"NNC" (space) message & send to 7575

کیمیاوی فصلیں اور انسان

زرعی فصلوں کی بیماریاں اب انسانی اور حیوانی جانوں کے لئے زہر قاتل بنتی جا رہی ہیں۔ صنعتی شہروں مثلاً کراچی‘ فیصل آباداور حیدر آباد میں پودوں کی صحت کے لئے جو دوائیں استعمال کی جاتی ہیں وہ خود بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں۔ایک زمانے میں ہماری کپاس کی فصل انتہائی قیمتی ہوا کرتی تھی۔بھارت اب یہ فصل برآمد کرنے لگا ہے۔ ہماری فصل سال بہ سال خراب ہوتی جا رہی ہے اور بھار ت کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔پھلوںا ور سبزیوں کا بھی یہی حال ہے۔ہم اپنی بہت سی زرعی اشیا سے محروم ہوتے جا رہے ہیں چونکہ ہم بھارت کی بعض زرعی دوائیں استعمال کرنے لگے ہیں۔ خودبھارت بھی زرعی دوائوں کے استعمال سے خطرناک نتائج بھگت رہا ہے۔ بھارتی حکومت کی تجویز کردہ زہریلی زرعی دوائیں‘ ان علاقوں میں فروخت کی جاتی ہیں جو پاکستان سے ملحق ہوں مثلاً کپاس کی فصل کو ان کیڑوں نے تباہ کیا جو پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں کے قریب ہیں۔
''مختلف اقسام کی آلودگیوں کے ہاتھوں انسان کس طرح اجتماعی خود کشی جیسی صورت حال کی جانب بڑھ رہا ہے؟ اس کے اسباب و علل یوں تو چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں مگر مہاراشٹر کے ودربھ خطے میں ‘کیمیکل آلودگی کی کوکھ سے ابھر کر سامنے آنے والے تازہ ترین منظر نامے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حالات انتہائی سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔اس خطے میں کپاس کے کھیتوں میں چھڑکے جانے والے جراثیم کش کیمیکل کے اثر ات اتنے خطرناک ہیں کہ گزشتہ دو تین مہینوں میں پچاس سے زیادہ کسان لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔دو ہزار لوگوں میں چند افراد یا تو اندھے ہو گئے ہیں یا سر درد‘ قے‘ ابکائی اور پیٹ درد جیسے عارضوں میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دوائیں جب جراثیم کش تھیں تو ان سے انسانوں کی موت کیسے ہو گئی؟ بہتوں کی بینائی کیوں چلی گئی؟ اسی کی بنیاد پر اندازہ لگا لیا جائے کہ اناج‘ ساگ‘ سبزیاں اور پھل پھول اگانے والے کھیتوں اور باغات میں جرا ثیم کش دائوں کے چھڑکائو سے موت کو دعوت دینے والی کیسی صورت حال ہو گی ؟ اور کیمیکل کے زور پر پیدا کی جانے والی غذائیں کیسے موت کے منہ میں دھکیل رہی ہوں گی؟
کہا جارہا ہے کہ کپاس کے کھیتوںمیں جراثیم کش دوائوں کا چھڑکائو کرنے کے دوران‘ احتیاط نہیں برتی گئی جس کی وجہ سے ایسے سانحے ہو رہے ہیں۔ ماسک پہن کر بھی سپرے مشین سے چھڑکائو کے دوران‘ کیمیکل کا جسم میں داخل ہونا یقینی ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نئی قسم کی سپرے مشین بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ جراثیم کش ادویات سے احتیاط سے متعلق1968ء کے قانون کے مطابق‘ یہ التزام ہے کہ کھیتوں میںان دوائوں کے چھڑکائو سے پہلے سرکاری حکام‘ کسانوںاو ر متعلقین کو ضروری تربیت دیں گے لیکن ودربھ کا سانحہ ‘ ہمارے ملک میںدوسرے قوانین کی طرح اس قانون کی منہ 
بولتی تصویر ہے۔اطلاعات کے مطابق‘ ودربھ کے یادتمال ضلع میں‘ کپاس کے کھیتوں میں جراثیم کش ادویات کا چھڑکائو کرنے سے‘ 57سالہ دیو داس مداوی کی مو ت 19اگست کو ہوئی۔19جولائی سے ایسی کم از کم‘ 17اموات ہوئیں۔ اسی طرح کپاس کے کھیتوں میں جراثیم کش دوائوں کا چھڑکائو کرنے سے29سالہ اندر راٹھور کی بینائی جاتی رہی۔ اپنی بیوی اور تین بچوں پر مشتمل کنبے کے تنہا کمانے والے اس شخص نے مایوسی کے عالم میں‘ دو منزلہ عمارت سے کود کر خود کشی کی کوشش کی جس میں اس کی جان تو بچ گئی لیکن ٹانگیں ٹوٹ گئیں ۔ 39سالہ برہما نند بھی کپاس کے کھیت میں زہریلی اشیا چھڑکائو کرنے سے ‘ تقریباً اندھا ہو گیا ۔ یاد رہے کہ کھیتوں میں جراثیم کش کیمیکل چھڑکائو کے لئے یومیہ دو سو سے اڑھائی سو روپے بطور مزدوری ملتی ہے۔بعد از خرابی بسیار تقریباً اڑھائی ماہ بعد ‘مہاراشٹر حکومت کی آنکھ کھلی اور اس نے جانچ کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ‘ مرنے والے کسانو ں کے ورثا کے لئے‘ دو دو لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان بھی کیا ہے۔اس دوران ہائی کورٹ بھی مفاد عامہ کی ایک عرضی کے بعد حرکت میں آگئی ۔ اس نے نوٹس جاری کر کے جراثیم کش ادویہ بنانے والی کمپنی کے خلاف کریمنل کیس شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اسے تو ضلعی انتظامیہ نے اس خطرناک صورت حال کے بارے میں بتایا ہی نہیں تھا۔پانچ کمپنیوں کے مالکان کو احتیاطی لوازمات کے بغیر جراثیم کش ادویات فروخت کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی افسر نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ ان ادویات کے چھڑکائوکے دوران‘ کس طرح کی احتیاط برتی جائے؟ یہ بھی خبر ہے کہ کئی کسان‘ جی ایم سی ایچ اور آئی جی ایم سی ایچ و دیگر سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہیں لیکن کسی افسر نے کسانوں کی مدد کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ البتہ قومی حقوق انسانی کمیشن نے مرکزی زراعت اور کسان بہبود سے متعلق وزارت اور حکومت مہاراشٹر کے سیکریٹریوں کو نوٹس بھیج کر ‘چارہفتہ کے اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔
کہنے کو تو بنی نوع انسان نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ اس ترقی کی کتنی بھاری قیمت خود ہم انسان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا چکا رہی ہے؟ نہ جانے یہ کیسی ترقی ہے؟ اس کے سبب ہم نے زندہ رہنے کے لئے ناگزیر ہوا ور پانی تک کو‘ زہریلا اور آلودہ بنا دیا ہے۔ خشکی سے لے کر تری تک اور آسمان سے لے کر زمین تک‘ ہم نے اپنی ذی روح مخلوقات کا بھی جینا دوبھر کر دیا ہے جو اس صورت حال کے قطعی ذمہ دار نہیں ہیں۔ چرندوں‘ پرندوںاو ر درندوں سے لے کر حشرات الارض اور نباتات جیسی بے زبان مخلوقات تک ہماری کرتوتوں کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔اب نہ گھر کی منڈیروں پر گوریوں کا جھنڈ شور مچاتا دکھائی دیتا ہے اور نہ آنگن میں لگے امرود کے پیڑ پر پرندوں کے گھونسلے ملتے ہیں۔ درخت سوکھ رہے ہیں۔ جنگل کٹ رہے ہیں۔ ہریالی غائب ہوتی جا رہی ہے۔ کھیت اجڑ رہے ہیں۔ مٹی بھی زہریلی اور اس میںاگنے والے اناج‘ سبزیاں اور پھول پھل بھی زہریلے جبکہ انہی کو کھا کر صرف ہم انسان ہی نہیں بلکہ دوسری مخلوقات بھی زندہ رہتی ہیں۔ رہی سہی کسر تو ہم نے اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو پلاسٹک کا بنا کر پوری کر لی ہے۔ پہلے تو مصنوعی دودھ اور مصنوعی گھی ملاکرتے تھے۔ مگر اب تو ہم نے پلاسٹک کا چاول اور انڈے تک بنا لئے ہیں۔ تربوز میں لال رنگ کا انجکشن لگاتے ہیں۔ گائے‘ بھینس کے تھن میں انجکشن مار کر دودھ نکالتے ہیں۔ ادرک کو تیزاب میں دھو کر چمکیلا بناتے ہیں۔ سبزیوں کو کیمیکل بھرے ہرے رنگ کے پانی میں ڈبو کر ترو تازہ کر لیتے ہیں۔ کہاں تک گنائے جائیں اپنے ''کارنامے‘‘؟
سر میں سمایا سودا ترقی کا اس طرح
ہم نے خود اپنی موت کا سامان کر لیا
انسان نہ جانے کس مٹی کا بنا ہے؟ کہ نقصانات کے بارے میں کبھی بھی پہلے سے نہیں سوچتا۔ جبکہ سابقہ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ایسا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ زندگی کو آسان اور پرتعیش بنانے کے لئے پہلے نئی نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے لیکن ان ساری چیزوں سے فائدہ ہمیشہ کم اور نقصان زیادہ سے زیادہ ہوا ہے۔ پھر پانی جب سر سے اونچا ہونے لگتا ہے تو ہم اپنے کئے کا حل تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔عالمی کانفرنسوں کے انعقاد سے لے کر‘ سخت سے سخت تر قوانین و ضوابط وضع کئے گئے لیکن حالات کیا سدھر گئے؟نہیں بالکل نہیں۔ بلکہ یوں کہئے کہ پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے۔کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم آلودگی کی تمام تر شکلوں کے خاتمے کے لئے مخصوص ایام منانے‘ ریلیاں نکالنے‘ مہمات چلانے‘ کانفرنسیں برپا کرنے اور زبانی جمع خرچ کرنے جیسے کام کرنے کے بجائے‘ ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھنے کی ٹھان لیں اور تہیہ کر لیں کہ انسان کو زہریلے کیمیکل کی وجہ سے ‘بے وقت موت کے منہ میں جانے سے بچانے کی تدبیر کریں۔ ایسے اناج‘ ساگ سبزیاں‘ پھول پھول نہ ہم خود اگائیں اور نہ دوسروں کو اگانے دیں‘ جن کے لئے مٹی میں بیج بونے سے لے کر گوداموں میں محفوظ رکھنے اور دکانوں تک پہنچانے کے لئے ہر قدم پر کیمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں