مجھے آج کل بھٹو صاحب کا زمانہ‘ شدت سے یاد آرہا ہے۔اس دور میں بھٹو صاحب واحد سیاست دان تھے‘ جنہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں کو مصروف اور ملوث کر رکھا تھا۔ وہ اکیلے بیان دیتے اور پھر سیاست دانوں کی ساری پلٹن‘ کئی ہفتوں کے لئے مصروف ہو جاتی ۔ سیاست دانوں کو نہ صرف تقریروں اور بیانات کے موضوعات فراوانی سے دستیاب ہو جاتے بلکہ بنجر سیاست دان اپنے موضوعات کے جنگلی پودے اگا کر بغلیں بھی بجاتے۔اکثر تو خوش ہو کر اتنے زور سے بغلیں بجاتے کہ اپنے ہی موضوعات کے پودوں کو مسل ڈالتے۔اس دور میں شاید ہی کوئی ایسا سیاست دان ہو‘ جو بھٹو صاحب کو ہدف بنا کر تقریر نہ جھاڑتا۔ بھٹو صاحب اگر ایک ہفتے کے لئے چپ ہو جاتے تو سیاست دانوں کی ساری پلٹن ‘جماہیاں اورانگڑائیاں لے کر پریشان ہوتی کہ دن کیسے گزاریں؟رات کیسے بھگتائیں؟
گزشتہ دو اڑھائی عشروں کے دوران‘ خاندان شریفیہ نے کثرت سے لیڈر پیدا کئے ۔ ابتدا میں تو ایک ہی سرکردہ لیڈر منظر عام پر آیا۔ لیڈر موصوف نے لاہور شہر کے پچاس فیصد تقریر نویس‘ فراوانی سے بھرتی کئے۔ جیسی تقریر مطلوب ہوتی‘ ویسے ہی تقریر نویس کی عارضی خدمات حاصل کر لی جاتیں۔اگر بھرتی کا سودا مطلوب ہوتاتو گوالمنڈی کارخ کیا جاتا۔ درمیانے درجے کا مال مطلوبہ ہوتا تو میکلوڈروڈ اور مال روڈ کا مال اٹھا لیا جا تا ۔ اگر چیمبر آف کامرس یا تعلیم یافتہ طبقوں کی یونینوں کے لئے‘ انگریزی میں تقریر درکار ہوتی تو اس کا بندوبست بھی ہنگامی بنیادوں پر کر لیا جاتا اور ایسی تقریر لکھوائی جاتی جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ نہ تو مقرر کو سمجھ آتی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ نہ حاضرین کو سمجھ آتی کہ وہ کیا سن رہے ہیں؟ کیونکہ لیڈر موصوف نے اچھے سپیچ رائٹر منتخب کر رکھے ہو تے جو عموماً اخباروں یا ٹی وی چینلز سے چنے جاتے۔ جب انگریزی کی تقریر کا ترجمہ ‘ اخباروں یا ٹی وی چینلز میں شائع یا نشر ہوتا تو مداحین بڑھ چڑھ کر داد دیتے۔ لیڈر موصوف کو داد کی سمجھ آتی تو مناسب ردعمل کا اظہار کر دیتا اور اگر سمجھ کنی کترا کر گزر جاتی‘ تو اپنے کسی مصاحب سے سرگوشی میں پوچھ لیتے کہ تقریر کے کس حصے پر گرم جوشی سے داد ملی تھی؟اور جب خاندان شریفیہ کے اس لیڈر کوبتایا جاتا کہ داد کی وجہ کیا تھی؟ تو موصوف خود بے ساختہ داد دیتا کہ ''واہ !میں نے کیا خوب کہا؟‘‘
خاندان شریفیہ ہی کے ایک دھواں دار مقرر‘بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ جوش میں بولتے تو پاس کھڑے حاضرین کو ایک تیرتا ہوا جھاپڑ جھڑ دیتے‘جس کی لپیٹ میں قریب کھڑے ہوئے‘ کم از کم پانچ سات سامعین تو ضرور آجاتے۔ان کی ایک خاص عادت یہ تھی کہ وہ تقریر کے لئے گھر سے نکلتے وقت‘ فرسٹ ایڈ باکس و الا ایک کارندہ‘ اپنے ساتھ ضرور رکھ لیتے‘ جو ہر وقت ان کے قریب رہتا۔تقریر کے اختتام پران کے سامنے جو بھی آٹھ دس مائیک ہوتے‘ جوش کی حالت میں اتنی طاقت سے‘ سارے مائیک بے خبر حاضرین کے منہ پر دے مارتے۔ جس کی قسمت اچھی ہوتی اس کا چھوٹی موٹی خراش میں گزارہ ہوجاتا اور جسے مائیک تھپڑ کی طرح لگتا ‘اسے فرسٹ ایڈ پہنچا دی جاتی۔ان کی تقریر کا ایک فن یہ بھی تھا کہ جو بھی خرابی ہوتی‘اس کا ذمہ دار‘ ان کے دشمن ہوتے اور جو اچھا کام انہوں نے کیا ہوتا‘ اس کی اپنے آپ کو بھر پور شاباش دیتے۔اللہ تعالیٰ نے بڑے لیڈر کو دو بیٹے بھی عطا فرما رکھے ہیں۔تقریر تو دور کی بات ہے‘ وہ گفتگو سے بھی کتراتے ۔انہیں صرف ایک ہی کام آتا کہ'' بہت کمائو اور بہت بچائو‘‘۔
بات بھٹو صاحب سے چلی تھی اور آگئی عصر حاضر کے گراں قدر لیڈر اور مقرر کی طرف۔ یہ انتخابات کے بادشاہ ہیں۔ووٹ سمیٹنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات جتنے ووٹ چاہتے‘ حاصل کر لیتے۔ جن حلقوں پر ان کی خاص نظر ہوتی‘ وہاں سے اتنے ووٹ سمیٹ لیتے‘ جتنے پولنگ سٹیشن پر بھی نہ ہوتے۔ یہ چابکدستی اور ہنر کو دیکھ کر‘ ان کے حریف چکرا جاتے ۔ان کاسپر ہٹ‘ یاد گار اور زبان زدعام تکیہ کلام یہ تھا''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ زرداری صاحب کے ایک دوست کو بغیر وجہ بتائے‘ کافی عرصے تک حراست میں رکھا گیا۔ چند ہفتے پہلے انہیں رہائی ملی تو وہ سیدھے اپنی بیگم صاحبہ کی معیت میں‘ڈاکٹر فاروق ستارکے گھر گئے اورمیڈیا کے سامنے‘ عصر حاضر کے عظیم لیڈر کو‘ مخاطب کر کے پوچھا'' آپ تو جلسوں میں پوچھتے پھر رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ میں پوچھ رہا ہوں کہ مینوں کیوں پھڑیا؟‘‘کالم لکھنے کے بعد جب پڑھاتو زور سے اپنے آپ کو ملامت کی ''کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو اتیلی‘‘؟آخر میں دور حاضر کے اپنے وزیر خارجہ کا‘ ایک شاندار جملہ پیش خدمت ہے '' دہشت گردی کے خلاف ‘پاکستان کی قربانیاں اور کامیابیاں سب سے زیادہ ہیں‘‘۔ مزید فرماتے ہیں کہ'' پاکستانی معاشرے کی اصل شکل میں بحالی کے لئے پرعز م ہیں‘‘۔