دنیا میں کسی ملک کے پاس‘ ایسا وزیر خزانہ نہیں ہو گا‘ جو انسداد رشوت ستانی کی مہم کے عین دوران‘ ایک ایٹمی پاور‘ پاکستان کی وزارت خزانہ چلا رہا ہو۔ مجھے قواعد و ضوابط کا پتا نہیں۔ صرف اتنی معلومات رکھتا ہوں جتنی ایک صحافی کو مطلوب ہوتی ہیں۔ ڈار صاحب اس وقت پاکستان کے وزیر خزانہ ہیں۔ جب انہوں نے پہلی بار پاکستانی خزانہ‘ اپنے شکنجے میں لیا تو انہوں نے پہلا ہاتھ وزارت تجارت پر مارا۔ اور ا سی کے ساتھ انہوں نے وزرات خزانہ پر بھی نوکیلے دانت جڑ دئیے۔ مجھے یاد نہیں کہ وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ اور کتنی وزارتوں پر ہاتھ مارتے چلے گئے۔ ڈار صاحب‘ 90ء کے عشرے کے اوائل تک‘ مختلف رس بھرے محکموں کی کمیٹیوں میں داخل ہوتے رہے۔ جس کمیٹی کے ڈار صاحب سربراہ بن جاتے‘ اس کے بعد کسی کی مجال نہ ہوتی کہ ان کے سامنے بول سکے۔ جیسے ہی کوئی کمیٹی بنتی‘ پورے سیکریٹریٹ میں پیش گوئیاں شروع ہو جاتیں کہ اب اس کمیٹی میں بھی ڈار صاحب‘ کونجوں کی ڈار بن کر‘ پنجے جما ئیں گے۔ سیکریٹریٹ میں ایک دلچسپ روایت ہے کہ جیسے ہی کوئی کمیٹی بنتی تو اس کے اراکین کو مبارک باد کے پیغامات ملنے لگتے۔ کمیٹی کی رکنیت ملنے کے شوق میں سارے اراکین‘ خوشی میں جھومتے ہوئے ملتے اور گھومتی ہوئی کرسی پر بیٹھتے۔
وفاقی سیکریٹریٹ میں جب بھی کوئی نئی کمیٹی قائم ہوتی تو سب سے پہلی کمیٹی سے لے کر‘ اب تک کی کمیٹیوں میں‘ ڈار صاحب سربراہ کی حیثیت سے‘ پنجے جمائے بیٹھے ہوتے۔ اس زمانے میں ڈار صاحب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہر طرح کی کمیٹیوں کے چیئرمین ہوا کرتے۔ لوگ ان کی تازہ کامیابیوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ڈار صاحب بدترین حالات میں بھی‘ کمیٹیوں کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ جب وہ حدیبیہ کیس میں پکڑے گئے اور جیل میں قدم رنجا فرمایا تو اس کے بعد بھی وہ عام قیدی نہیں تھے۔ ان کی قید کے زمانے میں بھی جو کمیٹی بنتی‘ اس کے چیئرمین‘ جیل میں بیٹھے ڈار صاحب بن جاتے۔ اعلیٰ ترین افسران جو کمیٹیوں کے ممبر بنائے جاتے‘ ان کو ایک اور مصیبت پڑتی۔ وہ یہ کہ‘ دوچار دنوں کے بعد‘ انہیں جیل جا کر اپنی کمیٹی کے سربراہ سے ملاقات کرنا پڑتی۔ جن قارئین کو بدقسمتی سے‘ اپنے کسی قیدی عزیز کے ساتھ ملاقات کے لئے جانا پڑا ہو‘ اسے ضرورپتا ہو گا کہ جیل کی ملاقات کا منظر کیسا ہوتا ہے؟ سب سے پہلے جیل کا عملہ ‘ملاقاتی کی گاڑی پارک کراتا ہے۔ پھر جیل کے پھاٹک کا بچہ گیٹ کھلتا ہے۔ جیسے ہی آپ سر جھکا کر حالت رکوع میں‘ جیل کی ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ایک دھماکے دار ایڑی کے سلام کا جھٹکا لگتا ہے۔ اردگرد کے حالات‘ ملاقاتی کو باورکراتے ہیں کہ اسے بھی دروازہ کھولنے والے کو انعام دینا پڑے گا۔ اس کے بعد گریڈ اکیس‘ بائیس کے افسر صاحب پہلی نظر‘ استقبال کرنے والے پر ڈالتے ہیں‘ دفاتر کے سارے دروازے‘ ٹھاہ ٹھاہ کھلنے لگتے ہیں اور ملاقاتی‘ افسر کے گھٹنوں تک ہاتھ لے جا کر مصافحہ کرتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ ڈار صاحب حساب کے بڑے کھرے ہیں۔ کوئی ملاقاتی خالی ہاتھ آ جاتا تو واپس جانے پر‘ ساتھی اسے بتاتے کہ اب وہ‘ عمر بھر کے لئے ڈار صاحب کا ہدف بن گیا ہے۔ اگر کوئی ایک بار‘ ڈار صاحب کے نشانے پر آ گیا تو پھر اس کی خیر نہیں۔ اسی وجہ سے میں قیاس کر رہا ہوں کہ وفاقی سیکریٹریٹ میں تعینات اعلیٰ افسران‘ کسی بھی کمیٹی میں رکن رہے ہوں‘ یہ سب کے سب ان دنوں ڈار صاحب کے غیظ و غضب کو یاد کر کے نیب کو دعائیں دیتے ہیںکہ ''خدا ڈار صاحب کو جیل میں ہی رکھے‘‘۔
دوسری طرف 'دنیا کے نئے اور پرانے بزرگ‘ اپنے حیرت زدہ بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ ہاں بیٹا! اگر وزیر خزانہ‘ نیب کے کنٹرول میں آگئے تو اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ''جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے‘‘
سوال ہوتا ہے کہ ''ابو! میاں نواز شریف پولیس کے گھیرے میں نئی تاریخ لینے آتے ہیں۔ کیا وہ اب وزیراعظم نہیں رہے؟‘‘
''عزیزی! میاں صاحب نے بھی اسی لئے چار پیسے جمع کئے تھے کہ برے دنوں میں کام آئیں۔ یہ پھول‘ یہ خون بڑھانے والے نعرے‘ وزیراعظم نواز شریف... وزیراعظم نوازشریف، سب اللہ کی دین ہیں۔‘‘
''سادہ لوح افراد یہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ سابق وزیراعظم پھر سے پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے‘‘۔
''اللہ کے فضل و کرم سے سابق وزیراعظم کی تمام جائیدادیں اور ساری نقدی محفوظ رہے گی۔ ان کے بچوں کا مستقبل شاندار ہو گا‘‘۔
''خدانخواستہ میاں نواز شریف اگلے انتخابات کے بعد وزیراعظم منتخب نہ ہوئے تو؟‘‘
''مسلم لیگ (ن) کے منتخب نمائندگان جو آخری لمحے تک‘ میاں نواز شریف کا ساتھ دے رہے ہیں‘ ان سب میں دھینگا مشتی ہو گی۔ جو سب کے کپڑے پھاڑ کے‘ جوتے کہیں نہ کہیں پھنکوا کر مقابلہ جیت گیا‘ وہ نیا وزیراعظم ہو گا‘‘۔
''اوئے تو ںدانیال عزیز تے نہیں؟‘‘