لندن کے جس ہسپتال میں ہمارے وزیر خزانہ‘ کنجی لے کر اچانک ملک سے فرار ہوئے اور میاں '' نوازنظریہ‘‘ میں پناہ میں لے کر‘ ہسپتال کے ایک بستر پر لیٹ گئے ‘ جو بہت دنوں سے ان کا خاندانی بستر کہلاتا ہے‘ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ہسپتال کہاں واقع ہے؟ کیوں واقع ہے؟ مریض کو ایک ہی آسن میں‘ شب وروز ایک حالت میں رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ کہیں وہ خزانے کی کنجیاں بستر پر رکھ کے‘ اس کے اوپر تو نہیں لیٹ گئے؟ کیونکہ مسلسل کئی دنوں سے‘ ایک ہی بندے کی ایک ہی تصویر ‘ ایک ہی آسن میں پڑی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ڈالر صاحب کی حالت ٹھیک نہ ہو اور وہ کروٹ بھی نہ لے سکتے ہوں۔ ہاتھوں کو حرکت بھی نہ دے سکتے ہوں۔ ٹانگیںبھی نہ ہلا سکتے ہوں۔ یہ حالت زندہ انسان کی تو نہیں ہو سکتی لیکن ڈالر صاحب کے بارے میں سنا ہے کہ موصوف صرف علیل ہیں۔اس حالت زار میں ایک ہی پاجامہ یا پتلون اور آدھی آستین کے ایک ہی کرتے میں‘ ایک ہی زاویے سے مسلسل لیٹے ہیں۔ کیا ان کے بیٹے دبئی سے لندن آکر‘ اپنے والدگرامی کوکروٹ بھی نہیں دلا سکے؟ پیٹ پر رکھے ہوئے ہاتھ کو‘ وہ ہلا کیوںنہیں پاتے؟ وہ مسلسل سیدھے لیٹے ہیں۔ کروٹ کیوں نہیں بدلتے؟ میاں '' نواز نظریہ‘‘ صرف ایک بار ڈالر صاحب کے پاس کھڑے نظر آئے ۔کیا وہ صرف ایک ہی مرتبہ‘ ڈالر صاحب کی عیادت کے لئے گئے؟کچھ پوچھنے گئے؟ کچھ بتانے گئے؟ یا صرف ڈانٹ پلانے گئے؟
عمران خان کہتے ہیں کہ ڈالر صاحب کی صحت کاکسی کو خیال نہیں۔ اصل میں ڈ ا لر صاحب‘میاں '' نواز نظریہ‘‘ کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مال ودولت کے ڈھیروں کے اتے پتے اچھی طرح جانتے ہیں۔اسی لئے میاں '' نواز نظریہ‘‘ خود ڈالر صاحب کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے اور ان سے دنیا بھر میں پھیلے خزانوں کا اتہ پتہ اور نشانیاں دریافت فرماتے ۔ جب میاں '' نواز نظریہ‘‘ ڈالر صاحب کے بسترِ علالت کے سرہانے نہیں ہوتے تو اپنے خاص آدمی کو‘ ان کے بستر کے سامنے بٹھا دیتے ہیں۔ خاص آدمی پر ایک خاص ڈاکٹر کی ڈیوٹی بھی لگا جاتے ہیں تاکہ وہ نہ تو ڈالر صاحب کو کروٹ لینے دے‘نہ بازو ہلانے کا موقع دے ۔ اور نہ ہی انہیں بستر سے اٹھنے کی اجازت دے۔ ڈالر صاحب کو وہیں پڑے رہنا پڑتا ہے ‘ جہاں انہیں رکھ دیا گیا ہے۔ ہسپتال کے عملے کو سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ
سرہانے ڈار کے آہستہ بولو
ابھی ٹک گنتے گنتے سو گیا ہے
دنیا میں ان گنت حکمران گزرے ہیں۔ ان کی دولت کا بھی شمار نہیں۔ ویسے تو میاں ''نواز نظریہ‘‘کی دولت کا بھی شمار نہیں کیا جا سکتا۔جبمیاں '' نواز نظریہ‘‘انتخابی میدان میں اترتے ہیں تو ہر جگہ دولت کا استعمال بڑی ہنر مندی سے کرتے
ہیں۔ ان کے کارندے عام انتخابات میں ووٹر سے ‘ جو سودا کرتے ہیں‘ وہ بیس سے تیس دن تک ہوتا ہے۔ انتخابی مہم شروع ہوتے ہی‘ ان کے کارندے لین دین شروع کر دیتے ہیں۔ پورے گھرانے کے بالغ افراد کو گن کر‘ ان کے حصے کی رقم‘ پولنگ والے دن ادا کی جاتی ہے۔ اس ہاتھ دے۔ اس ہاتھ لے ۔ جب تک الیکشن نہیں ہوتا‘ ووٹروں کی خوب آئو بھگت کی جاتی ہے۔ اگر انتخابی کیمپ میں کوئی ووٹر ایک دن کے لئے بھی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے تو میاں '' نواز نظریہ‘‘کے کارندے‘ پورے حلقے میں ایک ایک گھر‘ ایک ایک گھڑا‘ ایک ایک گھڑی یہاں تک ایک ایک گلاس چھان مارتے ہیں۔ اس وقت تک نہیں رکتے جب تک گم شدہ ووٹر ہاتھ نہ لگ جائے؟اگر گھر والے ‘ کارندے کو اندر لے جا کر ووٹر کی شکل دکھا د یں تو ہر طرح کا اطمینان ہو جاتا ہے لیکن ووٹر گھر پر نظر نہ آئے تو کارندے مخالف امیدوار کے کیمپ میں جا کر‘ خفیہ طور پر چھان بین کرتے ہیں کہ گم شدہ ووٹر ‘ حریف امیدوار کے کیمپ میں تو نہیں آگیا؟ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ جناب آصف زرداری‘ بلاول کی مشترکہ قیادت‘ اپنے ووٹروں کی اتنی دیکھ بھال کرتی ہے‘ جتنی ڈالر صاحب ‘میاں '' نواز نظریہ‘‘ کے خزانوں کی۔ابھی عام انتخابات کا اعلان نہیں ہوا۔ اگر انتخابات کامقررہ وقت پر انعقاد ہو گیااور حریفوں نے اپنے اپنے ووٹ‘ احتیاط سے وصول کر لئے تو پھر گنتی کے بعد فیصلہ ہو گا کہ جیت کس کی ہوئی؟جس کی جیت ہوگئی‘ وہ سب سے پہلے ڈالر صاحب کو تلاش کریگا۔ جس کے ہاتھ ڈالر صاحب لگ گئے۔ سمجھ لیں اس کی جیت ہو گئی ۔ کیسے؟اب باقی کہانی بھی میں ہی سنائوں؟