملکوں کا ہے‘ جن کے سارے سیاست دان لڑتے جھگڑتے‘ اپنے ملک سے ہی نکل جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں‘ جن کے حکمران شام کی طرح‘ اپنے ملک کو ہی تباہ و برباد کر کے‘ اپنی پوری آبادی کے ساتھ ‘کھنڈرات میںآسودہ ہو جاتے ہیں۔مجھے ڈر ہے کہ سیاست دانوں کی موجودہ پود‘ پاکستان کی سرحدوں سے ہی با ہر نہ نکل جائے۔ اکثر نے اپنے گھر پہلے ہی بیرونی ملکوں میں بنا رکھے ہیں۔ اقتدار سے محروم رہنے والے باقی سیاست دان بھی اپنی بیرونی قیام گاہوں کا رخ کر لیں گے۔ کئی خاندان جا چکے۔ایک نے فرداً فرداً جانا شروع کر دیا ہے۔ دوسرے تیار بیٹھے ہیں۔کیا یہ قوم کی دولت ‘صرف اس لئے لوٹتے ہیں کہ پردیس میں جا بسیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں