آج کل کے بچے ملکی سیاست اور معیشت کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں‘ روایت کے عین مطابق‘ ہم سے پہلے والے بچے بھی‘ اپنے بزرگوں سے زیادہ چالاک اور سمجھدار ہوا کرتے تھے۔میں اپنی تعریف نہیں کر رہا۔ میرا زمانہ گزر گیا۔اب نئی نسل کا دور آرہا ہے۔ہم پرانے لوگ جاتے جاتے‘ دودھ میں جتنا گوبر ڈال سکتے ہیں‘ ڈالتے رہیں گے لیکن نئی نسل جو کچھ کر رہی ہے اور کرنے جا رہی ہے‘ ہمارے زمانے کے بچوں سے کہیں زیادہ‘ کرتب دکھانے والی ہے۔اگر آپ گزشتہ صدی کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر دیکھیں تو سر چکرانے لگتا ہے۔ جب گزشتہ صدی شروع ہوئی تو پہلی صدی اپنا سوٹ کیس اور بستر باندھ رہی تھی۔ جاتی ہوئی صدی‘ جاپان کے شعلوں‘ عرب دنیا پر ہونے والی بمباریوں ‘امریکہ اور اس کے پڑوسیوںمیں‘ اجتماعی قید خانوںکے چونچلے‘ زندگی کو آسان کرنے کی تمام مشینریاں اپنی آخری سانس لے رہی تھیں۔ گزشتہ صدی کی ابتدا میں لوگ گھوڑوں اور ہاتھیوں پر بیٹھ کے جنگیں لڑا کرتے۔ افریقہ والے تیر کمانوں اور لاٹھیوں سے کام چلا لیتے۔ مگر آنے والی تبدیلیاں اپنے دور کے ماضی کی ہر چیز کو ردی قرار دے کر‘ کوڑے دان میں پھینکا کرے گی۔ اونٹ اور بیل کھانے کی چیز بن کر رہ جائیں گے۔
آخری دنوں میں جنگوں کے نقشے ہی بدل گئے۔جن ملکوں نے ترقی کی‘ وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر ہی ‘دشمن پر بم برسانے لگے۔ پرانے دور کے جنگجوئوں نے‘ نئے دور کے جنگجو ایجاد کئے۔ اور یہ ہیں '' دہشت گرد‘‘۔ گزشتہ صدی میں امریکہ نے ہر قسم کے آلات اور ایجادات‘ پر قبضہ جما لیا تھا۔امریکہ کو دیکھ کر دوسرے ملک بھی جنگیں لڑنے اور تباہی مچانے کے نت نئے آلات اور مشینریاں بنا کر ‘فضائوں اور میدانوں میں آگ برسانے‘ پھیلانے اور بھڑکانے کے نئے نئے کھیل ایجاد کر کے‘ ناچنے اور تالیاں بجانے لگے۔سفر کے لئے انہوں نے کاریں‘ موٹریں اور موٹرسائیکل بنا کر وہ جدید ترین زمانے کوگود میں کھلا کر‘ اپنی ایجادت پر فخر کرنے لگے مگر انہیں کیا خبر تھی ؟کہ ان کے تعاقب میں ایک اور نئی نسل آگے بڑھ رہی ہے۔ اس نسل نے ہوائی جہاز اور سیارے ایجاد کر کے‘ رفتار کی ایک نئی تیزی فضائوں میں چھوڑ دی ۔ لوگ اب جیٹ طیاروں میں سفر کرنے لگے ہیں۔ ایسے ایسے طیارے ایجاد ہوئے جو ہزاروں میل کا سفر ایک گھنٹے کے اندر ختم کرنے لگے۔گزشتہ صدی رخصت ہونے لگی تو اس دور کے بچے‘ مصنوعی سیارے بنا کر ‘ تیز رفتار ی سے سفر کرنے کے‘ نئے نئے طریقے اور ذرائع ایجاد کرنے لگے ۔