ان دنوں پاکستانی عدلیہ‘ مختلف سزا یافتگان کے غیظ و غضب کا شکار ہے۔ عام عدالتوں کے معزز جج صاحبان کے فیصلوں پر نظرثانی کی جا سکتی ہے‘ لیکن سپریم کورٹ کے جج حضرات کے کسی فیصلے پر کوئی اور جج‘ نظر ثانی کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ اختیار صرف‘ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کے پاس ہے۔ لیکن کچھ دنوں سے‘ ملک کے بڑے سیاسی لیڈر‘ سپریم کورٹ آف پاکستان پر تنقید کے تیر چلا رہے ہیں۔ ان تیر چلانے والوں نے کوئی ممکنہ توہین یا تضحیک ایسی نہیں چھوڑی‘ جس سے معزز جج صاحبان کو ہدف نہ بنایا گیا ہو‘ لیکن قدرت اگر کسی کو اعلیٰ مقام اور مرتبے سے نوازتی ہے تو پھر دولت اور سیاست میں کتنا ہی بلند پایہ انسان کیوں نہ ہو‘ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ میلی آنکھ کی مجال نہ ہوتی کہ وہ ان بلندیوں تک پہنچنے کا حوصلہ کرے‘ جہاں عدالت عظمیٰ کی مسندوں پر جج صاحبان جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
ہمارے ملک میں عوامی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والے‘ عظیم سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو شہید کو نا کردہ جرم میں ملوث کیا اور پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب جانتے تھے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا‘ جس کے الزام میں انہیں زندگی سے محروم کر دیا جائے۔ پاکستان کے عوام‘ بھٹو صاحب پر لگائے گئے الزام سے انہیں پاک سمجھتے تھے۔ ملک کے ہر شہر میں عوام ان کے حق میں احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے۔ بعض نے اپنے لیڈر کو پھانسی کی سزا سے بچانے کے لئے‘ خودکو احتجاجاً نذرِ آتش کر دیا تاکہ ان کے پسندیدہ لیڈر کو خراش نہ آنے پائے۔ بھٹو صاحب کو پھر بھی موت کی سزا سنا دی گئی۔ جیل میں وہ موت کی کوٹھڑی میں بیٹھ کر بھی‘ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کر لیا کرتے تھے۔ کال کوٹھڑی میں لکھی گئی ان کی تحریریں‘ آج بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے حکمرانوں کو تختہء مشق ضرور بنایا‘ جس کے وہ حقدار تھے لیکن بھٹو صاحب نے جج کے مرتبے پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ اور یہ ہوتا بھی کیسے؟ وہ خود بیرسٹر تھے۔ معزز جج حضرات کے اعلیٰ مرتبے پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ عظیم لوگ جان پر کھیل جاتے ہیں لیکن اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنے والے جج صاحبان پر کوئی تہمت لگانا گوارا نہیں کرتے۔
آج طرح طرح کے جوڑ توڑ اور سازشوں کے ذریعے‘ اگر کوئی با اختیار شخص‘ کرسی پر بیٹھنے کا دائو لگانے میں کامیاب ہو جائے تو وہ اعلیٰ عدلیہ کے بلندتر مرتبے پر‘ دونوں ہاتھوں اور واحد منہ سے کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتا ہے‘ جس میں وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ وہی کیچڑ پلٹ کر اسی کے چہرے پر رونق افروز ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ارد گرد قدموں پر مکھن پوتنے والے‘ کچھ حاشیہ نشین بھی دستیاب رہتے ہیں۔ مسند نشین شخص‘ حاشیہ برداروں کو تبرے بھی سناتا ہے تو اسے آگے سے جواب بھی ملتا ہے۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم نواز کو جلد صحت یاب فرمائے۔ وہ اپنے شوہر نامدار کی کرسی پر جلوہ افروز ہوں۔ وہ کامیاب ہو کر بھی‘ اپنے شوہر نامدار کے حلقہ انتخاب میں منتقل نہ ہوں کیونکہ یہاں سے منتخب ہونے والے‘ نامورسیاست دان کبھی ادھر رہنا تو درکنار‘ وہاں کی گلیوں سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اس حلقے میں بسنے والے عجیب لوگ ہیں۔ ووٹ کروڑ پتی امیدواروں کو دیتے ہیں اور نل میں آنے والے گندے پانی کو پی کر مدہوش رہتے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر اس محلے کے معائنے پر گئے تو ان کے جوتے کا تلوا سر مست ہو گیا۔ ان گلیوں کے کیچڑ کو صرف دو مرتبہ شاہی جوتے کو چومنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ محل میں جاتے ہی اس جوتے کو حقارت سے پھینک دیا گیا۔ یہ گلیاں وہ ہیں‘ جہاں سے تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم بننے والی عظیم ہستی‘ گزری اور آئندہ شاید ہی گزرے۔
اس مرتبہ یہ حلقہ خوش نصیب نکلا کہ یہاں شاہی خاندان کی دختر نیک اختر‘ اپنے والد صاحب کے متروکہ حلقے میں‘ انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہے۔ انتخابی مہم ختم ہوتے ہی گھر جانے کے بعد‘ دو تین دن مسلسل اپنے پیر دبوائے گی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے پیر نہ جانے کس چیز کے بنے ہیں کہ وہ جوتوں سمیت گلیوں میں چلتے ہوئے‘ گھر گھر دروازوں پر دستک دیتی اور مسکرا کر گھر سے برآمد ہونے والی خاتون یا مرد کو‘ پہلے اپنے انتخابی امیدوار ہونے کا ''المیہ ‘‘ بتاتیں اور پھر ووٹ کی فرمائش کر دیتیں۔ اس مرتبہ جو امیدوار بھی کامیاب ہو گا‘ اس کا جوتا صاف رہے گا‘ کیونکہ موجودہ تینوں بڑے امیدواروں میں سے کوئی بھی اس محلے کا رہنے والا نہیں۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد جو بھی جیتا‘ نہ یہاں اس کا گھر ہو گا‘ نہ یہاں جوتا آئے گا۔ حلقہ جیتنے والے کے جوتے پر۔