1953ء کا سال تھا۔ میں جھنگ شہر میں تھا‘ جب پاکستان خصوصاً پنجاب میں پہلی تحریک ختم نبوتﷺ شروع ہوئی۔ اس کی ابتدا مجلس احرارالاسلام نے کی۔ تحریک کے سربراہ‘ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تھے۔ عمدہ مقرر تھے۔ روایت یہ ہے کہ وہ عشا کے بعد‘ اپنی تقریر شروع کرتے‘ جو فجر کی نماز تک جاری رہتی۔ حاضرین میں سے ایک شخص بھی اٹھ کر نہیں جاتا تھا۔ سب کے سب فجر کی نماز تک بیٹھتے اور پھر نماز ادا کرنے کے بعد ہی گھر جاتے۔ تحریک ختم نبوتﷺ‘ جو ملتان اور جھنگ سے شروع ہوئی‘ آہستہ آہستہ اس کے جلوسوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وقت کے ساتھ‘ تحریک زور پکڑتی گئی۔ علما کرام اس میں شامل ہوتے گئے۔ جھنگ میں جامع مسجد اہلحدیث اس تحریک کا مرکز تھی۔ ظہر کی نماز ادا کی جاتی تو اس کے بعد مسلمانوں کے لئے خیر و فلاح کی خصوصی دعائیں مانگی جاتیں‘ اور ایک دن کے لئے تحریک کا پُرجوش نوجوان‘ سالار بنتا۔ اس کے ہمراہ چار دیگر نوجوانوں کو ہار پہنائے جاتے اور وہ سیدھے پولیس چوکی جا کر گرفتاریاں پیش کر دیتے۔ باقی نمازی گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ میں بھی احتجاجی جلوسوں کا ایک مستقل رکن بن گیا تھا۔ کافی دنوں کے بعد گرفتاریاں دینے والے مجاہدین کم پڑ گئے۔ ایک دن ایسا آیا کہ سالار کی دستیابی مشکل ہو گئی۔ میں اس وقت چودہ سال کا تھا۔ مجھے پکارا گیا تو میں چھلانگیں لگاتا ہوا‘ محراب کی طرف بڑھا‘ جہاں حافظ یوسف جو کہ امام مسجد تھے‘ ہاروں کے ٹوکرے کے پاس کھڑے تھے۔ وہ اپنے شکم کی وجہ سے جھک نہیں سکتے تھے‘ چنانچہ ایک نوجوان ٹوکرا لے کر کھڑا ہو جاتا۔ حافظ صاحب ٹوکرے میں سے کئی ہار اٹھاتے اور گرفتاریاں دینے والے مجاہدین اور سالار کے گلے میں ڈال دیتے۔
وہ پہلا دن تھا کہ میں ہار پہن کر مسجد اہلحدیث جھنگ کے اندر سے نکلا اور پورے مرکزی بازار سے ہوتا ہوا پولیس چوکی پہنچ گیا۔ وہاں جا کر نعرے لگائے۔ اچانک ہار اتار کے بغل میں چھپا ئے اور کھسک گیا۔ رات کو گھر جا پہنچا۔ سب کا خیال تھا کہ میں بھاگ گیا ہوں‘ لیکن رات میں نے روپوشی کی حالت میں اپنے گھر گزاری۔ اگلے روز ظہر کے وقت سیدھا مسجد گیا۔ دوبارہ ہار پہنا کے‘ سالار بنایا گیا۔ جلوس کی قیادت کی اور پھر پولیس چوکی کے قریب پہنچتے ہی‘ ہار اتارکے بغل میں دبائے اور رفو چکر ہو گیا۔ یہ ایسا وقت تھا جب مجاہدین کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے پورے سات دن جلوس کی قیادت کی اور آخری دن پولیس اہلکار‘ پہلے ہی سے چوکی سے باہر‘ ایک گلی میں بیٹھے تھے۔ سپاہی یکدم میری طرف جھپٹے اور دبوچ کے چوکی کے اندر لے گئے۔ اگلی صبح مجھے جھنگ جیل بھیج دیا گیا۔ یہ میری زندگی کی پہلی اور آخری جیل تھی۔ میرا درجہ چونکہ سالار کا تھا‘ اس لئے جھنگ جیل بھیج کر‘ مجھے بی کلاس کا قیدی ڈکلیئر کر دیا گیا۔ جیل میں آرام سے سویا۔ دو چار دن وہاں گزارے۔ ایک دن دیوار پھلانگ کر احاطے کے دوسری طرف قیدیوں میں جا ملا۔ ابھی میں نے بات شروع ہی کی تھی کہ جیل کے چار پانچ وارڈن بھاگتے ہوئے آئے۔ ابھی وہ مجھے پکڑ بھی نہیں پائے تھے کہ جھنگ شہر کا پولیس انسپکٹر احاطے میں آ گیا۔ وہ ابا جی کا پیٹی بھائی تھا۔ اس نے مجھے پکڑ کے جیل گھمائی اور کہا کہ اب جو جگہ پسند ہے‘ وہیں قیام کر لو مگر یہاں سے مت بھاگنا۔ تمہیں پتا ہے کہ جیل کے اندر کوئی دیوار پھلانگ رہا ہو تو اسے گولی ماری جا سکتی ہے۔ ابھی دو دن ہی مزید گزرے تھے کہ ایک بس آئی اور مجھے اس میں بٹھا کر کیمپ جیل لاہور بھیج دیا گیا۔
وہاں جا کر پتا چلا کہ اصل میں مجھے ملنے والی‘ بی کلاس تحفہ ہے‘ کیونکہ جھنگ جیل کے اندر بی کلاس کا انتظام نہیں تھا۔ لاہور میں احتجاجی تحریک کے لئے کیمپ جیل خالی کرائی گئی‘ اس زمانے میں یہ بچوں کی جیل تھی۔ اسی جیل میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو سزائے موت دی گئی تھی۔ جیل کا سب سے بڑا افسر‘ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ تھا۔ ڈیوڑھی سے جیل کے اندر گئے تو ہمیں کئی بیرکس کا ایک بلاک دے دیا گیا۔ شروع میں جوش و خروش بہت تھا۔ جو کھولی (کمرہ) نظر آئی‘ اسی میں داخل ہو گئے۔ ہمارے کھانے پکانے کے لئے جیل کے باورچی اور ان کے مددگار دے دئیے گئے۔ جیل انتظامیہ کی طرف سے پیش کش کی گئی کہ اپنا اپنا گروپ بنا کے‘ مرضی کے مطابق کھانے کا سامان منگوا لیں اور پکواتے رہیں۔ دوسرے دن مرضیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ اب یہ ہوا کہ ہر ضلع کے قیدیوں نے‘ اپنا اپنا گروپ بنا لیا۔ اس دوران رمضان المبارک کا مہینہ آ گیا اور سحر و افطارکے گروپ بن گئے۔ اب جھگڑا یہ شروع ہوا کہ افطار میں کیا کھایا جائے؟ اور سحر میں کیا؟ اس کے بعد فرقہ وارانہ گروپ بن گئے۔ کوئی بریلوی گروپ تھا۔ کوئی شیعہ گروپ تھا۔ کوئی دیو بندی گروپ تھا۔ غرض یہ کہ جیل میں مجھے مسلمانوں کے تمام فرقے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں وہ منظر نہیں لکھوں گا‘ جس دن سحری گروپ کے اراکین حلوہ کھا رہے تھے اور مجاہدین اسلام‘ کرچھوں سے گتکا کھیلتے۔ نماز تراویح کی جماعتیں بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر الگ الگ کھڑی ہوتیں۔ جیل کے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ کو مجاہدین اسلام کی تمام ''سرگرمیوں‘‘ کا علم ہو چکا تھا۔ وہ آتے ہی مولوی حضرات سے کہتے '' آپ خود کو پروانے کہلواتے ہیں لیکن اصل میں آپ‘ شمع رسالے کے پروانے ہیں‘‘