"NNC" (space) message & send to 7575

جو ہوتے ہوتے رہ گیا

قائداعظمؒ محمد علی جناح تاریخ کی غیر معمولی شخصیت تھے۔انہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک ایسے خطے میں آزاد وطن کی بنیاد ڈالی‘ جس کی ستر فیصد کے قریب آبادی مسلم دشمن تھی۔ دونوں بڑی قومیں یعنی ہندووںاور مسلمانوں کی سیاسی قیادتیں‘ برطانوی طرز کے جمہوری نظام کی روشنی میں اپنی سیاسی جدو جہد کر رہی تھیں۔ستر سال گزر جانے کے بعد‘ آج ہندو قیادت‘ انتہائی تنگ نظر اور متعصب ہے۔ پاکستانی قیادت کا تو یہ حال ہے کہ ہمارے ایک سابق وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ عزت مآب جج صاحبان نے آئین کی رو سے ایک فیصلہ سنایا ‘جو نااہل وزیراعظم کو ناگوار گزرا۔ سابق وزیراعظم نے پورے ملک میں جلسے منعقد کر کے‘ سپریم کورٹ کے ان معزز جج صاحبان کی عامیانہ کردار کشی شروع کر دی جو آج بھی جاری ہے۔ جدو جہد آزادی کے اس دور میں‘ اخلاقی پستی‘ سرمائے کی اندھی طاقت اور پانچ گنا طاقت اور بے اصولی کے ساتھ ‘ مسلمانوں سے ان کا جائز حق غصب کر لیا۔ خصوصاً جموں و کشمیر کی ریاست پر بھارت نے‘ تقسیم کے طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا قبضہ جما لیا ۔ جنگ آزادی کے رہنمائوں سے محروم ہونے کے بعد‘ ہمیں ورثے میں جو قیادت ملی‘ وہ انگریز کے پٹھوں اور ہندو وںکے خوشامدیوں پر مشتمل تھی۔یہ ٹھیک ہے کہ تقسیم کے ردعمل میں ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر‘ ہندووں اور ان کے فریب میں آجانے والے سکھوں نے گٹھ جوڑ کر کے لرزہ خیز مظالم ڈھائے۔ ہندوستان سائز اور آبادی میں بہت بڑا تھا۔ بھارت میں ہندو اکثریت کے مقابلے میں ‘ تھوڑی سی مسلم آبادی والے چھوٹے ملک میں ‘بے رحمانہ قتل عام کیا گیا۔ ان کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کر کے بے سرو ساماں‘ نومولودپاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اب مجھے ایک وقفہ لینا پڑے گا۔
قائداعظمؒ اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد‘ جن جاگیرداروں اور خوشامدیوں کو حکومت ملی‘ ان کے پاس نہ قائدؒ کے معیار کی سیاسی سوجھ بوجھ تھی۔نہ عوام دوستی کا جذبہ ان کے پاس تھا اور نہ ہی فہم و فراست ۔ اس دور میں امریکہ واحد طاقتور ملک اور نا قابل تسخیر سپر پاور تھا۔ دوسر ی طرف جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد‘ امریکہ بد مست ہاتھی کی طرح ‘ ساری دنیا میں دندنا رہا تھا۔ یورپ کی بڑی طاقتیں اور سوویت یونین‘ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے زیر اثر تھیں۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم‘شہید لیاقت علی خان نے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ‘ دانش مندانہ خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ سب سے پہلے‘ نوابزادہ لیاقت علی خان نے سوویت یونین کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا لیکن سامراجی پٹھو جو بیوروکریسی کے زیر اثر تھے‘انہوں نے وزیراعظم کو گمراہ کر کے‘ جنگ عظیم کے کاغذی شیروں کے ساتھ وفاداری کا ایسا رشتہ استوار کیا‘ جس سے باہر نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔
1970ء میں مشرقی پاکستان کے عوام نے ‘ مغربی پاکستان کے حکمرانو ںکی چالبازیوں سے تنگ آکر‘ اپنا اکثریتی حق مانگا توطرح طرح کے حیلے بہانے بنا کر مشرقی پاکستانیوں کو ان کے اکثریتی حق سے محروم رکھا۔ جب1970ء میں ''ایک شہری ایک ووٹ‘‘ کے اصول پر عام انتخابات کرائے گئے تو جمہوری اصولوں کے تحت‘ مشرقی پاکستان کے لیڈروں نے ‘ قومی اسمبلی میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لی۔ایوب خان نے پاکستان میں رہی سہی جمہوریت کو پامال کیا تو ذوالفقار علی بھٹو‘ شیخ مجیب الرحمن کے مقابلے میں آکھڑے ہوئے۔ جمہوریت پسند قوتیں بہت کم تعداد میں تھیں۔مشرقی پاکستان کے ایک ووٹ کو چھوڑ کے تمام رائے دہندگان نے شیخ مجیب کی قیادت میں‘ فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لی۔شیخ مجیب کا موقف یہ تھا کہ وہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر پورے پاکستان میں حکومت بنائے۔ حکومت پر فوج کا قبضہ تھا۔سرمایہ دار اور جاگیردار‘ جرنیلوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے‘ مغربی پاکستان کی چند سیٹیں ‘شیخ مجیب الرحمن کے سپرد کر کے اسے شکست دلوانے کا منصوبہ بناچکے تھے۔ بھٹو صاحب اس عوام دشمن گٹھ جوڑ کو مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمائندوں کی حمایت لے کر ایک ترقی پسند حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی مڈل کلاس قیادت کا رجحان‘ ترقی پسندی کی طرف تھا لیکن شیخ مجیب الرحمن ‘ مشرقی اور مغربی پاکستان کے موقع پرستوں کا گٹھ جوڑ کر کے پورے پاکستان پر حکومت کرنا چاہتا تھا۔
مزید لکھنے کی گنجائش نہیں۔ سیاست کے طالب علم بخوبی جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن بھارت کے سرمایہ داروں کا آلہ کار تھا۔وہ پورے ملک کی حکومت لینا چاہتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن جب پورے پاکستان میں آخری مرتبہ ‘ انتخابی مہم کے سلسلے میں لاہور آیا تو وہ اپنے سیاسی رفقا کے ساتھ‘ برکت علی سلیمی کے گھر ‘شاہ جمال کالونی میں قیام پذیر ہوا۔شیخ مجیب کی ساری کابینہ ہمراہ تھی۔اس نے بے خوف و خطر اپنا اصل منصوبہ مجھے بتا دیا‘ جو یہ تھا کہ ''کشمیر تو ہمارا مسئلہ نہیں۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ہم بھارت کے ساتھ یہ مسئلہ آسانی سے حل کر لیں گے‘‘ ۔ ان چند لفظوں میں میرے سامنے سارا نقشہ آگیا۔ رہا سہا پاکستان جوہم آج لئے بیٹھے ہیں‘اسے بھٹوصاحب نے بچا لیا ورنہ شیخ مجیب کی فیصلہ کن اکثریت پاکستان پر مسلط ہو جاتی۔ صرف مشرقی پاکستان ہی نہیں‘ مغربی پاکستان بھی مودی کے کنٹرول میں ہوتا۔قدرت کی بھی کیا ستم ظریفی ہے؟پاکستان کے دونوں حصوں میں‘ دو لیڈروں نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کی۔ پہلے حکومت شیخ مجیب نے حاصل کی اور حکمران ٹولے کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ بعد میں بھٹو صاحب نے باقی ماندہ پاکستان بچایا‘انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اب بنگلہ دیش ‘ بھارت کے زیر اثر ہے اورمغربی پاکستان...؟مودی مغربی پاکستان پر بھی کمندیں ڈال رہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بیٹھا ہوا پورے کشمیر کا لیڈر شیخ عبداللہ انتباہ کر رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں بن چکے ہیں۔ دونوں ممالک اگر تباہی سے بچنا چاہتے ہیں توکشمیریوں کو خود مختاری دے کر‘ برصغیر کی تینوں مسلم ریاستوں کے ساتھ ایک فیڈریشن بنا لیں۔ غالباًیہی بھٹو صاحب کا تصور تھا۔ لیکن طاقتور استحصالی طبقے‘ برصغیر کے تمام مسلمانوں کو یکجا کیسے ہونے د یں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں