''سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں‘ سرکاری عہدیداروں اور سرمایہ داروں کی گرفتاری کو سرکاری طور پر بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن سے منسلک کیا جا رہا ہے لیکن سعودی عرب کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان کا خاندانی اور کاروباری پس منظر ثابت کرتا ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ‘ اپنے سیاسی نظریات اور خاندانی وابستگیوں کی وجہ سے بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔ سعودی وزارت اطلاعات و نشریات نے ایک بیان میں بتایا کہ ''مملکت کی تاریخ میں بے نظیر انسداد بدعنوانی مہم کے تحت‘ 11شہزادوں‘ 38 موجودہ اور سابق وزرا‘ نائبین اور سرمایہ کاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘‘ یہ گرفتاریاں گزشتہ برسوں میں سعودی عرب سے آنے والی اہم ترین خبروں میں سے ایک ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب میں اس پر کھلے عام بہت کم بات ہو رہی ہے۔سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکی صحافی‘ اس خبر کے بارے میں بات تو کر رہے ہیں لیکن اس پر سرکاری اعلامیوں سے زیادہ کوئی لکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔بی بی سی نے اس مضمون کی تیاری کے لیے سعودی عرب میں کام کرنے والے بعض صحافیوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس سارے معاملے کے سیاق و سباق پر روشنی تو ڈالی لیکن اپنا نام شائع نہ کرنے کی درخواست بھی کی کہ اس موضوع پر آزادانہ رائے دینا‘ ان صحافیوں کے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
ویسے تو سعودی شہزادے جتنی بڑی تعداد میں اور جتنے اہم کاروباری و سرکاری عہدوں پر پائے جاتے ہیں‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ ملک میں کوئی بھی غلط یا صحیح کاروباری سرگرمی ہو اور اس میں کوئی نہ کوئی شہزادہ شامل نہ ہو۔ اس کے باوجود گرفتار شدگان کی فہرست بتاتی ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کا مقصد صرف کرپشن کا خاتمہ نہیں ہے۔مثال کے طور پر گرفتار ہونے والوں میں سابق فرمانروا‘ شاہ عبداللہ کے بیٹے اور بعض قریبی ساتھی بھی شامل ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان گرفتاریوں کا ایک ہدف‘ شاہ عبداللہ کی باقیات اور ان کی سوچ کو شاہی محل سے نکالنا بھی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ بالکل ہی ایک سیاسی عمل ہے۔ دو برس قبل مکہ مکرمہ میں تعمیراتی کرین گرنے سے ایک سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اسی طرح چند برس قبل‘ جدہ میں سیلاب سے بھی اتنی ہی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ ان دونوں معاملات کی تفتیش میں ناقص منصوبہ بندی کے الزامات سامنے آئے تھے۔ بعض بااثر افراد اور شہزادوں کی مداخلت کے باعث ان حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ گرفتاریوں کا ان دونوں واقعات سے بھی تعلق ہے۔پچاس کے قریب گرفتار شدگان میں سے چند ایک کے بارے میں جو معلومات دستیاب ہیں ان کی بنیاد پر تیار کردہ خاکہ گرفتاری کی ا س مہم پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے۔
سعودی شاہی روایات کے مطابق اگر بادشاہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری محفل میں آپ کو اپنی بائیں جانب بیٹھنے کی سعادت بخشتے ہیں تو اس سے بڑا اعزاز‘ آپ کے لئے کوئی اور نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ سلامت آپ کو معتبر اور دوست سمجھتے ہیں۔ صالح کامل سعودی تاریخ میں ان چند افراد میں شامل ہیں جنہیں شاہی خاندان کا رکن نہ ہونے کے باوجود شاہ عبداللہ نے یہ اعزاز بار بار بخشا بلکہ سعودی فرمانروا دیر تک ان کا ہاتھ بھی تھامے رکھتے۔ صالح کامل کی دوسری شہرت‘ ان کی دولت ہے۔ وہ اسلامی بینکاری میں سب سے بڑے سرمایہ کار مانے جاتے ہیں اور البرکہ بینک ان کی ملکیت ہے‘ جس کی شاخیں پاکستان سمیت مختلف اسلامی ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ انہیں اپنے بیٹوں عبداللہ اور محی الدین کے ہمراہ حراست میں لیا گیا ہے۔
ڈگری کے لحاظ سے انجینئر عادل الفقیہ کئی برس نجی شعبے سے وابستہ رہے۔ مختلف کمپنیوں اور بینکوں میں ملازمت کرتے رہے۔ انہیں شاہ عبداللہ نے بادشاہت سنبھالنے کے فوراً بعد‘ جدہ کا میئر بنایا جو ان کی شاہ عبداللہ سے قربت کا ثبوت ہے۔ چند برس بعد جب جدہ میں سیلاب سے ہلاکتیں ہوئیں ‘تو ابتدائی تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ میئر نے شہر کی خشک پڑی آبی گزر گاہوں پر پلاٹ بنا کر بیچ دئیے۔(شہر کے اندر خشک آبی گزرگاہ کے پلاٹ بنا کر بیچ دئیے گئے) اس وقت اس تفتیش کو شاہ عبداللہ سے قربت کی وجہ سے دبا دیا گیا۔ اب جبکہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے تو مبصرین اسے ایک تیر سے دو شکار سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس گرفتاری کا تعلق سیلاب سے بھی جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن عادل الفقیہ کا سابق فرمانروا سے‘ قریبی تعلق ہی ان پر آنے والے برے دنوں کی اصل وجہ بتائی جاتی ہے۔
اسامہ بن لادن کے بڑے بھائی‘ بکر بن لادن‘ سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی کے سربراہ ہیں ۔سعودی شاہی خاندان سے‘ بن لادن خاندان کی قربت بہت پرانی ہے‘ جو شاہ عبدالعزیز دور میں پروان چڑھی اور شاہ عبداللہ کے زمانے تک قائم رہی۔ اس دوران مکہ مکرمہ میں دو برس قبل‘ کرین گرنے کے حادثے کی تفتیش میں‘ ا نہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ شہزادہ سلمان کی انسدادِ بد عنوانی مہم کی زد میں‘ مبینہ طور پر اسی وجہ سے آئے۔
شاہ عبداللہ کے بیٹے سعودی عرب میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں لیکن اب زیر عتاب ہیں۔ شہزادہ متعب سعودی عرب کی اہم ترین فوج‘ شاہی گارڈز کے سربراہ اور وزیر تھے۔ شہزادہ ترکی ریاض کے گورنر اور شہزادہ فہد نائب وزیر دفاع رہے ہیں۔ لیکن موجودہ ولی عہد کے عمل نے ثابت کیا ہے کہ وہ‘ انہیں محل میں نہیں دیکھنا چاہتے۔‘‘
نوٹ:۔حکمران خاندان کے لٹیروں کو گرفت میں لیتے ہی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ احتیاط صرف یہ کی گئی کہ شاہی خاندان کے اضافی اراکین کوایک سیون سٹار ہوٹل میں ''قید‘‘ کر دیا گیا۔ جن شہزادوں کو سونے کی جگہ نہ ملی وہ فرش پر بچھے قالین کا نصف حصہ اپنے اوپر اوڑھ کر سو گئے۔ یہ ''اصلی‘‘ شاہی خاندان کے حالات ہیں۔