پاکستان میں کوئی تجزیہ کار‘ کوئی پروفیسر‘ کوئی مورخ‘ حالات حاضرہ کا کوئی ماہر اور کوئی ایاز امیر مجھے بتا سکتا ہے کہ جمہوری نظام کو چلانے والی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں میں کوئی ایسی شخصیت ہے‘ جو اس نظام کو چلا سکے؟ مجھے عمران خان سے بہت سی امیدیں ہیں۔ میری طرح بے شمار پاکستانی‘ اسی امید پر بیٹھے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہو گئے تو خان صاحب کو ووٹ بہت پڑیں گے۔ لیکن ووٹ پڑنے کے بعد‘ اس بات کا مجھ سمیت کسی کو یقین نہیں کہ رائے دہندگان جتنے ووٹ عمران خان کو ڈالیں گے‘ وہ ان کے حساب میں گنے بھی جا سکیں گے۔ اگر 2018ء میں الیکشن ہو گیا اور میں اس وقت تک زندہ رہا اور اسی طرح کے انتخابات ہوئے جیسے 2013ء میں ہوئے تھے‘ تو میں یہی سوچوں گا کہ 2017ء کے سال سے نکل کر اور 2018ء میں داخل ہو کر میں کیا جھک ماری۔ لیڈر ان گنت ہیں‘ مگر کوئی لیڈر بھی ہے؟ ووٹر کروڑوں میں ہیں مگر کوئی ووٹر بھی ہے؟ جمہوریت کو چلانے کے لئے ایک ادارہ‘ جسے پارلیمنٹ کہتے ہیں‘ وہ تو نیا بن جائے گا مگر وہ پارلیمنٹ بھی ہو گا؟ وزارت خزانہ کے لئے اسحاق ڈار دستیاب ہوں گے مگر وہ وزیر خزانہ بھی ہوں گے؟ کئی دنوں سے وہ ایک ہسپتال میں پڑے ہیں‘ جہاں مریض کو صرف سفید بستر اور چھپے ہوئے کپڑے (پرنٹڈ) کی بوشرٹ اور نیند کی گولیاں کھلا کر مسلسل لٹایا گیا ہے لیکن وہ اس حالت میں بھی‘ پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں۔ اگر وہ اسی حالت میں نومبر کا مہینہ گزاریں گے‘ تو پاکستان کے تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کا انتظام کون کرے گا؟
لاہور میں ان کی صرف دو ملٹی سٹوری عمارتیں ہیں۔ بقول ان کے‘ ایک عمارت میں سو کے قریب غریب بچے رہتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ وزیر خزانہ جب آزاد تھے اور لاہور میں ہوتے تھے تو ایک وقت کا کھانا‘ ان ضرورت مند بچوں کے ساتھ کھاتے اور کھانے کی ایک پلیٹ پیک کرکے ساتھ لے جاتے تھے۔ بہت سادہ مزاج آدمی ہیں کیونکہ ان کا کوئی بچہ لاہور میں نہیں۔ اس کام کے لئے انہیں دبئی جانا پڑتا ہے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ یہاں کے وزیر خزانہ کا اگر یہ حال ہے تو وفاقی‘ صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے تمام ملازمین‘ رواں مہینے کی تنخواہیں کس سے لیں گے؟ فی الحال تو وہ ایک مفلوج وزیر خزانہ ہیں۔ دسمبر کا مہینہ شروع ہوا تو پاکستان کو چلانے والے تمام افسر اور اہلکار گھروں میں تنخواہیں کہاں سے لے کر جائیں گے؟ کس طرح لے کر جائیں گے؟ عوام نے انہیں ٹیلی ویژن سکرینوں اور اخبارات میں دیکھا ہو گا۔ ضروری نہیں کہ سب ٹی وی دیکھنے والے‘ ڈار صاحب کو دیکھتے بھی ہوں۔ بعض تو ایسے ہیں‘ جو ٹی وی پر ان کی شکل نظر آتے ہی‘ افغانستان بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہاں کی روٹی اچھی اور بڑی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ٹی وی سکرین پر ڈار صاحب کا پُر نور چہرہ دیکھ کر بہت سے لوگ‘ ان کی صحت یابی کی دعا کرتے ہوں۔
بہرحال تھوڑے دنوں میں دسمبر بھی آنے والا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ بیرونی ملک کے ایک ہسپتال کے پلنگ پر‘ تاش کے الٹے پتے کی طرح پڑے ہوں اور پاکستانی پولیس کے چند سر پھرے اہلکار‘ انہیں اٹھا کر لے جائیں۔ اگر اس وقت تک پی آئی اے کی پروازیں بھی چل رہی ہوں‘ تو ڈار صاحب کو بغیر ٹکٹ کے پاکستان پہنچا دیا جائے گا۔ پولیس کی ٹیم تو بغیر ٹکٹ دکھائے باہر آ سکتی ہے لیکن ڈار صاحب کیسے نکلیں گے؟ اگر اسی وقت جناب نواز شریف بھی تشریف لے آئیں اور جب ٹرانزٹ لائونج میں داخل ہوں تو سامنے ڈار صاحب دکھائی دے جائیں‘ پھر میاں صاحب کا رد عمل کیا ہو گا؟ وہ اظہار مسرت کرتے ہوئے ڈار صاحب کی طرف بڑھیں گے؟ یا الٹے پائوں لائونج کا دروازہ کھول کے‘ ایک وی وی آئی پی کار کی طرف سرپٹ چل پڑیں گے۔ کیسا منظر ہو گا؟ جب گاڑی کے اندر ایاز صادق پہلے سے براجمان ہوں‘ اور آگے پولیس سکواڈ کی گاڑیاں چل رہی ہوں۔ ایئرپورٹ پر ڈیوٹیاں دیتے‘ میاں صاحب کے فدائین‘ گاڑی کی طرف بھاگتے ہوئے نعرے لگانے لگیں۔ یہ دیکھ کر میاں صاحب کے چہرے پر تازگی اور مسکراہٹ آ جائے۔ جب سکواڈ اور چالیس کاروں کا رخ‘ جیل روڈ کی طرف ہو تو سب ایک دوسرے کو تعجب سے دیکھنے لگیں۔ جیل کا دروازہ نظر آئے تو میاں صاحب ساتھ بیٹھے‘ سپیکر کی طرف دیکھیں اور اشارے سے پوچھیں کہ ''ہماری منزل کدھر ہے؟‘‘
''سر یہ تو مجھے پتا نہیں؟ یہ پرائم منسٹر ہائوس کی گاڑی کا ڈرائیور ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے اسی کو بتایا ہو گا کہ آپ کو کہاں پہنچانا ہے‘‘؟
قارئین! مجھے بھی پتا نہیں کہ میاں صاحب کہاں جائیں گے؟ شاید انہیں بھی نہ پتا ہو۔ میں دل ہی دل میں کہہ رہا تھا۔
منزل ہے کہاں تیری اے لالہ زر شاہی؟