دو صدیاں پہلے لوگ‘ پیروں پر چل کر ایک سے دوسرے گائوں‘ جایا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ہر نسل کے بعد نئی نسل ‘ سفر کے تیز ذرائع اختیار کرنے لگی۔ بیل‘ خچر‘ گھوڑے اور کاروں میں سفرکرتے ہوئے‘ انہوں نے ہمیںرواں صدی کے کنارے پر لاکر چھوڑ دیا۔ اب ہم اسی صدی کو چانٹے مار مار کے‘ اگلی صدی کی طرف رواں دواں ہیں۔ گزشتہ ایک ہی صدی میںگھوڑوں اور بیل گاڑیوں سے شروع ہو کر‘ ہوائی جہازوں اور مصنوعی سیاروں تک رفتارکو دھاگے کی طرح ‘زمین کے چاروں طرف لپیٹ کر‘ ہم نے اسے کھلونے سمجھ کر استعمال کرنا شروع کر دیا۔آپ جانتے ہیں کہ رواں صدی میں لوگ رفتار کے تمام کھلونوں سے کھیلتے کھیلتے ‘ اب ان سے اکتانے لگے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں کہ ہمارے بعد آنے والی انسانی نسلیں ‘اپنے بچوں کے لئے کیسے کھلونے ایجاد کریں گی؟اورکیسے کیسے سیاروں کو دریافت کریں گی؟
اگلی صدی کے بچے‘ کھیل کود کے لئے کائنات کو انگلی پر لپیٹ کے‘ لاانتہا وسعتوں میں سفر کے کیسے کیسے ذرائع اختیار کر یں گے؟ مجھے کیا پتہ ‘لا انتہا وسعتوں میں کھیلنے کودنے والی نئی نسلیں‘ اپنے لئے کیسے کیسے کھیل ایجاد کریں گی؟اب تک ملکوں اور براعظموں کے معاملات بڑی عمر کے لوگ چلایا کرتے تھے۔ پچھلی صدی کے آخرتک‘ یہ کام انہی کے ذمے رہا۔مگر اب رواں صدی کو آگے بڑھانے کے لئے‘ آنے والے کو اس دنیا کی نئی شکلیں بنانے کے لئے‘ نئے نئے کھلونے ایجاد کر کے دئیے جائیں گے۔مجھے باقی دنیا کی خبر نہیں لیکن گزشتہ اور رواں صدی کے دوران‘ حکومت چلانے کی ذمہ داریاں‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی دی جاتی تھیں۔ ایسے حکمران گھرانے بھی ‘پائے جاتے تھے جو اپنے بچوں کے سر کے بال بعد میں صاف کرتے اور تاج پہلے پہنا دیا جاتا تھا ۔ آج بھی یہ روایت ختم نہیں ہوئی۔ شمالی کوریا کے سربراہ‘ ابھی چونتیس برس کے ہیں لیکن میزائل اور ایٹم بم پر کنٹرول قائم کر کے‘ امریکہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ آنے والے دور کے حکمرانوں میں ‘بے شمار حکمران چالیس برس سے کم عمر کے ہیں۔ ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ ہماری دو بڑی پارٹیوں نے اپنے خاندان میں‘نئے حکمرانوں کی تربیت شروع کر دی ہے۔ بلاول زرداری اور مریم نوازکو آنے والے انتخابی میدان میں‘ اتارنے کے دائو پیچ سکھائے جا رہے ہیں۔ دونوں کے بچے آپس میں کھیل کر جوان ہو گئے تو ہو سکتا ہے کہ دونوں خاندانوں کے بچے‘کسی بھی وقت تاج و تخت کے مالک بن جائیں۔ میرا چھوٹا پوتا ابھی تین سال کا ہے۔ اندازہ ہے کہ دس سال کی عمر میں سیاست کی گتھیاں سلجھانا شروع کر دے گا۔