واقعات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ان کا ساتھ دینا مشکل ہو رہا ہے۔ ایک ایک دن‘ نت نئی خبریں سامنے آتی ہیں کہ ان میں سے ایک سے دوسری‘ دوسری سے تیسری خبر تک جاتے جاتے‘ ہانپ جاتا ہوں۔ سمجھ نہیںآتی کہ کس خبر پر دھیان دوں؟ ایک کے بعد‘ دوسری خبر کی طرف لپکتا ہوں۔ خبریں ایسے آتی ہیں جیسے فلم کے سین‘ پچھلے منظر کو اوجھل کرکے‘ نیا منظر سامنے آ جاتا ہے۔ ان دنوں خبریں کچھ زیادہ ہی تیز رفتاری سے آ رہی ہیں۔ نہ کوئی آواز سمجھ میں آتی ہے۔ نہ کوئی سین غور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کل میاں نواز شریف صاحب‘ شاہی تخت پر بیٹھے تھے۔ آج ہزاروں میل دور بیٹھے‘ منصب اور اختیارات کے بغیر‘ احکامات جاری کر رہے ہیں۔ عزیزہ مریم نواز‘ ایک مہینے سے زیادہ اپنے والد محترم کے‘ خالی کردہ حلقے میں انتخابی مہم چلاتی رہیں۔ ووٹروں سے مختلف نوعیت کے وعدے کرتی رہیں۔ سہانے خوانے دکھاتی رہیں۔ ووٹر آنے والے دنوں میں‘ موعودہ وعدوں کو عمل پذیر ہوتے ہوئے‘ نیندوں میں دیکھتے ہیں۔ عزیزہ مریم کی والدہ کی کامیابی کا اعلان ہوتا ہے اور وہ انتخابی نتائج کو‘ ووٹروں اور کارکنوں کے سر پہ مار کے لندن‘ روانہ ہو جاتی ہیں‘ اور اپنے مہربان ابو کے سینے سے لگ کے‘ انہیں خوشخبری سناتی ہیں۔ اپنے ابو سے چھینی گئی سیاسی زندگی‘ ان کی جھولی میں ڈالتے ہوئے کہتی ہیں ''پیارے ابو جان! جو دن آپ سے چھین لئے گئے تھے۔ میں انہیں واپس لے آئی ہوں۔ برا وقت گزر گیا۔ اب میں‘ آپ سے چھینی گئی زندگی کے باقی ایام‘ آپ کے حوالے کر رہی ہوں‘‘۔
میاں صاحب کی تاحیات حکمرانی کے خواب د یکھنے والے‘ اچانک رخ بدل کر‘ خان صاحب کی مشاورتی مجلس میں گھس رہے ہیں اور انہیں ''لاہوتی‘‘ مشورے دے رہے ہیں کہ اقتدار کی نشست عظمیٰ پر‘ براجمان ہونے کے لئے‘ آپ اپنے سارے حریفوں کو کہنی مارتے‘ کان کے پاس چیخ نکالتے اور آنکھوں کے سامنے ''دو ہتھڑی‘‘ بجاتے ہوئے‘ اقتدار کو جلدی سے دبوچ لیں۔ ورنہ یہ چڑیا کسی بھی وقت‘ پُھرسے اڑ سکتی ہے۔ خان صاحب قریباً اکیس برس سے سیاست کے میدان میں چڑیوں‘ توتوں‘ فاختائوں‘ تتلیوں اور بلبلوں کا تعاقب کرتے سبزہ زاروں اور ریتلے میدانوں میں بھاگ رہے ہیں مگر میاں نواز شریف کے کچھ پرانے خیر خواہ‘ اپنا تجربہ ساتھ لے کر اچانک‘ خان صاحب کو میٹھے میٹھے گیت سنانے لگے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں
کہ وہ میدان سیاست میں دوڑتے دوڑتے تھک چکے ہوں گے۔ انہیں جلدی سے اقتدار کی جھلکی دکھائیں اور تھکے ماندے‘ عمران خان‘ جھٹ سے آلتی پالتی مار کے بیٹھ جائیں گے‘ اور انتظار کریں گے کہ سارے سیاسی حریف‘ ایک ایک کرکے‘ ان کے سامنے سے ہٹ جائیں گے۔ وہ بہار کی خوشبو کی طرح‘ پھولوں میں رچ بس کر‘ اقتدار کے رنگوں میں ڈبکیاں لگائیں گے۔ لیکن خان صاحب اتنے بھولے بھی نہیں کہ بغل بچوں کے دکھائے ہوئے خوابوں کی دلدل میں‘ ایک ہی جست کے بعد غوطے لگانے لگیں۔ ''خاندان شریفیہ‘‘ کے بانی حکمران‘ تخت و تاج کا تیسرا تھپیڑا کھا کے نئے سمندر کے کنارے بیٹھے‘ نئے تھپیڑے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جو اقتدار میاں صاحب کو نصیب ہوا‘ وہ ہر نئے تھپیڑے کے ساتھ پہلے سے بلند اونچی لہر پر سوار ہو کر‘ آگے آگے بڑھتا چلا گیا اور نئی سے نئی لہریں انہیں زیر آب خزانوں سے‘ جھولیاں بھرنے کے مواقع فراہم کرتی رہیں۔ پتہ نہیں اب کون سی نئی لہر‘ انہیں نئے خزانوں تک پہنچائے؟
عمران خان‘ واحد کپتان ہیں جن کی قیادت میں 92ء کا ایک روزہ‘ ورلڈ کپ جیتا۔ پورے ٹورنامنٹ میں ہماری ٹیم وسوسوں کا شکار تھی کہ ہم فائنل میں پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں؟ خان صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر‘ ہم آگے بڑھے اور ایسا بڑھے کہ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو ناقابل یقین شکست دے کر‘ فائنل میں جا پہنچے۔ اس کے بعد‘ ایسی رفتار پکڑی کہ فائنل جیت کر‘ کرکٹ کے عالمی چیمپئن بن گئے۔ کرکٹ کے شائقین جانتے ہیں کہ کرکٹ کا کھیل‘ بائی چانس ہوتا ہے۔ اسی طرح اقتدار کا کھیل بھی بائی چانس ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف اپنے پہلے میچ میں صوبائی وزیر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور پھر آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ چوتھا میچ کھیلنے کے بعد‘ میاں صاحب کافی تھک چکے ہیں۔ اب ان کے ساتھی‘ کئی ہفتوں سے انہیں ہچکولے کھاتے دیکھ کر‘ نیا کپتان ڈھونڈ رہے ہیں اور عمران خان کی طرف‘ امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ خاں صاحب‘ سیاست کے میدان میں ابھی تازہ دم کھلاڑی ہیں اور ان کی ٹیم بھی۔ جبکہ حریفوں کی تھکی ماندی ٹیمیں‘ کمر پہ دونوں ہاتھ رکھے‘ نئے کپتان کی قیادت میں کھیلنے کے لئے بے تاب ہیں۔ سیاست کی اکیس سالہ جدوجہد کے بعد‘ عمران جو نئی ٹیم تیار کر رہے ہیں‘ اس میں تھکے ماندے اور بھولے بسرے گانوں جیسے کھلاڑیوں کو‘ تازہ دم ٹیم میں شامل کر کے‘وہ گھٹنوں پر چلنے والوں کو اپنے کندھوں پرکیوں لادیں؟