ان دنوں پاکستان کے اسلام پسند اورا نسانیت کی خاطر جدوجہد کرنے والے مذہبی اور سماجی عمائدین‘ روہنگیائی مظلوموں پر جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں ‘ اس حوالے سے گہرے رنج و الم کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض تو اچھل اچھل کر‘ وہاں پہنچنے کے لئے جلوس نکال رہے ہیں۔ جماعت اسلامی تو اسلام آباد میں سفارت کاروں کے رہائشی علاقوں میں زبردستی داخل ہونے کے اعلانات کرتی رہی لیکن وہاں کے حفاظتی عملے اور عمارتوں پر نظریں ڈال کر‘ واپس لاہور چلی آئی کیونکہ ان دنوں‘ تخت لاہور کی چولیں لرز رہی ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران‘ اپنے خاندان سے دو لیڈروں کو منتخب کر کے‘ ماضی کے عوام پرست اور غریبوں کے دکھ درد میں شہید ہو جانے والے‘ بھٹو صاحب شہید اور بے نظیر شہید سے‘ مماثلت قراردینے پر مصر ہیں۔ان دونوں نے حق اور سچ کی خاطر‘ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دئیے۔ ان میں سے رائے ونڈ کے بھٹو‘ ان دنوں لندن میں مقیم ہیں اورجاتی عمرہ کی بے نظیر ‘ لاہور کے ہتھ چھٹ اور پستولوں سے مسلح بڑھکیں لگا نے والے افراد‘ جدھر سے بھی گزرتے ہیں‘ پر امن شہری خواتین و حضرات‘ سہم کر اپنے غریب خانوں میں گھس جاتے ہیں۔بھٹو صاحب اور شہید بی بی کی قربانیوں پر ہاتھ مار کے‘ یہ ان کی نیک نامی کو بھی‘ اسی طرح ہتھیا رہے ہیں‘ جیسے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی‘ نیک نامی پر دھبے لگانے کے لئے مستعدہیں۔روہنگیا کمیونٹی کو مصائب سے نجات دلانے کے لئے‘ ہم بہت کچھ کر رہے ہیں جیسے جلوسوں میں جا کر‘ تصویریں بنواتے ہیں۔ یہ باتصویر لیڈر اپنی جدوجہد کا مظاہرہ‘ صرف کیمروں کے سامنے کرتے ہیں لیکن ہمارے کشمیری بہن بھائیوں پر کیا گزر رہی ہے؟ اس کی تفصیل‘ روز ہمیں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے لیکن'' جذبہ جلوس‘‘ بیدار نہیں ہوتا۔کشمیر میں ہمارے بیٹے‘ بیٹیاں بدترین ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سینے پر گولیاں کھاتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ان پر ہونے والا تشدد‘ مظلوم روہنگیائی کمیونٹی سے کہیں زیادہ ہے۔وہ غلامی کے شب وروز کیسے گزارتے ہیں؟ اس کی ایک جھلک ‘حالیہ رپورٹ میں پڑھنے کا موقع ملا۔ اسے اپنے غیرت مند ہم وطنوں کے مطالعہ کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
''23 فروری 1991ء۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے چھوٹے سے گاؤں کنن‘ میں دن بھر کی مصروفیات اور گہما گہمی کے بعد‘ زرینہ اور زونی (فرضی نام) رات کو سونے کی تیاری کر رہی تھیں کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔اس رات جب زرینہ اور زونی نے دروازے پر فوج کو دیکھا تو سمجھ گئیں کہ یہ کریک ڈاؤن ہے۔حسب معمول مردوں کو الگ کر دیا گیا۔ فوج گھروں میں گھس آئی لیکن اس کے بعد جو ہوا‘ اسے یاد کرکے آج بھی زونی کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔
''ہم سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ فوج آگئی۔ انہوں نے مردوں کو باہر نکال دیا۔ کچھ نے ہمارے سامنے شراب پی۔ میری دو سال کی بچی میری گود میں تھی۔ ہاتھا پائی میں وہ کھڑکی سے باہر گر گئی۔ وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئی۔ تین فوجیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ میرا پھیرن(کشمیری خواتین کی شلوار)‘ میری قمیض پھاڑ دی۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیا کیا ہوا؟۔ وہ پانچ لوگ تھے۔ ان کی شکلیں مجھے اب بھی یاد ہیں‘‘۔زرینہ بھی اسی گھر میں موجود تھی۔ اس کی شادی کو صرف 11 دن ہوئے تھے۔''میں اسی دن میکے سے واپس آئی تھی۔ فوجیوں نے میری ساس سے پوچھا کہ یہ نئے کپڑے کس کے ہیں؟۔ میری ساس نے کہا۔ یہ ہماری نئی دلہن کے ہیں۔ اس کے بعد جو ہوا‘ میں بیان نہیں کر سکتی۔ ہمارے ساتھ صرف زیادتی نہیں ہوئی‘ ایسا ظلم ہوا جس کی کوئی حد نہیں۔ آج بھی فوجیوں کو دیکھ کر‘ ہم ڈر سے تڑپ جاتے ہیں‘‘۔
