ان دنوںپاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف‘ امریکہ کے دورے پر ہیں۔امریکی صدر‘ مسٹر ٹرمپ کی طرف سے بھی انہیں مدعو کیا گیا تھا لیکن پاکستان میں ان کی مصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے پاس کسی دوسرے کے ساتھ بات کرنے کا وقت ہی نہیں تھا۔امریکہ جانے سے پہلے انہیں قومی سلامتی کمیٹی سے تفصیلی بات چیت کرنا تھی۔ بریفنگز کے لئے کمیٹی کے پاس کافی وقت تھا۔کمیٹی کے اراکین وزیرخارجہ کو‘ لمبے لمبے لیکچر دے کر ‘صورت حال کے بارے میں تفصیلات بتاتے رہے۔ اراکین کافی مطالعہ اور غوروفکرکر کے ''وزیر خواجہ‘‘ کو اپنے خیالاتِ عالیہ سے آگاہ کرنے پر کمربستہ تھے لیکن جب خواجہ صاحب بولنے پر آتے ہیں تو سامعین کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں ۔ کیا مجال ان کے سامنے کوئی لب کشائی کر سکے؟امریکہ میں بھی ان کی سیالکوٹی انگریزی ‘بڑے اشتیاق اور انہماک سے سنی جاتی ہے۔وزیر خارجہ بنتے ہی انہوں نے بڑی بے تابی سے امریکہ کا سفر کیا تو میزبان انہیں دیکھنے کے لئے‘ ذوق وشوق سے ایئر پورٹ گئے تھے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن‘ ان کا استقبال کرنے والوں میں تھے۔ استقبالیہ ٹیم بھی پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں خطے کے ماہرین کے خیالات سے استفادہ کرنے آئی تھی۔ خواجہ صاحب استفادہ بہت کرتے ہیں۔جہاں بھی جاتے ہیں‘ جس سے بھی ملتے ہیں'' استفادہ‘‘ ضرور کرتے ہیں۔خواجہ صاحب بطور وزیر خارجہ‘ بھارت کی میزبانی سے'' استفادہ‘‘ کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن بھارتی حکومت نے خواجہ صاحب کی میزبانی کے لئے جو کمیٹی مرتب کی تھی‘ اس میں ایک سیالکوٹی ہندو بھی شامل تھا‘ جس نے خواجہ صاحب کی ہمہ گیر شخصیت پر ایسی ''روشنی‘‘ ڈالی کہ تمام اراکین کے چھکے چھوٹ گئے۔یہ چھکے کیوں چھوٹتے ہیں؟
دلی میں ہر رنگ اور علاقے کے لوگ رہتے ہیں۔ انہیں پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ خواجہ صاحب اگر دلی آگئے تو سارے کام چھوڑ کے‘کسی ابلاناری کی تلاش میں لگ جائیں گے ۔ ہمارے تاریخ ساز نالائق وزیراعظم نے دلی کے بہت دورے کئے ہیں۔ہمارے خوبرو اور گورے چٹے وزیراعظم کو دیکھ کر‘ پہلے سے ہی ابلا ناریاں‘ دلوں پر ہاتھ رکھے دھڑکن دھڑکن‘ انتظار کے پل گن رہی ہوتیں۔ بھارتیوں کو پہلے سے خبر مل گئی تھی کہ اگر ''وزیر خواجہ‘‘نے دلی کا دورہ کرتے ہوئے‘ کسی ابلا ناری پر نظر جھاڑی تو تیسری شادی کے لئے بے تاب ہو
جائیں گے۔پاک بھارت تعلقات پہلے ہی کشیدہ رہتے ہیں۔ ہمارے درمیان ایک نیا تنازع کھڑا ہو جائے گا۔ بھارت پہلے ہی جموں و کشمیر کی ریاست‘ دھوکے بازی کے ذریعے ہتھیا کے‘ اس پر قبضہ جمائے بیٹھے ہے ۔ ہمارے وزیر خارجہ نے دلی والوں کی کوئی چٹکتی چٹخارے دار چڑیا دیکھ لی تو خالی ہاتھ واپس نہیں آئیں گے ۔ کشمیر پر ان گنت جنگیں ہو چکی ہیں۔ ایک تو وہ جنگیں ہیں جو باقاعدہ محاذوں پر ہوئیں۔ ان کی تعداد چار پانچ سے زیادہ نہیں ہو گی لیکن ''وزیر خواجہ‘‘ بھارتیوں کی کسی چٹکتی چڑیا کو مٹھی میں دبا کر لے آئے تو پھر تیرا کیا
بنے گا ''وزیر خواجہ؟‘‘بھارت والے اپنی چڑیامانگیں گے اور ''وزیر خواجہ‘‘ چڑیا کے ساتھ‘کسی فارم ہائوس کے گوشہ تنہائی میں‘ مورچے کے اندر پناہ گزین ہوں گے۔اس کے بعد‘پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ تھمنے والی‘دھماکے دار جنگوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔یہ دونوں ملک جنگیں لڑتے لڑتے نڈھال ہو چکے ہیں۔ مورچے میں چھپے بیٹھے ''وزیر خواجہ‘‘ہانپ رہے ہوں گے۔ ہانپنے والے وزیر خارجہ‘ افغانستان کے کسی ننھے منے حجرے میں‘ حملہ آور خوبرو امریکی دوشیزائوں کو میزبانی کے لئے مدعو کرلیں گے۔ ہم اپنے دونوں ہمسایہ ملکوں یعنی بھارت اور افغانستان کے ساتھ آنے والے ستر سالوں کے دوران‘ امن کا معاہدہ کرنے میں یقیناًکامیاب ہو جائیں گے۔کیا ہمیںان دونوں ممالک کی میزبانی‘ راس آئے گی؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اہل ہند اور پاکستان صدیوں سے افغانوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ہم تینوں کے پاس خیر سگالی کی کمی نہیں۔مودی جیسے حکمرانوں نے بھارت میں‘ طویل جارحانہ قیام کر لیا تو بھارتی ''گئو ماتا‘‘ کودیکھنے کے لئے ترسا کریں گے۔اگر برصغیر میں بھارت‘ پاکستان اور افغانستان میں جنگ چھڑ گئی تو''گئو ماتا‘‘کی خیر نہیں۔مجھے توماضی کی جنگوں سے یہی سبق ملا ہے۔بھارتی گائیں کھاتے جائو‘ محبت کے گن گاتے جائو۔آزادی کے بعد‘ ہم بے شمار آزمائشوں سے گزرے‘ تب کہیں جا کر ‘اپنے ملک کی وزارت خارجہ کے لئے ''وزیر خواجہ‘‘ہاتھ لگے۔ ''وزیر خواجہ‘‘نے اگر امریکہ کے درجنوں دورے کر لئے تو امریکیوں کا بہت فائدہ ہو گا۔وہ سیالکوٹی انگریزی بولنے لگیں گے۔جنگ میںہماری توپوں سے‘ فٹ بال اور گیندیں چلا کریں گی۔ بچے خوش رہیں گے ۔ بڑے ورزش کریں گے۔