ہمارے وزیر خزانہ‘ اسحاق ڈار قید سے بچنے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ان کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ جیل میں گئے بغیر ہی کام چل جائے۔اگر انہیں ناگزیر حالات میںجیل جانا پڑ بھی جائے ‘تو اپنے بااثر دوستوں کی مدد سے‘ کراچی جیل میں رہنا پسند کریں گے۔ایسا نہیں کہ وہ جیل میں قید کاٹنے جائیں۔ وہ پورے پاکستان کی مارکیٹ میں قسمت آزمائی کرتے رہے ہیں۔ جیل کو کمائی کا ذ ریعہ بناتے ہوئے‘ وہاں جلوہ افروز ہوں گے۔اب ان کی نظر صرف دبئی کی مارکیٹ پر جمی ہوئی ہے‘ جہاں ان کے دو بیٹے‘ پہلے سے ہی عالمی مارکیٹ میں اچھا
خاصا مقام حاصل کر چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے قومی خزانے میں بچی ہوئی رقم ‘ جو صرف پانچ یا دس بلین ڈالر رہ گئی ہے‘اس پربھی جلد ازجلد ہاتھ صاف کر لئے جائیں‘ ورنہ دس بلین ڈالر پر متعدد سیاست دانوں کے منہ میں پانی آ رہا ہے۔ سرکاری خزانے پر ہاتھ مارنے والوں کی تعدادچار پانچ سے زیادہ نہیں۔ اگر تمام افراد خاندان کو شمار کر لیا جائے تو سب مل کر‘ چالیس کے لگ بھگ ہو جائیں گے۔یہ ہے وہ چھوٹی سی رقم ‘جس کے انتظار میں ‘وہ ابھی تک پاکستان میں مقیم ہیں۔زیادہ سمجھداروں نے اپنے بال بچوں کو بیرونی ملکوں میں پہلے سے منتقل کر رکھا ہے۔ان ملکوں میں بیٹھ کر وہ دنیا بھر کے بنکوں اور مالیاتی اداروںمیں کاروبار کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بڑے سرمایہ دار اپنی دولت کو منجمد کر کے نہیں رکھ سکتے۔ وہ اسے بنکوں‘ سٹاک مارکیٹیوں اور تجارتی مراکز کے خفیہ کھاتوں میں لگا کے رکھتے ہیں۔
پاکستان کا امیر ترین خاندان‘ پہلے ہی سے اپنے نقد اثاثے‘ دنیا کے تمام بڑے بنکوں اور امیر ملکوں میں منتقل کر چکا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد بھی اچھی دے رکھی ہے۔دو بیٹوں نے پہلے ہی یورپ میں ‘خاندانی سرمائے کو محفوظ کر رکھا ہے۔دو بیٹیوں میں سے ایک توایسے گھرانے میں بیاہی گئی ہے‘ جس کا سربراہ ایک روپے کو‘90روپے سے‘ اوپر بنانے میں کمال کی مہارت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گھرانہ‘ اپنے سرپرست خاندان کی مالیاتی خدمات بھی انجام دیتا ہے۔ یہاں تک تو میں نے ایک بڑے سیاسی خاندان کا جائزہ لیا۔ بے شک میڈیا والے قیاس آرائیاں کرتے رہیں کہ کس کی دولت زیادہ ہے؟ اور کس کی قید زیادہ؟دولت پر تو میرا کامل یقین ہے لیکن قید کی قیاس آرائیوں پر اعتبار نہیں۔ان دنوں اس طاقتور خاندان نے ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کر رکھی ہے۔ اس خاندان کو قوی یقین ہے کہ کوئی اس سے بچ نہیں پائے گا۔اس سلسلے میں سیاسی طاقت کو بھی جمع کیا جا رہا ہے۔ زر اندوزی کے ماہر سیاست دان ‘پہلے رائونڈ میں بے شمار عدالتوں کو چت کر کے فارغ ہو چکے ہیں۔ اب وہ دوسرے رائونڈ کی تیاری کر کے واپس وطن عزیز میں تشریف لے آئے ہیں۔ان کے نقش قدم پر‘ نئے دور کا سرمایہ دار خاندان ڈالروں‘ پائونڈز اور مختلف کرنسیوں میں بہت کچھ جمع کر چکا ہے۔یہ سرمایہ اتنا کافی ہے کہ وہ بیرونی ملکوں میںاپنی دولت پھیلا کر اسی کا نفع سمیٹتے سمیٹتے ‘آسمان کی بلندیوں کو چھو لیں گے اور انہیں صرف پاکستان کیا‘ دنیا بھر کے تمام ممالک چھوٹے چھوٹے دکھائی دیں گے۔ویسے تو یہاں بھی انہیں کسی چیز کی کمی نہیں۔ عدالت میں پیشی بھگتنے جائیں تو پچاس کاروں کے قافلے میں جاتے ہیں۔یہ نہ سمجھیں کہ پچاس کاروں میں وہ خود بیٹھتے ہیں۔ا پنے بیٹھنے کو ایک ہی کار کافی ہے۔باقی کاریں درباریوں کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہیں کیونکہ درباریوں کے نعروں کے بغیر‘ عزت مآب کی شان و شوکت میں فرق پڑتا ہے۔
امرا کی چھوٹی سی کمیونٹی میں چار پانچ'' رئیس ‘‘ عالمی منڈی میں رئیسانہ درجہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ان کی امید یہ ہے کہ جب بڑے بڑے سرمایہ دار‘ مقدموں اور خزانے میں پڑی‘ ہوئی دولت سے طبع آزمائی کرتے ہوئے تھک جائیں گے تو وہ جنوبی ایشیا کے ''رئیس‘‘ بن جائیں گے اور اپنے عشرت کدوں میں بیٹھے بیٹھے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر‘ عالمی سرمائے کاری کے مواقع دیکھا کریں گے‘ جہاں اچھا موقع ملا‘ وہیں ہاتھ صاف کرلیا ۔ جلد ہی چھوٹے سرمایہ کار چھوڑی گئی دولت پر ہاتھ مارنا شروع کر دیں گی۔ وہ بھی تیاری پکڑ رہے ہیں۔پاکستان کے پاس بچے ہوئے سرما ئے پر‘پرانے رئیس تو عالمی سطح کے ہاتھ ماریں گے اورملک کے اندر رہ جانے والوں کی امیدیں بھی ماند نہیں پڑیں گی۔ پاکستان میں رہی سہی دولت بھی ‘نئے رئیس بنانے کے لئے کافی ہے۔ اور پھر چین کو مت بھولئے۔ پاکستان کا ہر سرمایہ دار‘ دونوں آنکھوں کی جھولیاں پھیلائے‘ بیجنگ کی طرف دیکھ رہا ہے۔چین میں زرمبادلہ سے بھری ہوئی جھولیاں چھلک رہی ہیں اور ہم چین کے دوست ہیں۔ ان تجوریوں پر ہمارے سوا‘ کس کا حق ہے؟