گزشتہ کالم میں دنیا کے بڑے مذاہب کا ذکر ہوا۔ پہلی قسط میں علمی اورسائنسی اعتبار سے مسلمانوں کی اہلیت اور طاقت کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے عیسائی ‘2.3ارب کی تعداد میں ہیں۔ دوسرے نمبر پر مسلمان ہیں‘ جن کی کل آبادی 1.8ارب ہے۔ جبکہ مذہب پر یقین نہ رکھنے والوں کی تعداد‘ تیسرے نمبر پر یعنی 1.2 ارب ہے۔ہندومت اور بدھ مذہب کے ماننے والوں کی مصدقہ تعداد دستیاب نہیں مثلاً ہندوئوں کو 900 ملین بتایا جاتا ہے لیکن سارے کے سارے ہندو‘ ایک ہی عقیدے پریقین نہیں رکھتے ۔ ان کی بہت چھوٹی چھوٹی شاخیں ہیں اور ہر فرقے کا مذہب تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر بدلتا جاتا ہے۔ بنیادی طور پریہ مذہب صرف ہندوستان میں پایا جاتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی ہندو ہیں‘ا ن میں سارے ہندوستان سے نقل مکانی کر کے‘ دوسرے ملکوں میں گئے ۔ دنیا میں یوں تو مختلف عقائد رکھنے والوں پر‘ طرح طرح کے مظالم ہوئے لیکن ہندوئوں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے ذات پا ت کی تقسیم کرکے عقائد کے اعتبار سے‘انسانوں کی متعصبانہ تقسیم کر رکھی ہے۔ذات پات کے جو درجات بنائے گئے ‘ان میں سب سے نچلے درجے کے اچھوت تھے۔انہیں صرف گھٹیا کام کرنے کی اجازت ہے۔جیسے گوپیشاب وغیرہ کی صفائی کرنا۔ جو بدنصیب نچلے درجے میں پیدا ہوتے ہیں۔زندگی بھر ان کا مقدر یہی ہوتا ہے۔انہیں عام ہندوئوں کے برتن تک چھونے کی اجازت نہیں۔ کھانے پینے کی جو بھی چیزخریدتے انہیں درختوں کے پتوں پر رکھ کر دی جاتی ہے۔ پانی وہ برہمنوں کے برتن میں نہیں پی سکتے۔ وہ اپنا ایک ہاتھ‘ منہ کے ساتھ ملا کر رکھ لیتے ہیں اور پانی دھار کی صورت میں ہاتھ پر گرتا ہے۔ اکثر علاقوں میں عیسائیوں کو بھی اچھوتوں کا درجہ حاصل ہے۔ اس گھٹیا رسم کی لپیٹ میں غریب مسلمان بھی آجاتے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی طریقے سے ‘ ذات پات کے اس بندھن سے ہاتھ پائوں مار کے نکل آتے ہیں۔ ہندو کسی اچھوت کو اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ مکان‘ کارخانے یا دکان کا افتتاح‘ مذہبی رسومات کے ساتھ پنڈتوں سے کرایا جاتا ہے۔ جس میں نچلی ذات کے لوگوں کو مہمانوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ انہیں علیحدہ زمین پر بٹھا کر‘ کھانے پینے کی چیزیں دی جاتی ہیں اور وہ بھی پتوں اورمٹی کے برتنوں میں مشروبات دئیے جاتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں پر تقسیم سے پہلے کھانے پینے کی اشیا‘ فروخت کرنے والے‘ ہندو مسلم کی باقاعدہ تخصیص کی جاتی۔ پانی بیچنے والے ہندو پانی‘ مسلم پانی کی آواز لگاتے ۔ایک بار‘ بہت بڑے ہندو سیٹھ نے ‘کانگرس اور مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈروں کو‘ اپنے گھر میں مدعو کیا۔ قائداعظمؒ اپنے چند مسلمان قریبی ساتھیوں کی معیت میں ‘ہندو سیٹھ کی قیام گاہ پر پہنچے جبکہ گاندھی جی‘ نہرو اور سردار پٹیل کے ساتھ ان کا وفد آیا ہوا تھا۔ دعوت کے بعدسب لوگ چلے گئے۔ محض قائداعظمؒ کے ساتھی‘ بعد میں بیٹھ کر بھی ہندو میزبانوں سے گپ شپ کرنے لگے۔ جب قائداعظمؒ ساتھیو ں کے ہمراہ کار میں بیٹھ کر واپس جانے لگے تو انہوں نے بتایا کہ '' اگر موجودہ
مہمانوں میں سے‘ کوئی میزبان سیٹھ کے گھر جا کر ‘ اس کا کوڑا دان دیکھے تو آپ کو سارے ٹوٹے پھوٹے برتن ‘اسی کوڑادان میں نظر آئیں گے‘‘۔ مصاحبین نے قائداعظمؒ سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہندو سماجی درجے میں خواہ کتنا بھی اوپر اٹھ جائے‘ اس کی فطرت میں دیگر مذاہب والوں سے نفرت اور کراہت کا رویہ ضرور نظر آئے گا۔اس اعتبار سے دیگر مذاہب کو ماننے والی قوموں میں‘ مذہبی بنیادوں پر کمتری اور برتری کا تصور موجود نہیں ۔صرف کہیں کہیں طبقاتی پہچان کی بنا پر‘ چھوٹے اور بڑے کے رتبے میں تفریق کی جاتی ہے۔مگر اب یہ رسم کم ہوتی جا رہی ہے۔
مسلمانوں میں بنیادی طور پر‘ ایسی تقسیم کہیں موجود نہیں۔ مسجد میں سب ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر وضو کرتے ہیں۔مسجد میں ہونے والی دعوت میں‘ ہر درجے کا مسلمان بلا امتیاز شریک ہوتا ہے۔سب ایک جیسے برتن استعمال کرتے ہیں۔یہ انسان دوستی اور فراخ دلی‘ اسلام کے ابتدائی ایام میں واضح طور پرموجود تھی۔ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی روزمرہ کی تعداد اور رہن سہن میں یکسانیت پر مبنی طور طریقے اختیار کرتے تھے لیکن اصل مسئلہ جنگی سازو سامان کا ہے۔سائنسی تحقیق میں مسلمان بہت پیچھے رہ گئے۔ جبکہ دوسری قومیں خصوصاً عیسائی اور یہودی ‘سائنسی ترقی اور صنعتی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ کسی بھی طاقتور ملک کا نام لیں‘ وہا ں پر بسنے والی قومیں‘ جدید ایجادات اور جنگی سازو سامان کے معاملے میں تمام مسلم ممالک سے برتر ہیں۔ بدھوں میں چین اور جاپان‘ سائنسی اور تجارتی اعتبار سے کافی مضبوط ہو چکے ہیں۔چین نے جدید معاشرے کی کایا‘ یکسر پلٹ کر رکھ دی ہے۔ انقلابِ چین کے ابتدائی دس پندرہ برسوں میں‘ ماضی کی اونچ نیچ بالکل ہی مٹ گئی تھی۔چند برسوں سے یہ خوبی نظر نہیں آرہی۔ جو برتر سماجی درجے سے تعلق رکھتا ہے‘ وہ محنت کشوں سے بہتر زندگی گزارتا ہے۔اس کی کار بھی اچھی ہوتی ہے۔ سوٹ بوٹ کے معاملے میں دوسروں سے برتر ہوتا ہے۔ عام چینی ‘ایک جیسی وردی کا لباس پہنتے ہیں۔ موٹے کپڑے کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اب یہ رواج اتنی کثرت سے دکھائی نہیں دیتا‘ جتنا چین میں آزادی کے بعد‘ سماجی رواج تیزی سے بدلنا شروع ہو گئے تھے۔ عمومی طور پر تمام قوموں کے مذاہب میں مذہبی پیشوا‘ اپنے ہم مسلکوں سے طبقاتی فاصلے مٹاتے جا رہے ہیں۔ جس تیزی کے ساتھ سماج کے بدلتے ہوئے طور طریقوں میں‘ تیزی آرہی ہے ‘ہمارے مذہبی رہنما‘ مذہبی تعلیمات اور پرانی ہدایات پر عمل درآمد کے بجائے‘ مسلکی اور علمی تقسیم میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ان معزز حضرات نے مسلمانوں کے درمیان‘ تفریق پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔خصوصاً علم و تحقیق سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ایک حدیث میں روایت ہے کہ ''علم مومن کی میراث ہے‘ جہاں سے ملے حاصل کرو‘‘۔مگر ہمارے علما کرام نے ماسوا علم و تحقیق کے ہر شعبے میں مہارت حاصل کی۔ مثلاً نئے نئے فرقے دریافت کرنے میں ‘ان کا کوئی حریف نہیں۔ایک بدنصیب نے عالمی سطح کی سائنسی تحقیق کی‘ جس سے آج تمام ترقی یافتہ ممالک استفادہ کر رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی سائنسی تحقیق سے ‘استفادہ کرنے کے بجائے‘ ملامت کرتے ہیں۔
خوار ہیں‘ بدکار ہیں‘ ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں