پچاس برس کا قصہ ہے۔ دو چاربرس کی بات نہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ جس تجربے سے ہم باربار گزرے۔ خو ن بہا، ہزاروں افراد جیلوںمیں گئے۔ جب بھی ختم نبوتﷺ کی تحریک اٹھی‘ ریاست اس کے سامنے بے بس ہو گئی۔ اس کے باوجود وہ کون صاحب تھے؟ جنہیں یہ پنگا لینے کا شوق تھا۔ تحریک ختم نبوتﷺ پچاس کے عشرے کے اوائل میں زور وشور سے اٹھی تھی۔ پاکستانی حکمرانوں کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ فوج نے ابھی پوری طرح قدم نہیں جمائے تھے۔ پاک فوج کے پھیلے ہوئے دستے ‘ بھارت میں سینکڑوں میل کے فاصلوں پر متعین تھے۔ دونوں ملکوںمیں جلا وطن ہونے والوں پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ پاکستانی حکومت ابھی قدم نہیں جما پا رہی تھی۔ مہاجروں کی بہت بڑی تعداد سے پنجاب اورسندھ کی معیشت پر غیر معمولی بوجھ پڑ گیا تھا۔لیکن پاکستانی شہریوں کا احسان ماننا پڑے گا کہ انہوں نے مہاجروں کی غیر معمولی تعداد کو‘ بچوں اور خواتین سمیت قبول کیا اور اپنے سارے وسائل ان کے حوالے کر دئیے۔ میں ان مقامی افراد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا جنہوں نے ہندوئوں او ر سکھوں کے مکانات اور تجارتی مراکز پر قبضے کرنے کے لئے ''وارداتیں‘‘ کی تھیں لیکن ایسے مقامی حضرات کی بھاری اکثریت‘ خون میں نہائے مہاجرین کی مدد کے لئے شب و روز مصروف تھی۔
ابھی مہاجرین پوری طرح قدم بھی نہیں جما پائے تھے کہ ختم نبوتﷺ کے سوال نے حکمرانوں کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں۔ ہماری آبادی کی بھاری اکثریت ختم نبوتﷺ پر ایمان رکھنے والی ہے۔ پچاس کا عشرہ شروع ہونے سے پہلے ہی‘ ختم نبوتﷺ کے سوال پر بدنظمی پیدا ہونے لگی۔ نئی نئی حکومت کے پاس‘ انتظامی مشینری نہ تھی اور سول نافرمانی کے ابھرتے ہوئے آثار سے نمٹنے کے لئے فہم تھا نہ تدبیر۔ حکومتی امور چلانے والے تجربہ کار نہ تھے۔ انگریزوں اور ہندوئوں کی بڑی تعداد‘ پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں موجود تھی۔ ظاہر ہے یہ لوگ تقسیم کے عمل کے دوران ہی ‘اپنے اپنے وطن میں واپس جانے لگے۔ انگریز برطانیہ روانہ ہو گئے۔ ہندو اور سکھوں نے بھار ت کا رخ کر لیا۔ اس طرح اعلیٰ درجے کی سول سروس کا خلا پر کرنے والے مسلمان بہت کم تھے۔ پورے بھارت میں مسلمان آفیسرز کی تعداد بہت کم تھی۔ پاکستانی حکومت کا ڈھانچہ ابھی مکمل ہو رہا تھا۔ پچاس کا عشرہ شروع ہونے تک پاکستان اپنی انتظامیہ تیار کرنے میں مصروف تھا۔ ابتری کے انہی دنوں میں تحریک ختم نبوتﷺ شروع ہو گئی۔ مظاہرے‘ جلسے‘ جلوس‘ لاقانونیت یہ سب کچھ ایسے حالات میں شرو ع ہوا‘ جب پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ زیرِ تکمیل تھا۔ نئے نئے حکمرانوں نے جب بڑی تعداد میں جلسے‘ جلو س‘ مظاہرے اور بدامنی کا سامنا کیا تو انہوں نے گھبرا کر فوراً ہی فوج بلا لی۔ قیادت جنرل اعظم خان کر رہے تھے۔ انہوں نے بھائی چارے کا ماحول پیدا کر کے‘ بد امنی پھیلانے والوں کو آہنی ہاتھوں سے کنٹرول کیا۔ آہنی ہاتھ صرف وہاں استعمال ہوئے جہاں شر پسند زور پکڑ رہے تھے۔ عوام کی اکثریت جو اپنے وطن کی محبت میں سرشار تھی‘ اس نے جنرل اعظم خان اور ان کے ساتھیوں سے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے امن و امان بحال ہونے لگا۔
جب ماحول میں بہتری آئی تو عوام نے ا پنی پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر امن و امان کی بحالی کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ جنرل اعظم خان نے کم و بیش پورے پاکستان کے امور‘ مختلف اوقات میں سنبھالے۔ 1953ء میں جنرل نے بالخصوص پنجاب میں سول نا فرمانی پر قابو پا کر‘ امن و امان قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایوب حکومت نے جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا۔ انہوں نے اپنی شاندار انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے‘ مشرقی پاکستان میں
ابھرتی ہوئی بغاوت کو‘ دیکھتے ہی دیکھتے ٹھنڈا کر ڈالا۔ لیکن جنرل صاحب نے مشرقی پاکستان میں جن ابھرتی ہوئی بغاوتوں پر قابو پا کے‘ علیحدگی پسندی کے رجحانات کی جگہ‘ حب الوطنی کا ماحول پیدا کیا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ موقع ملا تو جلد ہی لکھوں گا۔ میرا مشرقی پاکستان کی قیادت سے قریبی تعلق رہا ہے۔ جنرل اعظم خان کچھ عرصے کے لئے کراچی کی انتظامی امور کے انچارج بنے تو انہوں نے بے گھرغریبوں کے لئے کورنگی کالونی بنائی۔ وہاں رات کے وقت گیس لیمپوں سے کام کیا جاتا اور جنرل صاحب رات کے کسی بھی وقت خود جا کر تعمیراتی کاموں کی نگرانی کرتے۔
ان دنوں لبیک یارسول اللہﷺ کی تحریک شروع کی گئی۔ اس کی بنیاد موجودہ حکومت نے رکھی۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے پاکستان پر دبائو ڈالا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی فہم و فراست کے تحت آئین میں مستقل ترمیم کر کے‘ جس تنازع کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا تھا‘ چند روز سے دوبارہ امریکی صدر ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ‘ پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے پر زور دینے لگی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور ان کے لگائے ہوئے وزیراعظم نے‘ امریکی دبائو کے تحت ا س ترمیم کے ساتھ چھیڑ خانی کی
بھُس میں ڈال چنگاری جمالو دور کھڑی
حساس ترین مذہبی جذبات کو بھڑکا کے جو بحران کھڑا کیا گیا‘ اسے فوری طو رپر چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل قمر جاوید باجوہ قابو میں لائے۔ انہوں نے بھڑکتی آگ کے شعلے ضرور ماند کر دئیے لیکن (ن) لیگی حکومت جس سمجھداری سے کام لے رہی ہے‘ اس کے ہوتے ہوئے پاکستانی قوم کے لئے سکھ چین سے رہنا آسان دکھائی نہیں دے رہا۔ آگ ابھی سلگ رہی ہے۔ حماقت ابھی برسر اقتدار ہے۔ عاشقا ن رسول ؐ کے پہلے اجتماع میں وزیر داخلہ‘ احسن اقبال نے ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر دعویٰ کیا تھاکہ ''میں پورے ملک میں پھیلتی ہوئی بدامنی کو ٹھیک کر دوں گا۔ میں صرف فیض آباد کا وزیرداخلہ نہیں پورے ملک کا وزیر داخلہ ہوں‘‘۔