کشمیر میں اْن دنوں ہند مخالف مسلح تحریک شروع ہو چکی تھی۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے انڈیا کی طرف سے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن جاری تھا۔اس سلسلے میں جگہ جگہ ''کارڈن اینڈ سرچ آپریشن‘‘ ہوا کرتے تھے‘ جو اب تک ختم نہیں ہوئے۔ انہیں عام زبان میں کریک ڈاؤن کہا جاتا ہے۔ فوج ایک علاقے کوگھیرے میں لے لیتی ہے۔ اس کے بعد علاقے کے تمام مردوں کو گھروں سے نکال کر کسی ایک جگہ پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گھروں کی‘ جن میں صرف عورتیں اور بچے ہوتے ہیں‘ تلاشی لی جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ مردوں کی شناختی پریڈ ہوتی ہے‘ جس میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو الگ کیا جاتا ہے۔کنن اور اس کے قریب واقع‘ پوشپورا کے لوگ‘ انڈین فوج پر اس رات گاؤں کی عورتوں کے ساتھ‘ اجتماعی ریپ کا الزام لگاتے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس رات‘عورتوں کے ریپ کے ساتھ ساتھ‘ مردوں کو بھی بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ پچھلے 26
برس سے بقول ان کے'' انصاف ‘‘کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔سرینگر میں ریاستی حکومت کے وزیر‘ نعیم اختر سے‘ جب میں نے اس کیس کے بارے میں بات کی تو ا نہوں نے کہا کہ کشمیر جیسے حالات میں کئی دفعہ‘ حقیقت پر دھول سی جم جاتی ہے۔اب کچھ نوجوان کشمیری خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اسی دھول کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 2013ء میں کچھ کشمیری عورتوں نے'' کنن پوشپورا‘‘ کے حوالے سے مقامی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے‘ اس کیس کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی۔کنن اور اس کے قریب واقع پوشپورا کے لوگ ‘انڈین فوج پر اس رات گاؤں کی عورتوں کے ساتھ اجتماعی ریپ کا الزام لگاتے ہیں۔نتاشا راتھر‘ ان میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے چار دیگر نوجوان کشمیری خواتین کے ساتھ مل کر‘ کنن پوشپورا اجتماعی ریپ پر ایک انعام یافتہ کتاب بھی لکھی ہے۔''یہ ایک اتنا بڑا اجتماعی ریپ کیس ہے‘ جس میں متاثرین ہمت کر کے سامنے آئے ہیں اور اس میں بہت سے شواہد موجود ہیں۔ ہم چاہتے تھے کہ یہ کیس دوبارہ کھولا جائے‘‘۔کیس دوبارہ شروع ہوا۔ ایک طویل اور مشکل عمل کے بعد‘ کشمیر کی ہائی کورٹ نے متاثرین کو زرِ تلافی دینے کے احکامات جاری کیے۔ ریاستی حکومت نے پہلے کہا کہ اسے یہ فیصلہ منظور ہے لیکن اس کے بعد ‘اس فیصلے کو انڈیا کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا‘ جہاں یہ کیس اب بھی جاری ہے۔انڈین فوج پہلے سے ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس بار ہم نے ان سے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے ہمیں ایک بیان بھیجا۔فوج کے ترجمان نے ہمیں بتایا کہ ان الزامات کی تین بار‘ آزادانہ تفتیش ہوئی اور متضاد بیانات کی وجہ سے پولیس نے یہ کیس بند کر دیا۔ لیکن ایک مقامی عدالت ملزمان کی شناختی پریڈ کرانے کا حکم دے چکی ہے جس پر عمل ہونا باقی ہے۔خواتین کے حقوق کے ریاستی کمیشن کی سربراہ‘ نعیمہ احمد مہجور نے صاف لفظوں میں کہا کہ ان کی نظر میں ان گاؤں والوں کے ساتھ یہ جرم ہوا ہے۔حکومتی اہلکار تو محتاط اور اشاروں کی زبان استعمال کرتے ہیں لیکن سب نہیں۔ہم خواتین کے حقوق کے ریاستی کمیشن کی سربراہ ‘نعیمہ احمد مہجور سے ملے تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ ان کی نظر میں‘ گاؤں والوں کے ساتھ یہ جرم ہوا ہے اور اسے ثابت کیا جانا چاہیے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت اس عمل میں دخل اندازی نہیں کر سکتی۔اس رات کنن پوشپورا میں واقعی کیا ہوا؟ سچائی شاید کبھی سامنے نہ آئے۔ یہاں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے۔ گاؤں اور مکانوں کا حلیہ بدل رہا ہے۔ لیکن کچھ یادیں ہیں‘ جو مکینوں کا ساتھ نہیں چھوڑتیں‘‘۔