"NNC" (space) message & send to 7575

سکینڈ ہینڈ اسلحہ اور شہادت

پاکستان میں اگر صاف ستھری تجارت سے استفادہ کرنا ہو تو بڑے شہروں کی جیلوں کا رخ کریں‘ وہاں ہر چیز خالص اور اصلی ملتی ہے۔ ایک ٹی وی چینل رپورٹ دیکھی تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ اگر پاکستان میں قابل اعتماد اور خالص مال خریدنا ہو تو اس کے لئے کراچی جیل کی منڈی‘ سب سے زیادہ موزوں ہے۔ آپ شاید یہ سن کر حیران ہوں کہ چرس‘ افیون‘ ولایتی وہسکی یا دوسرے برقی آلات خریدنا ہوں تو بہتر ہے‘ یہ خریداری کراچی جیل میں کی جائے۔ وہاں آپ کو چرس خالص ملے گی۔ افیون جو کہ کھلی منڈیوں میں نایاب ہے‘ عمدہ اور ایک نمبر دستیاب ہو گی۔ تھوڑا عرصہ پہلے کراچی جیل کی منڈی کے بارے میں‘ اسی طرح کی خبریں منظر عام پر آئیں تو پولیس حکام فوراً حرکت میں آ گئے۔ جیل کے اندر سے جو سامان برآمد کیا‘ وہ اتنا زیادہ تھا کہ ٹرک یا ٹرالی وغیرہ میں رکھ کر‘ باہر نکالنا مشکل تھا۔ اس سامان کو خریداروں تک پہنچانے کے لئے‘ جیل کے اندر ہی کھلی منڈی لگا دی گئی۔ وہاں ایک کھلے میدان میں جدید ترین ریفریجریٹرز‘ ایئرکنڈیشنرز‘ بہترین ٹیلی وژن سیٹ‘ موبائل فون‘ جو اس وقت تک کھلی مارکیٹ میں نہیں آئے تھے‘ وہ بھی جیل میں دستیاب تھے اور شنید ہے‘ اب بھی ہیں۔ جو لوگ خاص مشروب کے عادی ہیں‘ وہ خالص ولایتی مال تلاش کرنے جاتے ہیں‘ انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سفارشیں‘ راستے اور دکانیں ڈھونڈنے کے بعد‘ جب ولایتی مال خریدا جاتا ہے تو گھر جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تو ملاوٹ شدہ مال ہے۔آپ کو بڑے شہروں کی پُر رونق منڈیوں میں کاروبار کے لئے دکان درکار ہو تو اس پر ''پگڑی‘‘ کے بعد‘ کرایہ بھی ڈیڑھ‘ دو لاکھ دینا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود یقین نہیں ہوتا کہ دکان چلے گی یا نہیں؟۔ لیکن یہی کاروبار کسی نے جیل کے اندر چلانا ہو تو یہ اس کے لئے بہترین جگہ ہے۔
سنٹرل جیل کراچی کے‘ ایک قیدی نے ٹی وی پر اپنے کاروبار کی کہانی کچھ یوں سنائی کہ جو کال کوٹھڑی آفت زدہ قیدیوں کو بطور سزا دی جاتی ہے‘ وہی کال کوٹھڑی ایک قیدی نے‘ پونے دو لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر حاصل کی۔ اس قیدی نے بتایا کہ میرے مال کی قیمتیں تو زیادہ ہوتی ہیں‘ لیکن مال خالص ملتا ہے۔ خالص چیز خریدنے کے خواہش مندوںکو‘ شہر میں ڈھونڈنے سے بھی عمدہ اور معیاری چیز نہیں ملتی۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں‘ جب افغانستان میں جنگ زوروں پر تھی اور دہشت گرد ضروریات زندگی کا سامان ٹرکوں میں بھر کے لایا کرتے تھے۔ مرد مومن جنرل ضیا الحق نے ''مجاہدین‘‘ کے سامان سے بھرے ہوئے ٹرکوں کو‘ پاکستان کے اندر نقل و حرکت کے لئے آزادی دے رکھی تھی۔ ان ٹرک ڈرائیوروں کو ایک خاص کارڈ دے دیا جاتا تھا۔ پاکستانی پولیس کی مجال نہیں تھی کہ وہ کارڈ دکھانے کے بعد‘ ٹرک کی تلاشی لے سکیں۔ ان ٹرکوں میں اسلحہ اوپر اوپر رکھا جاتا‘ اسے چھپانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور درآمدی ولایتی مشروب کے کارٹن‘ اس کے نیچے رکھے جاتے۔ پاکستان بھر میں یہ دونوں چیزیں آزادی سے فروخت کی جاتیں۔ یہ چلتی پھرتی منڈیاں‘ قابل اعتماد ہوا کرتی تھیں۔ کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ اسلحہ یا خالص درآمدی ولایتی مشروب میں ملاوٹ ہو گی۔ ''جہادیوں‘‘ کو یہ سامان ارزاں نرخوں پر فروخت کرنے کا حکم تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ گھریلو ضروریات کا عمدہ اور معیاری سامان‘ لنڈی کوتل یا باڑہ میں آسانی سے مل جاتا تھا۔ سیر بھی ہو جاتی۔ چپلی کباب کھانے کا لطف بھی آ جاتا اور ضرورت کا سامان بھی‘ اصلی اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہو جاتا۔ خیبر پاس سے گزرنا مشکل ہوا‘ تو باڑہ منڈیاں عام شہروں میں آ گئیں۔ راولپنڈی میں ایک مشہور باڑہ بازار ہے‘ جہاں اصلی باڑہ مارکیٹ سے زیادہ دکانیں اور تھوک کا سامان موجود ہے۔ یہاں سارا سامان سستے داموں دستیاب ہو جاتا ہے۔ اب باڑہ اور لنڈی کوتل جانا خطرناک ہو گیا ہے۔ شہر شہر باڑہ مارکیٹیں کھل گئی ہیں۔ ان مارکیٹیوں میں لایا گیا سامان‘ کسی بھی قسم کے ٹیکس سے آزاد ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں چونکہ سردی زیادہ پڑتی ہے‘ وہاں کی خوش حال آبادی‘ ہر سال نئے گرم کپڑے خریدتی ہے‘ خنکی میں کمی آنے پر‘ ایک ہی سیزن کا پہنا ہوا لباس‘ چرچ کے فلاحی اداروں میں جمع کرا دیتی ہے۔ اسی میں سے چیدہ چیدہ ملبوسات کو ڈرائی کلین کرکے‘ پسماندہ ممالک کو فروخت کر دیا جاتا ہے‘ جسے متوسط طبقے کے لوگ‘ بڑے ذوق و شوق سے خریدتے ہیں۔ پھر یہ مال درجہ بدرجہ سستی دکانوں تک پہنچتا ہے۔ یہ مال ہر بڑے شہر کے لنڈا بازار میں‘ مناسب قیمتوں پر فروخت کر دیا جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب لنڈا بازار میں خریداریاں کرنے والے منہ چھپا کر جاتے تھے۔ اب یہ عالم ہے کہ لنڈے کے ملبوسات خرید کر‘ مطلوبہ ٹانکے وغیرہ لگا کر قابل دید کر لیا جاتا ہے اور پھر متوسط طبقے کے لوگ یہی ملبوسات پہن کر اتراتے ہوئے سیر کرتے نظر آتے ہیں۔ اب تو ولایتی جوتے بھی لنڈا بازاروں میں دستیاب ہیں۔
ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے معیار زندگی میں ترقیء معکوس یعنی نیچے کی طرف‘ کرنا پڑ رہی ہے۔ عرصہ ہوا کہ متوسط طبقے کے لوگ بھی‘ کاریں خریدنے کے عادی ہو گئے۔ سکینڈ ہینڈ کاریں‘ فیکٹریوں میں واپس بھیج کر‘ انہیں ری کنڈیشنڈ کرایا جاتا ہے اور پھر انہیں نیا بنا کر‘ ہماری منڈیوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ایک ہی سیزن کے لئے استعمال کی گئی کاریں‘ ہمارے ملک میں درآمد ہو جاتی ہیں اور ہمارے نئے نئے فیشن زدہ لوگ‘ یہی کاریں مناسب داموں خرید لیتے ہیں۔ شروع میں ہمارے ہاں مجاہدین اور دہشت گرد‘ فروانی سے دستیاب تھے مگر اب یہ بھی سکینڈ ہینڈ ملنے لگے ہیں۔ خوش حال ''مجاہدین‘‘ تو نیا مال خریدتے ہیں اور تنگ دست ''دہشت گرد‘‘ باڑے کے مال پر گزارہ کرتے ہیں۔ اسلحہ میں نئے پرانے کا کیا فرق؟ مارنا تو بندوں کو ہے۔ اسلحہ پرانا ہو یا نیا؟ نشانہ ٹھیک لگ جائے تو بلا ضرورت‘ شہادت نصیب ہو جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں